اپنے بچوں کو بچائیں !

پیر 10 اپریل 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ دونوں بچیاں نوویں کلاس کی اسٹوڈنٹ ہیں اور ان کی عمریں بارہ سے تیرہ سال کے درمیان ہیں ۔یہ دونوں گوجرانوالہ کے ایک نجی اسکول کی طالبہ ہیں ، یہ مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے والدمحنت مزدوری کر کے گھر چلاتے ہیں ۔ ایک مڈل کلاس گھرانے کی طرح ان بچیوں کا آنا جانا بھی صرف گھر سے اسکول تک محدود تھا، یہ صبح اسکول جاتی اور شام کو گھر میں بیٹھ کر ناول ، ڈائجسٹ اور کہانیاں پڑھتی تھیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے فیس بک اور انٹرنیٹ تک بھی ان کی رسائی ہو گئی تھی ۔ جو لوگ فیس بک یوز کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ فیس بک آپ کے وہ دوست ، رشتہ دار اور محلہ دار جو پہلے سے فیس بک یوز کر رہے ہوتے ہیں انہیں ”ایڈ فرینڈ “ کی صورت میں آپ کے سامنے شو کردیتی ہے اور آپ کچھ ہی دنوں میں اپنے رشتہ داروں ، دوستوں اور محلہ داروں کی فرینڈ لسٹ میں شامل ہو جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ان بچیوں کی فیس بک تک رسائی ہوئی تو اسی محلے کے دولڑکوں نے انہیں فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی جو قبول کر لی گئی ، بات آگے بڑھی اور دوستی کا عہد وپیمان باندھ لیا گیا ۔ ناول، ڈائجسٹ اور کہانی میں یہی ہوتا ہے کہ لڑکی شروع میں اپنے عاشق کو مسترد کر دیتی ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کے لیے دل میں جگہ بنا لیتی ہے اور ناول یا کہانی کے آخر میں ان کی شادی ہو جاتی ہے ۔

اس کہانی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا اورفریقین شادی کے لیے تیار ہو گئے ۔ بچیوں کی عمریں بارہ اور تیرہ سال کے درمیان تھی اور لڑکے بھی لگ بھگ اسی عمر کے تھے ، فیصلہ ہوا ہمارے گھر والے ہمیں شادی نہیں کرنے دیں گے لہذا گھر سے بھاگ کر شادی کر لی جائے ۔ پروگرام طے ہوا، لڑکیاں گھر سے اسکول کے لیے نکلیں ، راستے میں ان لڑکوں سے رابطہ ہوا اور یوں یہ چاروں لوگ گھر سے بھاگ گئے۔

شام تک بچیاں اسکول سے واپس نہ آئیں تو والدین کو تشویش ہوئی ، محلے میں خبر پھیلی تو پتا چلا اسی محلے کے دولڑکے بھی غائب ہیں ، خبر محلے کے ہر گھر تک پہنچ گئی ، رات گئے کسی کلاس فیلو نے انکشاف کیا کہ غائب ہونے والے فریقین آپس میں رابطے میں تھے ۔ حقیقت تک پہنچنے کے لیے اتنا انکشاف کافی تھا ، بات تھانے چلی گئی ، لڑکوں کے والد کو بلایا گیا ، رشتہ داروں کے ہاں پتا کروایا گیا ، دو دن بعد معلوم ہوا کہ فریقین لاہور میں کسی رشتہ دار کے ہاں مقیم ہیں ، پولیس وہاں پہنچی اور چاروں ” عاشقوں “ کو گرفتار کر لیا ۔

اب یہ دونوں لڑکے جیل میں ہیں اور ان کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے لیکن سر دست ہم بچیوں کی طرف آتے ہیں ۔ یہ دونوں بچیاں اس وقت گھر میں ہیں ،جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ قدم کیوں اٹھایا تو ان کا جواب تھا ” ہم پچھلے پانچ سالوں سے مختلف ڈائجسٹ ، ناول اور کہانیاں پڑھ رہی ہیں ، ہم نے جو کہانیاں پڑھی ان میں یہی ہوتا تھا کہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں ، گھر والے اجازت نہیں دیتے اور مجبورا انہیں گھر سے بھاگنا پڑتا ہے یا وہ خود کشی کرلیتے ہیں ،ہم خود کشی تو کر نہیں سکتی تھی لہذا ہم نے بھا گ جانے کا منصوبہ بنالیا“۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو گھر سے بھاگتے وقت ڈر نہیں لگا اور اپنے والدین کی عز ت کا خیال نہیں آیا تو ان کا کہنا تھا ” ہم جانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں لیکن جب ہم کوئی ناول ، ڈائجسٹ یا کہانی پڑھتی تو ہمیں حوصلہ مل جاتا تھا اور ہم دوبارہ پر عزم ہو جاتی تھیں ۔ “
اب آپ دوسری کہانی سنیں ، پچھلے رمضان کی بات ہے میری بھتیجی جو ساتویں کلاس کی اسٹوڈنٹ ہے وہ رمضان کی چھٹیاں گزرانے ہمارے گھر آئی ،میں نے اس کی پڑھائی کے متعلق سوال کیا تو بولی ” انکل آپ جو اخبار میں لکھتے ہیں وہ ٹاپک مزیدار نہیں ہوتے، آپ کوئی ناول یا کہانی کیوں نہیں لکھتے ، آپ سے اچھی کہانی تو میں لکھ سکتی ہوں “ میں نے توجہ سے اس کی بات سنی اور عرض کیا ” تمہارے پاس چوبیس گھنٹے کا وقت ہے ، تم جتنی اچھی کہانی لکھو گی تمہیں اتنا بڑا انعام دوں گا “ وہ راضی ہو گئی۔

اگلی دن اس نے جو کہانی مجھے دکھائی میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بارہ سالہ بچی کے یہ خیالات ہو ں گے اور اس سے بڑھ کر حیرت اس بات کی تھی کہ اس نے یہ خیالات کہاں سے لیے اور اسے یہ سوچ کہاں سے ملی ۔اس نے جو کہانی لکھ کر دکھائی میں اس کی خلاصہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں ، کہانی کچھ یوں تھی” اقرا اور فرح دو دوست تھیں ، دونوں ساتویں کلاس کی اسٹوڈنٹ تھیں ، وہ جس اسکول میں جاتی تھیں وہاں ایک لڑکا چوکیدار تھا ، اقرا روزانہ اس لڑکے کو دیکھتی تھی ، ایک دن اقرانے اپنی دوست فرح کو بتایا کہ مجھے اس لڑکے سے پیار ہو گیا ہے اور میں نے اس سے دوستی کر لی ہے اور اب میں اسی سے شادی کروں گی۔

فرح نے اسے سمجھایا کہ ہم لڑکیاں بے زبان ہوتی ہیں اور ہمیں یہ حق نہیں کہ اپنی مرضی سے شادی کریں اس لیے یہ خیال ذہن سے نکال دو۔ اقرا نہ مانی ، وقت گزرتا گیا ، فرح کی شادی ہوگئی اور اللہ نے اسے اولاد سے بھی نواز دیا لیکن اقراء ابھی تک اپنے گھر میں بیٹھی تھی ، اس کے والدین جب بھی رشتے کی بات کرتے تو وہ انکار کردیتی ، ایک دن اقرا نے فرح کو خط لکھا کہ مجھے ساری زندگی بھی انتظار کرنا پڑا تو میں کر لوں گی ، میں ساری زندگی گھر میں بیٹھی رہوں گی لیکن کہیں اور شادی نہیں کروں گی “ میں نے یہ کہانی پڑھی تو اپنا سر پکڑ لیا ، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک بارہ سالہ بچی جس نے نصابی کتب کے علاوہ کبھی کوئی دوسری کتاب نہیں پڑھی اور گھر میں ٹی وی اور انٹر نیٹ بھی نہیں تو اس کو یہ سوچ کہاں سے ملی ، میں نے اس کی امی سے پوچھا یہ ناول یا دائجسٹ تو نہیں پڑھتی تو پتا چلا کہ کبھی کبھاریہ اسکول سے اپنی کسی فرینڈ سے ناول لے آتی ہے اور ساری رات سوتی نہیں جب تک وہ ناول یا کہانی ختم نہ ہو جائے ۔

میں نے سختی سے منع کر دیا کہ آج کے بعد یہ گھر یا اسکول میں کوئی ناول ، ڈائجسٹ یا کہانی نہیں پڑھے گی۔
میں نے یہ صرف دو کہانیاں آ پ کے سامنے پیش کی ہیں ورنہ اس ملک میں روزانہ ایسے بیسیوں واقعات رونما ہو رہے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان کیوں بڑھ رہا ہے اور ہماری نوجوان نسل اس تباہی کی طرف کیوں جا رہی ہے ، اس کہ وجہ بڑی سادہ اور آسان ہے ، ہم ادب کے نام پر جو لٹریچر تخلیق کر رہے ہیں اور ہمارے ڈائجسٹ ، ناول اور کہانیاں جس فکر کو پروان چڑھا رہی ہیں یہ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ بارہ سالہ بچی ایسی کہانی لکھتی ہے جس میں وہ ساری زندگی بغیر شادی کے رہنے کے لیے تیار ہے یا وہ بچیاں گھرسے بھاگ جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں ۔

اس کے ساتھ ہمارا الیکٹرانک میڈیا جو ڈرامے ، فلمیں اور پروگرام دکھا رہا ہے ان کی کہانی بھی اسی سوچ اور فکر کے گرد گھومتی ہے ۔ جب ہم نے اس سوچ اور فکر کو عام کرنے والے ذرائع کو کھلا چھوڑا ہوا ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہی نکلے گا جو ہم دیکھ رہے ہیں ، رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے ۔ اس لیے میری والدین سے درخواست ہے کہ آپ اپنے بچوں پر نظر رکھیں ، وہ کس طرح کا لٹریچر اورکون سی کتاب پڑھ رہی ہیں آپ کے علم میں ہو نا چاہے ، وہ سوشل میڈیا کیوں استعمال کرتے ہیں اور کتنے وقت کے لیے کرتے ہیں یہ بھی آپ کے علم میں ہو۔یاد رکھیں آپ کی تھوڑی سی غفلت آپ کے بچوں کو بہت بڑی غلطی کی طرف لے جا سکتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :