اُلٹے سیدھے کمیشن ، اور دھوتی

منگل 18 اپریل 2017

Hussain Jan

حُسین جان

کہاں سے شروع کروں کچھ سمجھ نہیں آرہی چلیں حمود الرحمان کمشن رپورٹ سے شروع کرتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنا بڑا نقصان نہیں ملتا جس میں سو دوسو لوگ نہیں بلکہ کروڑوں لوگ ہم سے جدا ہو گئے۔ اس کیمشن نے ایک رپورٹ تیا ر کی جس میں مشرقی پاکستان کے سانحہ کے زمہ داروں کا تعین کیا گیا تھا یا نہیں لیکن حکومتوں نے اس رپورٹ کو عام عوام کے ساتھ شئیر نہیں کیاکہ سیدھی سی بات ہے کہ الزام یا تو سیاستدانوں پر لگا ہو گا یا ملٹری پر ۔

لہذا اس رپورٹ کو پبلک کرنے سے فرق صاحب اقتدار کو ہی پڑنا تھا سو اس رپورٹ کو کہیں کھڈے میں پھینک دیا گیا۔
اُس کے بات اُسامہ بن لادن کی پاکستان میں امریکی میرین کے ہاتھوں ہلاکت پر بھی ایک عدد کیشن بنا اور مزئے کی بات اس کی رپورٹ کو بھی منظر عام پر آنے نہیں دیا گیا۔

(جاری ہے)

کسی ملک کے لوگ رات کے اندھرئے میں ہماری سرزمین میں داخل ہوتے ہیں ایک بندے کو مارتے ہیں اور اُس کی لاش کو لے کر چلتے بنتے ہیں۔

اسی شہ پر انڈیا نے پاکستان کے علاقے میں حملے کی ڈھینگ ماری تھی۔ چلو مانا کے مرنے والا دُنیا کا سب سے بڑا دہشت گردتھا۔ مگر کیا کسی کو اتنی اجازت دی جاسکتی ہے کہ آؤ ہمارے گھر پر حملہ کر دو۔ بڑی سیدھی بات ہے اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے بھی بڑئے لوگوں پر ہی الزام لگنا تھا۔ تو پھر ایسے بھی رات کے اندھرئے میں بھینک دیا گیا۔ کیونکہ صاحب اقتدار جانتے ہیں کہ اس ان پڑھ قوم میں اتنی سکت نہیں کہ اپنا حق مانگ سکے۔

پھر سنا یہی حال سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کے ساتھ بھی کیا گیا۔ پوری دُنیا نے ویڈیو دیکھی کہ کیسے عام اور نہتے پاکستانیوں پر پاکستانی پولیس نے ہی گولیاں برسائیں۔ اس سے قطہ نظر کے مرنے والوں کا کس سیاسی یا مذہبی تنظیم سے تعلق تھا تھے تو وہ بھی انسان کسی کے باپ کسی کے بیٹے کسی کی ماں کسی کی بہن ۔ کیا کسی سز ا کوملی ۔
چلو اب بات شروع کرتے ہیں اُس سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ پر جسے منظر عا م پر لایا گا اور مزے کی بات قصور صاحب اقتدار کا ہی نکلا لیکن بدقسمتی سے جناب نے الزام سے ہی انکار کردیا اور برملا یہ ارشاد فرمایا کے میں اس رپورٹ کو نہیں مانتا۔

یعنی جو مرضی کر لو صاحب اقتدار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پاکستان میں انصاف کا معیار ایسا ہے کہ پوری دُنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ دُنیا میں مہنگا ترین انصاف پاکستان میں ہے۔ اور وہ بھی غریب کے لیے اور امیر کے لیے اور۔ یہاں لوگ پوری پوری عدالت کو ہی خرید لیتے ہیں۔ وکیل صاحبان جج کو ہی پھینٹی لگا دیتے ہیں۔ تو ایسے میں انصاف کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔

ان وجوہاتکیبنا پر لوگوں کا انصاف سے اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ لوگوں کو پتا ہے تھانے میں اُسی کا راج ہو گا جس کی جیب بھاری ہو گی۔ غریب کو تو اسے مارتے ہیں پولیس والے جیسے گلی کے کتے کو مار ا جاتا ہے۔ اپنی مرضی سے کیس بناتے ہیں مرضی سے دفعہ لگاتے ہیں تو ایسے میں انصاف کی اُمید رکھنا پاگل پن سے زیادہ کچھ نہیں۔
بات بڑی سیدھی کہ پاکستان میں لوگوں کو کسی پر اعتمار نہیں رہا۔

پہلے لوگوں نے سوچا افتخار صاحب آئے ہیں اب انصاف سستا ملے گا ۔ سب کے لیے قانون ایک سا ہو گا۔ مگر معذرت کے ساتھ اُن کو سوائے پی پی کے کوئی اور کیس نظرہی نہیں آتا تھا۔ بڑئے بڑئے لوگوں کے بیٹے غریب کا قتل کر دیتے ہیں مگر انصاف خاموش رہتا ہے۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ اگر معاملہ تھانے میں ہی حل ہو جائے تو بہتر ہے کیونکہ تھانے میں تھوڑے روپے لگا کر ہی انصاف مل جاتا ہے کہ یہاں مانگنے والے کم ہوتے ہیں جبکہ اگر کیس عدالت چلا گیا تو چپڑاسی سے لے کر اُوپر تک سب کھلانا پڑتا ہے۔

آج تک کسی بڑئے کو سزا نہیں ہوئی۔
ملک میں قانون کے مطابق اگر انصام ملتا ہو تو لوگوں میں اعتمادکی فضاء قائم رہتی ہے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ یہاں موٹی موٹی موٹر سایکلیں دے کر سمجھا جاتا ہے کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ تو یہ سب کی خام خیالی ہے جب تک ملک میں مثالی فیصلے نہیں ہوں گے ملکی حالات بہتر نہیں ہوسکتے ۔

لوگوں پر ظلم بند نہ کیا گیا تو یہ حالات مزید بگڑئیں گے۔ مثال خان کی مثال واضع ہے۔ ابھی تک لوگ اور سٹیٹ اس بات پر ہی متفق نہیں ہو سکے کہ آیا اُس نے توہین کی تھی یا نہیں۔ وزیر آعظم سے لے کرعام وزراء تک سب نے اس فعل کی مذمت کی ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اب ہم مذمت کی دوڑ سے بہت آگے نکل آئے ہیں اب ہمیں مزاحمت کی ضرورت ہے۔ ایسے واقعات پر فوری فیصلہ دینا ریاست کی زمہ داری ہے۔

اسلام ایک ایسا مذہت ہے جو ہمیں امن اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلام اور حضور ﷺ کی توہین کرنے والوں کوحکومت کی طرف سے سخت سے سخت سزا دینی چاہئے ہمارے ہاں یہ رواج ہے جب کوئی سخص توہین رسالت کرتے پکڑا جاتا ہے تو بہت سے مداری اُسے بچانے نکل پڑتے ہیں ۔ اسی طرح بہت سے لوگ اس قانون کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں ۔

جو بھی صورتحال ہو زمہ داری ریاست کی ہی ہے کہ ملک میں ایسے واقعات کی روک تھام کرے۔ خالی کمشن بننے سے کوئی کام نہیں بنتا جب تک کمیشن کی رپورٹوں عام نا کیا جائے گا اور رپورٹ میں موجود سفارشات پر من و عن عمل نا کیا جائے گا عوام ایسی کمیشنوں پر یقین نہیں رکھیں گے۔ اگر حکومت ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنا چاہتی ہے تو قانون اور انصاف کو عام کرنا ہو گا۔

لوگ قانون کی عزت تب ہی کریں گے جب قانون کی طرف سے تحفظ ملے ۔ خالی وردی بدلنے سے تو قانون تبدیل نہیں ہو جاتا ۔ رویاجات بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تھانہ کلچر ل تبدیل کرنا پڑئے گا۔ عام لوگوں کو تھانے میں عزت دینی اور مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دینی ہو گی تب ہی کمیشنوں کا فائدہ ہے۔ ورنہ کمیشن یوں ہی بنتے رہیں گے اور لوگ بدظن سے مزید بدظن ہوتے رہیں گے۔ اور ملک کبھی ترقی نہیں کرپائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :