قتل کرنے کے کئی بہانے

منگل 18 اپریل 2017

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

پاکستان کی اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ اسے 30 یا 35 سالوں میں دو مختلف رویوں کا سامناکرناپڑا ہے، آج کی نوجوان نسل شاید تیس سال پہلے کے معاشرتی روئیے کو محسوس نہ کرسکے لیکن یہ بات ببانگ دہی کہی جاتی ہے کہ آج کا الٹ رویہ تیس سال پہلے کے روئیے کا ردعمل ہے۔ تیس سال پہلے جنرل ضیا الحق کادور تھاجب ہرسو اسلام اسلام کے آواز ے اٹھتے تھے اور دورجدید کے لبرلز میں سے بے شمار ”اسلامائزیشن “ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اس وقت کی ترجیحات تھیں یا عالمی طاقتوں کی ضرورت ،اسلام کانام اس وقت لیاگیا بلکہ استعمال کیاگیا کہ الامان والحفیظ، آج ٹھیک تیس بتیس یا 35سال کے بعد معاملات بالکل الٹ چل رہے ہیں، ماضی کے وہ اسلامائزیشن کے پرچارک خود کو لبرلز کی فہرست میں گھسیٹے ہوئے ہیں توان کی دیکھا دیکھی لبرلز کی اگلی صف بھی تیار ہوچکی ہے۔

(جاری ہے)

اسلام ماضی میں عالمی طاقت کی ضرور ت بن کر استعمال ہوا اورآج کی ضرورت شاید یہ ہے کہ اسلام اوراس کے ماننے والوں کو اس حد تک بدنام کردیاجائے کہ کوئی بھی خود کو ”مسلمان“ کہتے ہوئے شرما جائے ۔اسلام کی عمارت جس ڈھانچے پر استوار ہوتی ہے اس کا ایک ستون جہاد بھی ہے اسی ستون کو اس غلط انداز میں دوبھینسوں کی لڑائی میں اس قدر استعمال کیاگیا کہ آج جونہی یہ لفظ سامنے آتا ہے تو لوگوں کے روئیے بد ل جاتے ہیں، غیر مسلموں کی تو بات ہی الگ ، اب تو مسلمانوں کے سامنے بھی جہاد کا نام آئے تو فوراً ہی تردید کردی جاتی ہے کہ ہم جہادی نہیں۔

یہ رویہ معاشرتی اعتبار بڑی طاقتوں کی بدولت وارد ہوا ۔ جیسا کہ ابتدا میں عرض کرچکے ہیں کہ ماضی میں اسلام ضرور ت تھی اور آج بھی اسلام ضرورت ہے مگر الٹے معنوں میں۔ عالمی طاقتوں کو اپنی جگہ لڑنے یا سینگ پھنسانے کیلئے جب کبھی بھی میدان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اپنی سرزمین استعمال نہیں کرتیں بلکہ یہ معرکہ دوسری سرزمین پر لڑا جاتا ہے اور دو نوں طرف اچھلتے کودتے میزائل دراصل اپنے اپنے مفادات کی عکاسی کررہے ہوتے ہیں لیکن نقصان کس کا ہوتا ہے؟؟؟
اب تو بات اس سے بڑھ کر اور ایک جانب چل نکلی ہے کہ اب مسلمانوں کے اندر موجود فرقوں، تقسیم درتقسیم کے عمل کو مزید تیز کرکے اس حد تک ایک دوسرے سے دورکردیاجائے کہ انہیں ایک دوسرے سے گھن آنے لگے، یہ بھی وقت کی سپریم پاورز یا عالمی طاقتوں کے مفادات کاہی حصہ ہے۔

اب یہ کہنا کہ اگر پاکستان کے صوبہ کے پی کے کی ایک یونیورسٹی میں مارا جانیوالا نوجوان بھی کیا عالمی طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہوا ؟ تو کہاجاتاہے کہ یہ قتل بھی بالواسطہ طورپر اسی کا ہی حصہ ہے ۔ اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہاتھ بے شک عالمی طاقتوں کے استعمال نہیں ہوئے البتہ انکی انگلیوں پر رقص کرتی پتلیاں ضرور استعمال ہورہی ہیں۔ وہ کیسے؟ایک مشکل سوال مگر جواب سیدھاسادھا سا ہے کہ اس آفاقی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو جنونی اور انتہا پسند تو خیر پہلے سے ہی مشہور کردیاگیا اور ان کی برداشت کو عدم برداشت کانام دیکر دنیا بھر میں ایک ایسا خونخوار چہرہ پیش کیا گیاکہ بیرونی دنیا کے معصوم بچے مسلمان یا اسلام کانام سنتے ہی چیخنے لگتے ہیں حالانکہ اسلام بذات خود صبر ،برداشت اور عطا کانام ہے لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے۔

لیکن جیسا کہ کہاجاتا ہے کہ بندر کے ہاتھ اگر استرا آجائے تو وہ اپنے مالک کا بھی نقصان کرنے سے باز نہیں آتا ۔ سو آج کل باگ دوڑ جن کے ہاتھوں میں چلی گئی اور پھر اسکے بعد سلسلہ مزید دراز تر ہوتے ہوتے اب یہاں تک آن پہنچا ہے کہ مردان جیسے کسی بھی واقعہ پر مسلمانوں کو وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ ”اس میں ہم ذمہ دار نہیں“ ۔دوسری جانب لبرلز کی اچھل کود اور کسی بھی واقعہ کے فوری ری ایکشن کے طورپر اسلام اور اس کے ماننے والوں پر ایسے ایسے تیر مارے جاتے ہیں کہ ان کی مثال دینا عبث ہے۔


اب اگر مردان یونیورسٹی کے واقعہ کو لیاجائے تو ابھی یہ واقعہ پوری طرح سے اپنی اصلیت کھول نہیں پایا، ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ قتل ہونیوالے کو کن وجوہات کی بنا پر قتل کیاگیا، کیااس قتل کے پیچھے وہ وجہ ہے جو بیان کی جارہی ہے یا اس کے پس پردہ دوسرے عوامل بھی تھے، لیکن اس واقعہ کے فوری بعد ہی دو ہی باتیں کھل کر بیان کی جاتی رہیں، ایک توہین رسالت ایکٹ، دوسرا مولوی؟؟ لیکن اب تک کی صورتحال میں دونوں قصوروار نہیں ٹھہرائے جاسکتے کیونکہ ابھی تحقیق اور مزید تحقیق باقی ہے۔

جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوجاتاہے کہ مقتول ”توہین “ کی آڑ میں قتل کیوں ہوا ۔ فی الوقت اس واقعہ میں کسی مولوی کا ہاتھ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی امام مسجد کے اکسانے کاذکر کیاگیا ، دوایک افراد کو نامزد کیاگیا ہے لیکن ہمارایقین ہے کہ یہ معاملہ مذہب کا نہیں ہے بلکہ قاتلوں نے مذہب کو اپنی سیفٹی کیلئے استعمال کیا ۔ فی الوقت مقتول کی فیس بک آئی ڈیز کا تواتر سے ذکر ہورہا ہے ۔

ان آئی ڈیز پر جس غلیظ انداز میں نبی مکرم کی توہین کی گئی ہے وہ بذات خود لمحہ فکریہ ہے؟ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر یہ آئی ڈیز واقعی مقتول کی نہیں تھیں تو یقینایہ جاننا بھی ضرور ی کہ جس نے یہ حرکت کی وہ بذات خود توہین رسالت کا مرتکب ضرور ہوا ہے۔ اگر تووہ جملے مقتول کے نہیں توپھر قاتلوں میں سے ہی کوئی اس کاذمہ دار ہے؟؟ اب آخری بات کہ قاتل ہیں کون؟ وہی جنہیں مقتول سے کوئی خطرہ تھا؟؟ اب یہ تحقیق کرنا اداروں کا کام ہے کہ مقتول کس کیلئے خطرہ تھا اور وہ کونسا خفیہ ہاتھ ہے جو اسلام کو استعمال کرکے اسلام کی ہی بدنامی کاباعث بن رہا ہے۔


راولپنڈی کے ایک خوبصورت شاعر اور نفیس انسان احمد رضاراجہ نے بڑی ہی خوبصورت بات کہی ، اس کا ذکر یہاں ضروری ہے کہ موجودہ گھٹن زدہ ماحول میں کم ازکم ہمیں تازہ ہوا کا جھونکا ضرور محسوس ہوئی ۔ لکھتے ہیں ”یہ قانون ِ توہین ِ رسالت ہی ہے ,جسکے باعث اندھا دھند قتال کا رستا بند ہے یہ قانون نہ ہو تو ہر یورنیورسٹی ,کالج میں آئے روز قتل کئے جائیں , اس قانون کی مخالفت توہین ِ رسالت کے نام پر قتال کا در وا کرنے والی بات ہے“
آخری بات کہ شدت پسندی کاطعنہ دینے والوں کے اپنے رویوں کی شدت خود ان کے اپنے لفظوں کی تردید بن کر سامنے آتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :