اتنا شور کیوں

جمعرات 13 اپریل 2017

Hussain Jan

حُسین جان

کلبھوشن یادیو ایک جاسوس تھا یہ اعتراف اُس نے خود کیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے مودی حسینہ کے ملاقات کے وقت جو تصویر دونوں کے پیچے دیکھائی گئی یہ پھانسی اُسی کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی لبرلز کی طرف سے اس پھانسی کو لے کر کافی شور مچایا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو یہ لبرلز حضرات ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر بھی شور مچا رہے ہیں اور حکومت کے ساتھ ساتھ فوج پر بھی دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کیا جائے ۔

تو کلبھوشن کی پھانسی دہشت گردی کو روکنے کی طرف قدم نہیں ہے۔ اگر حقیت بیان کی جائے تو ہمارے بہت سے دانشور صرف اُسی کو دہشت گردی سمجھتے ہیں جو کسی مولوی کی طرف سے کی جائے۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہو گی کہدہشت گرد کوئی بھی ہو اُس کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے۔

(جاری ہے)

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت پاکستان کی جاسوسی کر رہا ہے۔ اس ست پہلے بھی بہت سے جاسوس پکڑئے گئے اور کچھ کو تو حکومتوں نے عام معافی بھی دے دی۔

جب تک یہ دہشت گرد پاکستان میں رہے اس بات سے انکاری رہے کہ وہ دہشت گرد ہیں پر جیسے ہی اپنے ملک سدھارے تو دیدہ دلیری سے اس بات کا اعتراف کیا کے ہاں ہم جاسوسی کی غرض سے پاکستان گئے تھے۔
بلوچستان اور کراچی کے حالات خراب کرنے میں کسی حد تک بھارت بھی ملوث ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کے سارا ملبہ بھارت پر ڈال دیا جائے لیکن یہ اس سلسلے کی ایک کڑی ضرور ہے اور دہشت گردی تب تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک اُس کی تمام شاخوں کو ختم نا کیا جائے۔

ہمارے لیے جتنا فضل اللہ خطرناک ہے اُتنا ہی کلبھوشن۔ جتنا نقصان پاکستان کو طالبان نے پہنچایا ہے اُتنا نقصان ہی الطاف حُسین نے پہنچایا ہے ۔ اب یہ کہاں کا قانون ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو بھانسی پرچڑھا دو جن کی داڑیاں ہیں مگر ایسے لوگ جو نام نہاد لبرل بنے ہوئے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اُں کو چھوڑ دیا جائے۔ اگر ہم اس روش پر چلیں گے تو ملک میں دہشت گردی کا ناسور کبھی ختم نہیں ہو گا۔


بلاول بھٹو زرداری ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں اُن کی طرف سے بیان آنے کا مطلب سیدھا سا ہے کہ وہ یادیوکی پھانسی نہیں چاہتے۔ بقول اُن کے اُنہوں نے کہا ہے کہ ہمپھانسی کے خلاف ہیں چاہے کسی کو بھی دی جائے لیکن اس سے پہلے جو طالبان اور دوسرئے دہشت گردوں کوپھانسیاں دی گئی ہیں اُن پر تو بلاول صاحب کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا تھا۔

ہمارئے ایک ٹی وی اینکر کہتے ہیں کہ ہم ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر بھارت سے بہتر تعلقات کی بات کرتے ہیں ۔ بالکل یہ بہت اچھا کام ہے ملکوں کے تعلقات اچھے ہی ہونے چاہییں مگر کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ بھارتی صحافیوں نے بہتر تعلقات کی بات کی۔ سوشل میڈیا پر لبرلز نے طوفانِ بدتمیزی برپا کیا ہو ا ہے کہ اسپھانسی کو ملتوی کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت کے واویلا کرنے اور عالمی دباؤ کے تحت اس پھانسی کو ملتوی کرنا ہی پڑئے گا۔

اگر ملکی مفاد میں یہ بہتر ہے تو ایسا ضرور کرنا چاہیے ۔ لیکن کیا اس سے دوسرئے دہشت گردوں کہ شہ نہیں ملے گی ۔
یہاں میں آیاز امیر صاحب کے ایک کالم کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنے کالم میں فرمایا کہ ہمیں بنگلہ دیش کو ہر حال میں خوش رکھنا چاہیے کیونکہ مغربی پاکستان نے اُن کے ساتھ بہت ظلم و جبر کیا۔ اگر وہ کوئی بات کہ بھی دیں تو برداشت کرنی چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہر حال میں اُن سے تعلقات کو بہتر رکھنا چاہیے۔ چلے مان لیتے ہیں ان کی بات کہ بنگالییوں پر ظلم ہوا اور کچھ غلطیاں ہمارے سیاستدانوں یا افواج پاکستان سے جانے انجانے میں ہو ں گئی ہو گئیں ۔ لیکن اس کامطلب یہ تو نہیں کہ ہم نے ساری زندگی اب اُن کی ہر غلطی کو معاف کردینا ہے۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے رہے اور ہم اُن کو پیار سے پچکارتے ہیں۔

انڈیا اور بنگلہ نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اگر ہم اُس وقت غلط تھے تو بعد میں تو حالات کو بہتر کیا جاسکتاتھا۔ یہ بار بار ہمیں باور کروایا جاتا ہے کہ انڈیا نے بنگلہ دیش کی آزادی میں بہت اہم رول ادا کیا تھا۔ اب کیا پھر انڈیا کو آزادی دے دی جائے کہ ہمارے ملک کے مزید ٹکڑیں کرے۔ اس بات کی اب اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اب آتے ہیں پھر بھانسی کی طرف بلوچستان اور سندھ میں یہ موصوف سینکڑوں لوگوں کی جانوں سے کھیل چکے ہیں ایران کے راستے پاکستان میں گھس کر پاکستان کو کمزورکرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

جب اُسامہ بن لادن کو امریکہ نے مارا تھا تو تمام لبرلز نے ڈھول کی ٹھاپ پر ڈانس کیا تھا۔ کرنا بھی چاہیے کہ ایک دہشت گرد مارا گیا۔ لیکن کیا یہ دہشت گرد نہیں لبرلز کو حکومتی اقدام سے خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ظالم اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد جب دہشت گردوں کو بھانسی دینی شروع کی گئی تو سب کے سب خوش تھے کہ اس ڈر سے بہت سے دہشت گرد ظلم سے باز رہیں گے۔

لیکن یہ دوغلی پالیسی کیوں اپنا رہے ہیں کہ یادیو کو بھانسی نہیں ہونی چاہیے۔ انڈیا نے کشمیر پر ظلم کا بازار گرم رکھا ہوا ہے وہ تو مقدمات پر بھی یقین نہیں رکھتے کھلے عام نہتے کشمیرریوں پر گولیا ں برسا رہے ہیں۔ کیا اُنہوں نے گروو کو بھانسی نہیں دی تب تو لبرل حضرات بالکل خاموش تھے۔ اب کیوں رو رہے ہیں۔
یہ پاکستان کے ساتھ بہت زیادتی ہے کہ آپ کو اس ملک نے عزت و قار عطا کیا اور آپ اسی کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔

ہر پاکستانی کو حکومتی اداروں پر تنقیدکا حق ہے۔ آپ ضرور کریں تنقید اور غلط کام سے روکیں بھی مگر جو کام ملکی مفاد میں ہو رہا ہے اُسے ہونے دیں۔ یہ لبرلز حضرات سوشل میڈیا پر توہین رسالت کرنے ولے مردودوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مذہب کو ریاست میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی بالکل غلط ہے۔ مذہب اور ریاست دونوں اکٹھے ہی چلتے ہیں۔

اگر کوئی بندہ کسی مذہب پر کاربند نہیں تو یہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے لیکن دوسرئے مذاہب کی قابل احترام ہستیوں کی توہین کرنا کون سی کتابوں میں لکھا ہے۔ یادیو جیسے لوگ ہی ایسے لوگوں پر انویسٹ کرتے رہے ہیں تاکہ پاکستان کو کمزور کیا جا سکتے۔ انڈیا کے سیکورٹی کے مشیر کا بیان آج بھی سوشل میڈیا سے لیا جاسکتا ہے جس پر وہ کہتا ہے کہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ہم نے سندھ اوربلوچستان میں جال بچھا رکھا ہے۔ تو بھائی ایسے جاسوسوں کو ہر حال میں بھانسی کی سزا ہونی چاہیے۔ اگر ان کو زندہ رکھا گیا تو اس جیسے اور آجائیں گے۔ جب یہ اپنے منتقی انجام کو پہنچں گے تو دوسرئے ان سے عبرت حاصل کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :