لہو لہان شام!حالات، واقعات اور ذمہ دار

منگل 11 اپریل 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

مجھے 2016کے اگست کی وہ صبح کبھی نہیں بھولتی جب شام کے شمالی شہر حلب میں فضائی حملے کے نتیجے میں زخموں کے آثار اپنے چہرے پر سجائے، ایمبولینس میں بیٹھے ،پانچ سالہ عمران دقنیش کا خون آلود چہرہ سوشل میڈیا کے ذریعے میرے موبائل فون کی سکرین پر بھی آ پہنچا۔خون میں لتھڑے اس بچے کوایک تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے نکالا گیا تھا جہاں اس جیسے سیکڑوں بچے اپنوں کی بر بریت کا شکار ہو کر اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر چکے تھے ۔

عمران وقینش کا چہرہ بھی حسرت و یاس کا منظر پیش کر رہا تھا اور جسے دیکھ کر کئی روز تک اضطراب کا زہر ، جس نے روح و جسم میں بے سکونی کا عذاب گھول کر بے سکونی میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک روزانہ ہی شام سے ظلم وستم کی ایسی ایسی کربناک داستانیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔

(جاری ہے)

حالیہ دنوں میں کیمیائی حملوں سے ہلاک ہونے والے نوزائیدہ بچے سے لیکر دس سال تک کے بچوں کی لاشیں ، اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہاں کی عوام سے کس طرح کا سلوک رواء رکھا جا رہا ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق پچھلے چھ سالوں میں 5لاکھ سے زائد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ تعلیمی ادارے ،ہسپتال اور مساجد کھنڈرات کا مناظر پیش کر رہے ہیں ۔
پانچ سالہ خانہ جنگی نے شام کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور شامی سنٹر فار پالیسی ریسرچ کے مطابق اس جنگ کی قیمت 255 ارب ڈالر ہے۔ ملک میں بیروزگاری کی شرح 80 فیصد سے زیادہ ہے اور اہل شام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔

ملک کی 85 فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہیں اور انھیں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔شام میں زراعت کے شعبے کی تباہی کی وجہ سے ان پر زیادہ برا اثر پڑا ہے۔ ایک وقت میں زراعت ملک کا سب سے بڑا شعبہ تھا لیکن جنگ نے اسے بری طرح متاثر کیا ہے اور اب ملک کے کئی خطوں میں خوراک کی قلت ہے۔شام میں خوراک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے عمل میں اضافہ ہو رہا ہے اور امدادی سامان یا تو چور بازار میں پہنچ جاتا ہے یا اس کی منزل حکومت کے منظور شدہ علاقے ہی بنتے ہیں۔

دمشق کے مضافات میں واقع مشرقی غوطا جیسے محصور علاقوں سے لوگوں کے بھوک سے مرنے کی خبریں بھی متواتر آرہی ہیں۔
2011 کے بعد سے ہزاروں بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور جو باقی بچے ہیں ان کا مستقبل بھی تاریک دکھائی دیتا ہے۔ جان بچانے کے لیے خاندانوں کی ملک سے نقل مکانی کے بعد شام میں سکول جانے والے بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2010 کے مقابلے میں اب یہاں ایسے دس لاکھ بچے موجود نہیں۔

جو یہاں موجود ہیں بھی ان میں سے 90 فیصد سکول نہیں جا رہے۔ شام میں نظامِ تعلیم جنگ نے تباہ کر دیا ہے اور 75 فیصد سکول تباہ ہو چکے ہیں یا وہاں پناہ گزین کیمپ یا فوجی کیمپ بننے کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں۔ جو سکول باقی بچے بھی ہیں ان میں سے کئی کام نہیں کر رہے کیونکہ ملک میں اساتذہ میں سے ایک چوتھائی یعنی ساڑھے 52 ہزار نوکری چھوڑ چکے ہیں۔

ان تما م مظالم کے باوجود بھی نہ کسی اقوام متحدہ، او۔آئی۔سی سمیت عرب لیگ اور بڑے بڑے تھنک ٹینکس ، جو کتے اور بلی کے مر جانے پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کو یہ زحمت گوارہ نہیں ہوئی کہ لاکھوں کی تعداد میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کی ہلاکت پر صدا ء احتجاج ہی بلند کرتے۔
قارئین کرام !شام کے خون آشام حالات وواقعات کی وجو ہات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے اس میں سب سے بڑی وجہ اسلامی ممالک کے آپسی اختلافات اور طاقت کے نشے میں مست، مال واسباب میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ مخبر صادق ﷺ نے چودہ سو سال قبل ہی ایسے حالات کی خبر دے دی تھے۔ بو داؤد اور بیہقی میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب قومیں تم پر حملہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو اس طرح پکاریں گی جس طرح کھانے والے کھانے کے پیالے پر گرتے ہیں۔ حاضرین میں سے ایک نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا یہ اس لیے کہ اس زمانے میں ہم مسلمانوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔

فرمایا: نہیں! تمہاری تعداد ان دنوں زیادہ ہو گی لیکن تم ایسے ہو جاؤ گے جیسے سیلاب کی سطح پر خس وخاشاک ہوتے ہیں کہ سیلاب ان کو بہا لے جائے گا، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب دور کر دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دے گا۔کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کمزوری کیا ہو گی؟ فرمایا دنیا اور فوائد دنیا کی محبت اور موت کا بزدلانہ خوف۔


بے شک مخبر صادق ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے الفاظ حرف حرف حقیقت ہیں۔ مال و اسباب کی حرص، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی لالچ اور اپنے آپ کو بچانے کی خاطر جس مجرمانہ روش پر چل رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اربوں کی تعداد میں مسلمانوں پر سیکڑوں لوگ حاوی ہیں ۔ وہ جب چاہتے ہیں ، جہاں چاہتے ہیں ہمارے ملکوں پر حملہ کرتے ہیں ، ہمارے لوگوں کو مارتے ہیں ، ہستے بستے شہروں کو تورا بورا بناتے ہیں اور پھر بھی معزز قرار پاتے ہیں ۔

اور ہم اپنے آپ کو بچانے کے لئے ان کے اس ظلم پر، اتحادی بن کر ان کی ہر ظالمانہ کاروائیوں پر تالیاں بجاتے ہوئے اپنے آپ کو بیو قوف بنا رہے ہوتے ہیں ۔ پھریک دن آتا ہے جب یہ ظالم لوگ جن کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے: ”وہ کبھی تمارے دوست نہیں ہو سکتے“ اپنے مفادات کے لئے جنگ میں اپن اتحادی بننے والے اور تالیاں بجانے والوں کو بھی نہیں چھوڑتے جس کی تازہ مثال صدام حسین ، حسنی مبارک او ر معمر قذافی ہیں ۔ شاید کہ ہمیں سمجھ آجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :