ایک تاج پوشی غلام رسول عرف چھوٹو کی بھی کردیں

جمعہ 14 اپریل 2017

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

شرجیل میمن پیپلزپارٹی کے اہم رہنما ہیں یہ حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں اور آج کل اخبارات اور ٹی وی شوز کی گفتگو کا محور ہیں ۔ یہ 2013 کے الیکشن میں ضلع تھرپارکرسے ایم پی اے منتخب ہوئے اور پارٹی میں اپنے اثرورسوخ سے وزیر اطلاعات سندھ بن گئے ، 2013 میں سندھ حکومت نے پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا پر حکومتی اقدامات کی پیغام رسانی کے لئے ایک بھرپور تشہیری مہم چندنے کا فیصلہ کیا اس تشہیری مہم کے دوران مختلف حکومتی اشتہارات اخباراے اور ٹی وی پر چلائے جانے تھے ۔

تشہیری مہم کلچی اور جلد ہی اس مہم میں اشتہاری کمپنیوں کو ادائیگیوں میں کرپشن کی خبریں آنا شروع ہوگئیں ۔ کرپشن کی ان خبریں میں الزامات کا مرکزی کردار شرجیل میمن کو ٹھہرایا گیا ۔ الزام کے مطابق 2013 سے 2015 کے درمیان تشہیری مہم میں سات بڑی تشہیری کمپنیوں کو سندھ پروکیورمنٹ رولز 2010 کے برعکس ادائیگیاں کی گئیں اوربحیثیت وزر اظلاعات اپنی من پسند کمپنیوں کو مارکیٹ سے ہٹا ر من پسند رئیس پراشتہارات کے ٹھیکے دیے ۔

(جاری ہے)

اس کرپشن سکینٹل کے مطابق شرجیل میمن نے ناجائز اختیارات کے استعمال اور اشتہاری کمپنیوں سے کمیشن کے ذریعے 5ارب روپے بنائے سکینڈل میڈیا میں آیا اور نیب نے تحقیقات کا آغاز کردیا ۔ شرجیل میمن نے یوریا بستر اٹھا یااور لنڈن شفٹ ہوگئے ،یہ پچھلے ڈھائی سال سے لندن اوردبئی میں خود ساختہ جلد وطنی کاٹ رہے تھے کہ ان کے کسی مہربان نے ان کو بتایا کہ حضور 2018کے الیکشن قریب ہیں اور پاکستان میں نیب ایف آئی اے آپ کے خلاف کیس بناکر تحقیقات کررہے ہیں ۔

اگر یہ کیسز یونہی رہے تو آپ اگلے الیکشن جیت کر عوام کی” خدمت “ نہیں کرس کیں گے اس لئے پاکستان عدالت میں پیش ہوں اور خود کو عدالت سے کلیر کروالیں ۔ شرجیل میمن دبئی سے اسلام آباد آئے اور اسلام آباد ہائیکوٹ میں ان کے وکیل فاروق ایچ تائیک نے یہ استدلال اختیارکیا کہ ان کے مئوکل بیرون ملک علاج کی غرض سے مقیم تھے جواب واپس آچکے ہیں اور نیب کی طرف سے عدالتوں میں دائر کئے گئے کینسر کا سامنا کرنے کو تیار ہیں ۔

لہٰذا ان کی ضمانت قبل از گرفتاری منظوری کی جائے ۔ عدالت نے 20لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض حفاظتی ضمانت منظور کرلی ۔ شرجیل میمن کو ان کے کسی مشیر نے مشورہ دیا کہ حلقے میں پچھلے ڈھائی سالہ غیر حاضری کی خجالت ختم کرنے کا اس سے اچھا موقع اور نہیں ہوسکتا۔ عوام کے ساتھ رابطہ بحال کرنے اور اپنے حلقے حیدرآباد میں بھرپور سیاسی جلسہ کرنے کا فیصلہ کیاگیا ۔

شرجیل میمن چونکہ ڈھائی سالہ جید وطنی اور پیپلزپارٹی کے مذونیب کی انتقامی کارروائیوں کے سلسلے میں قائم چھوٹے سیاسی مقدمات کے باعث حلقے کے عوام سے دور رکھا گیا تھا اس لئے اس زیادتی کے ازالے کے فیصلہ کیاگیا اور ان کو گاڑیوں کے ایک قافلے کی صورت میں جلسہ گاہ لایا گیا اور ان پرپھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور اس تاریخی اور مثالی استقبال کے بعد جلسے کے اختتام پر خالص سونے سے بنے تاج سے شرجیل میمن کی تاج پوشی کی گئی اور یہ واضع پیغام لیا گیا کہ آپ جس قدر مرضی کرپشن کے الزام لگالیں ان کی عوامی مقبولیت میں کمی نہیں آسکتی اور اپنے عوام کی نظر میں آج بھی وہ ویسے ہی معصوم اوربادتر ہیں جیسے 2013 سے پہلے تھے ۔


اس ساری کہانی میں مجھے شرجیل میمن پاکستانی قوم کے ” محسن “ لگتے ہیں ۔ محسن اس لئے کہ شرجیل میمن نے الزامات سے جلد وطنی اور وہاں سے تاج پوشی کے عمل تک ہمارے اداروں نظام اور عوام کے ذہنی اور اخلاقی میعار کوکھل کر بے نقاب کردیا ہے ، اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کے باوجود تاج پوشی یہ واضح پیغام دیتی ہے کہ ہم کس قدر دیانت دار باضمیر اور باکردار لوگ ہیں اور ہمارا حسن اتنی امانت اور دیانت کے اصولوں پرکس قدر پورا ترتا ہے ۔

پچھلے کچھ عرصے میں تاج پوشی کی یہ پہلی رسم نہیں تھی اس سے قبل میاں نواز شریف کی اور بلاول بھٹو زرداری کی تاج پوشی کی گئی ۔ یوں پاکستان میں تاج پوشی کی یہ رواثت تیزی سے زرو پکڑ رہی ہے ۔
تاج پوشی کسی دور میں مشاہیر ، اساتذہ ، علماء اور ملک وقوم کی خاطر گراں قدر خدمات سرانجام دینے کے اعتراف میں کی جاتی تھی ۔ کسی بھری بزم میں کسی قدر آور شخصیت کے سر پر تاج رکھ دیا جاتا اس بات کا اعتراف ہوا کرتا تھا کہ اس کی خدمات کے صلے میں اس سے بڑھ کر عزت اور کی جاتی تھی ۔

مگر آج کے اس دور میں مفاد پرستوں ، خوشامدیوں اور چاپلوسوں نے ہمارے اسلاف کی اس خوبصورت رواثت کو اس قدر متنازعہ اور بے وقت کردیا ہے کہ آج تاج پوشی عزت واکرم کی بجائے بددیانتی ، مفادپرستی ، چاپلوسی اور خوشامد کا ستعفارہ بن کررہ گئی ہے ۔
ہمارے سسٹم کاحال دیکھیں صوبائی سیکرٹری فنانس مشتاق رئیسانی کے گھر سے 13 رب روپے کیش برآمد ہوا ور کیش گننے والی مشین کیش گن گن کرگرم ہوگئیں مگر انہوں نے نیب سے ڈیل کی ۔

2ارب روپے نیب کو دیے اورنیب کی ” پلی بارگین “ کی لانڈری سے پاک صاف ہوکر کلین چٹ لے کر باہر آگئے اب ہمارے ہاں یہ تصور بن گیا ہے کی جی بھر کرکرپشن کرواور صرف ایک یادو فیصد پیسہ پلی بارگین کی ڈیل میں دے کر باقی پیسہ جائز اور میگل ہونے کا سرٹیفکیٹ نیب سے ہیں ۔ اگر سیاست میں آنا ، پیسہ بنانا اور تاج پوشی کروانا ہمارے سیاست دانوں کی پہچان ہے تو پھران سیاست دانوں کو ہم کس شمار میں لیں گے جنہوں نے گورنز جنرل کا عیدہ رکھنے کے باوجود اپنے گھر کے لئے راشن سرکاری رقم سے لینے سے انکار کردیا اور ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان جو تقسیم بند سے قبل بھارت میں ایک بہت بڑی ریاست کے نواب تھے جن شہید کیے گئے توان کی شیروانی کے نیچے پہنی بنیان پھٹی ہوئی تھی ۔

ملک معراج خالد جووزیراعلیٰ ہوتے ہوئے خود اور اہلیہ کے ہمراہ پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھاتے رہے مگر سرکاری وسائل اپنی ذات کے لئے کبھی خرچ نہ کئے ۔ ان کو ہم کس کٹیگری میں رکھیں اور ان کے لئے ہم کب تاج پوشی کا اعلان کریں گے ۔ کیا یہ سب پاگل تھے جو اقتدار میں رہ کر بددیانتی نہ کرسکے اور دوسری طرف ایسے حکمران بھی آئے کہ حکومت میں آتے ہی ان کی ذاتی دولت نے ایسی برکت پائی کہ ان کی سات نسلیں تک سنور گئیں ۔


ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم آج تک یہ طے نہیں کر پائے کہ ہمارے رول ماڈل کون ہیں اورہماری سیاسی وابستگی کے معیار کیا ہیں ۔ اور نہ ہم آج تک یہ طے کرپائے ہیں کہ ہمارے سانحات کے اسباب کون تھے اور ہم نے غلطیاں کیا کیں؟ سقوط ڈھاکہ سے لے کر سانحہ اوجڑی کیمپ میموگیٹ سکینڈل سے سانحہ ایبٹ آباد تک ۔ ہم آج تک یہ نہیں طے کر پائے سرے محل اور اور کرپشن کیسز درست تھے یا یہ سب اور آصف زرداری پر میٹرتین پر سنٹ کے الزام میاں برداران کے حواریوں کے ذہنوں کی اختراع تھی ہم آج تک یہ نہیں طے کر پائے کہ ڈاکٹر ذوالفقار کی سر پر قرآن رکھ کر کی گئی پریس کانفرنس سچ تھی یا ایم کیو ایم کی راء سے فنڈنگ کاالزام درست تھا ۔

ہمیشہ ہمیں مصلحتوں کی چاشنی میں ڈوبا آدھا سچ بتایا گیا ہے اور کبھی مکمل اور کڑوا سچ نہیں بتایا گیا ۔
ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمارے رول ماڈل کون ہیں ہمارے اصل مشاہیر اور پیروکون ہیں ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اس قوم کے چور کون ہیں اور سادو کون ہیں اور وہ کون سے لوگ ہیں جن کو ہم اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے رول ماڈل کے طور پر متعارف کرواسکیں گے ۔

ہمارے رول ماڈل مشاہیروہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا اور اس کی اپنے خون سے آبیاری کی مگر اس کے ساتھ خیانت نہیں کی یاپھر وہ لوگ ہیں جن پر الزام لگے کہ سیاست میں آکر انہوں نے اربوں روپے بنائے ۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا ۔
ملک میں جاری تاج پوشیوں کے اس موسم میں مجھے راجن پور کا غلام رسول عرف ” چھوٹو“ بہت یاد آیا مجھے لگتا ہے کہ ملک میں ہونے والی ان تاج پوشیوں کو دیکھ کر وہ یقینا رویا اور تڑپا ہوگا اور اُسے یوں لگا ہوگا کہ اس کے ساتھ اس قوم نے بہت زیادتی کی ہے ۔

تاج پوشیوں کے موجودیہ معیار کے اعتبار سے وہ بھی تاج پوشی کاحق دار تھا ۔ سیاست دانوں پر ملکی خزانہ لوٹنے کے الزام تھے جبکہ چھوٹو ہرامیر اوربااثر لوگوں کے لوٹنے کے الزام تھے ۔ کسی عدالت میں کسی سیاست دان کے خلاف جرم ثابت نہیں ہوسکا اور نہ سزا مل سکی اور ویسے ہی ہی چھوٹوپر کسی ٹرائل کورٹ سے فردجرم عائد نہیں ہوئی ۔ کسی سیاست دان پر ثابت نہیں ہوسکا کہ سوئس بینک میں بڑی دولت اس کی ہے اور ویسا ہی چھوٹو کے ساتھ معاملہ ہے تو پھر یہ ویرا معیار کیسا ہے اور کیوں ہے کہ اربوں روپے کے ملزم تاج پوشیوں اور گل پاشیوں کے بعد اور پلی بارگینوں کے بعد صاف اور ستھرے ٹھہرے مگر چھوٹو کسی بھی عدالت سے سزا یافتہ نہ ہوکر بھی ڈاکو کے ٹائٹل کے ساتھ پابند سلدسل ہے ۔

یہ ویرا معیار کیوں ہے ، میری ملک کے تمام صاحب ثروت لوگوں سے گزارش ہے کہ ہم سب مل کر چندہ کریں اور چھوٹو کو ضمانت پریایلی پاگین کرکے باہر لے آئیں اور راج پور مین اُسے ایک ریلی کی صورت میں لا کر پھولوں کی پتیوں سے اس کا استقبال کریں اور اس کی تاج پوشی کریں ۔ سونے کی نہ ہی چاندی کی تاج پوشی کا حق دار تو چھوٹو بھی ہے ۔ اور پھر ہم یہ تاج پوشی کی روایت پورے ملک میں پھیلادیں تمام چھوٹے موٹے ڈاکوؤں ، چوروں ، راہ زنوں جن پرالزام ثابت ہیں ان کو جیب سے نکالیں ۔

ستاروں سے ڈبل شفٹ میں تاج بنوائیں اوران ” ملزموں “ کی یو اے ملک میں تاج پوشی کریں اور ان سے کی گئی ناانصافی پر معافی مانگیں تاکہ تاریخ میں نہ سہی کم ازکم گینزبک آوورلڈ ریکارڈ میں ہی ہمارا نام جلی صروف میں لکھا جاسکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :