نام تو سنا ہو گا آپ نے ۔۔۔۔

اتوار 16 اپریل 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

جناب آج آپ کی یاداشت کا امتحان ہے۔ آپ کے ذہنوں کی آزمائش ہے۔ آج آپ کی عمیق نگاہ درکار ہے۔ آپ کی دانش سے کچھ مطلب ہے۔ کچھ نتائج نکالنے ہیں۔ کچھ مفاہیم دریافت کرنے ہیں۔ کچھ تفتیش کرنی ہے ، کچھ تشویش کا مرحلہ ہے۔ کچھ حقائق کی طرف توجہ دلانی ہے۔ کل جو کچھ ہوا اسکو آج کیسے دیکھا جا رہا ہے او ر جوآج ہو رہا ہے اسکے معنی کل کیا ہوں گے اس پر بات کرنی ہے۔


آصف زرداری کا نام تو سنا ہو گا آپ نے۔ ان کے کارہائے نمایاں سے بھی وقف ہوں گے؟ان پر ہر طرح کے جرائم کے الزامات لگتے رہے۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ان پر کرپشن کے الزامات لگنے شروع ہوئے اور ان پر مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب چپکانے کی کوشش کی گئی۔ سب سے پہلے انیس سو نوے میں انہیں صدر غلام اسحاق خان کے دور میں ایک برطانوی تاجر مرتضٰی بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر آٹھ لاکھ ڈالر اینٹھنے کی سازش کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔

(جاری ہے)

لیکن انہی غلام اسحاق خان نے بعد میں آصف زرداری کو رہا کردیا۔پانچ نومبر 1996ء کو دوسری بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد آصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں آیا۔ نواز شریف حکومت کے دوسرے دور میں ان پر سٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور سپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد کیسز بنائے گئے۔

اس طرح کی فہرستیں بھی جاری ہوئیں کہ آصف علی زرداری
نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں نو، امریکہ میں نو، بلجیئم اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ جبکہ اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لئے سمندر پار کوئی چوبیس فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں۔

میڈیا میں آصف زرداری کی کرپشن کو خوب اچھالا گیا۔ ہر شخص نے اتنے بھیانک جرائم پر لعنت ملامت کی۔ اس دوران انہوں نے تقریباًً دس سال قید میں کاٹے اور 2004ء میں سارے مقدمات میں بری ہونے کے بعد ان کو رہا کردیا گیا-ان دس سالوں میں ایک بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔الزام ثابت ہونا تو درکنار آصف علی زرداری اس ملک کے صدر بنے اور پانچ سال تک اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔

دور صدارت کے بعد بھی کرپشن کے الزامات کی شدت اسی طرح قائم رہی اور چپقلش اسقدر بڑھی کہ زرداری صاحب کو ملک چھوڑتے ہی بنی۔ لیکن ابھی ایک سال اور چند مہینے ہی گزرے تھے کہ معاملات درست ہونے لگے اور سابق صدر پورے طم طراق سے ملکی سیاست میں آدھمکے اور پنجاب کو تسخیر کرنے کے دعوے کرنے لگے۔
ڈاکٹر عاصم کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا۔ زرداری دور میں پٹرولیم کے وزیر تھے۔

ان پرلگنے والے الزامات کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔۔ان پر منی لانڈرنگ، غیر قانونی طور پر زمینوں پر قبضہ کرنے اور بدعنوانی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ چار سو باسٹھ ارب کی کرپشن بھی سامنے آئی ۔ دہشت گردوں کے علاج معالجے کا الزام بھی لگا ۔ اچانک چھاپہ مار کر انکو گرفتار کیا گیا۔ اس دوران ڈاکٹر عاصم کے خلاف میڈیا سرگرم رہا ۔ کرپشن کا ہر کیس انہی کے نام سے موسوم ہوتا رہا۔

انیس ماہ قید رہنے کے بعد یہ سب الزام بوگس اور جعلی نکلے ۔ داکٹر عاصم باعزت طور پر ضمانت پر رہا ہو گئے۔
ایان علی کا نام تو سنا ہو گا آپ نے۔ پاکستان کی ٹاپ ماڈل ۔اسلام آباد سے نجی ایئرلائن کی پرواز کے ذریعے دبئی روانہ ہورہی تھیں لیکن اے ایس ایف کے کاؤنٹر پر پہنچ کر جب ان کے سامان کی تلاشی لی گئی تو ان کے بیگ کے خفیہ خانوں سے 5 لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم برآمد کی گئی جس پر انہیں غیر ملکی کرنسی اسمگل کرنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔

ہر روز انکو عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ سیاسی شخصیات کے ساتھ سکینڈل بنائے گئے۔کردار کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ یہ خبر بھی آ گئی کہ ایان علی اکیاسی منی لانڈرنگ کے دورے کر چکی ہے۔ملک کا سارا سرمایہ ایان علی کے توسط سے دوبئی منتقل ہو رہا ہے۔کچھ نے پھانسی کی سزا تجویز کی کچھ نے عمر قید کی درخواست کی۔ لیکن ہوا کیا۔ایک دن اچانک ایان علی کو عدالت سے باعزت طور پر بری کر دیا گیااور وہ ملک سے باہر چلی گئیں۔


شرجیل میمن کا نام تو سنا ہی ہو گا آپ نے۔سند ھ کے وزیر اطلاعات تھے۔ اچانک گھر سے اربوں روپے برآمد ہو گئے ۔ لانچوں سے ڈالروں کی بوریاں نکل آئیں۔ عذیر بلوچ کے ساتھ تصویریں برآمد ہو گئیں۔ کچھ خفیہ وڈیوز سامنے آگئیں۔ملک میں کہرام مچ گیا۔میڈیا میں آگ لگ گئی۔شرجیل میمن ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ خبریں آنے لگیں کہ انٹر پول سے رابطے ہو رہے ہیں۔

ریڈ ورانٹ جاری کر دیئے گئے ہیں۔میڈیا نے اس بات کو خوب ہوا دی۔ پیپلز پارٹی کے خوب لتے لیئے گئے۔ دن رات ان کے فرار کی پرسرار داستانیں سنائی گئیں۔لیکن ہوا کیا ۔ شرجیل میمن واپس آئے۔ ایک بھی ثبوت نہ ملا۔ کچھ ڈانٹ ڈپٹ ہوئی۔ ایک گھنٹہ صلواتیں سنائی گئیں ۔ اور بس۔
حامد سعید کاظمی کا بھی نام تو سنا ہی ہوگا۔ وزیر حج کا کیس بھی یاد ہوگا۔

حج سیکنڈل میں اچانک ان کا نام آگیا۔ اربوں کی کرپشن سامنے آئی۔ میڈیا نے خوب ڈھول بجایا۔ہمیں بتایا گیا کرپشن کامنبع یہ ایک شخص ہے۔ حاجیوں کو تکلیف دینے کی وجہ سے جی بھر کر بد عائیں دی گئیں۔ کبھی سزا سولہ سال قید مشقت تجویز کی گئی۔ کبھی اسکو چھ سال کر دیا گیا۔ ہر طرف سے پھٹکارے جانے کے بعد تین سال بعد اچانک انکو باعزت طور پر بری کر دیا گیا۔

کرپشن کے الزامات ختم ہو گئے۔ بدعنوانی کے ثبوت ہو ا ہو گئے۔ میڈیا کی زبان بھی بند ہو گئی۔
آج میڈیا میں ایک بار پھر ہاہا کار مچی ہے۔ عذیر بلوچ کا نام تو سنا ہی ہو گا آپ نے ۔۔۔۔۔
مجھے کوئی اختیار نہیں ہے کہ میں ان مندرجہ بالا شخصیات میں کسی کو مجرم یا بے گناہ کہوں ۔ یہ عدالتوں کا کام ہے۔ لیکن ان سب کیسز کو غور سے دیکھیں تو بات سمجھ آتی ہے کہ چلے ہوئے کارتوس بھی کبھی کبھی آزمانے پڑ جاتے ہیں۔

جنکی تضحیک کی جاتی ہے ان کو ہی سر پر بٹھانا پڑ جاتا ہے۔ ایسے میں الزام لگانے والے ہی رہائی کی دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔گرفتار کرنے والے ہی ضانتیں کرواتے ہیں۔ ایسے میں وکیل استغاثہ کی گویائی ہی ا چانک سلب ہو جاتی ہے۔ میڈیا کو اچانک کچھ اور دھندے سوجھ جاتے ہیں۔ شائد منصوبہ سازوں کے ذہن میں لٹے پٹے لوگوں کا کوئی اور مصرف سمجھ آجاتا ہے۔ آپکی یاداشت سے صرف اتنا سا امتحان مقصود ہے کہ ذہن پر زور ڈال کر جواب دیں کہ یہ لوگ واقعی کرپٹ ہیں یا کسی بڑی بساط کے مہرے؟ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا انصاف کی صرف آنکھوں پر ہی پٹی ہے یا اسکے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں؟
انصاف ہمارے ہاں کا نعرہ تو ہے مگرسماجی، سیاسی، معاشی طرز عمل نہیں۔

ہم بے انصافی کو خود شہہ دیتے ہیں۔ اور یاد رکھیں،بے انصافی شدت کو پروان چڑھاتی ہے۔ شدت ، نفرت میں بدلتی ہے ۔ ایسے میں لوگ انصاف کی کچہریاں گلی کوچوں میں لگا لیتے ہیں۔۔ سچ جھوٹ کا فیصلہ بعد میں ہوتا ہے۔ سزا پہلے سنا دی جاتی ہے۔ عبد الولی خان یونیورسٹی میں مشعال خان کا بہیمانہ قتل اسی نفرت انگیز شدت پسندی ، جہالت اور بے انصافی کی ایک کڑی ہے۔ ابھی ان کڑیوں نے مل کر ہمارے حلق کی زنجیر ہونا ہے۔اک بھیانک خواب کی تعبیر ہونا ہے۔
جناب آج آپ کی یاداشت کا امتحان ہے۔ آپ کے ذہنوں کی آزمائش ہے ۔سوال صرف اتنا ہے کہ اس سماج میں اس شدت اور بے انصافی کو پروان چڑھانے والے کون ہیں؟ نام تو سنا ہو گا آپ نے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :