جماعت اسلامی دھرنا

پیر 10 اپریل 2017

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

جماعت اسلامی کے الیکٹرک کی کراچی کے عوام کے ساتھ لوڈ شیڈنگ، اوور بلنگ اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اُٹھاتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں برائے راست کے الیکٹرک کے متعلقہ آفیسروں،سندھ حکومت، وفاقی حکومت اور نیپرا کے سامنے بھی عوام کے مسائل رکھے مگر ان تمام اداروں نے ایک بھی نہ سنی۔اس کے بعد عدالت میں درخواست داہر کی ہوئی ہے۔ آج سے ایک برس قبل اسی کے الیکٹرک کے ہیڈ آفس کے سامنے ایک عظیم المشان دھرنا بھی دیا تھا۔

جماعت اسلامی کراچی کی ایک منظم ترین اور عوام کی نمائندہ جماعت ہے۔ عوام اس کے پاس کراچی کے مختلف اداروں کی زیادتیوں کی شکایت لے آتے رہتے ہیں۔ بلدیہ کراچی کے جماعت اسلا می کے راہنما( محروم) عبدلستار افغانی  دو دفعہ بلدیہ کراچی کے میئر رہے۔

(جاری ہے)

اس کے بعد ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور حکمرانی میں نعمت اللہ ایڈکیٹ کراچی کے ناظم رہے۔اس زمانے میں کراچی میں کافی ترقیاتی کام ہوئے۔

پھرکراچی دہشت گرد لسانی تنظیم ایم کیو ایم کے قبضے میں آگیا تو شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا۔ کے الیکٹرک بھی اسی دور کے حکمرانوں کا تحفہ ہے۔ کے الیکٹرک کو فروخت کر کے ، کے الیکٹرک بنا دیا گیا۔ جو اس دن سے کراچی کے عوام پر ظلم ڈھا رہی ہے اور اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کی عوام کے ساتھ ناانصافیوں کے لیے پہلے بھی آواز اُٹھائی تھی اور اب بھی میدان عمل میں ہے۔

۷/ اپریل کے دھرنے کا اعلان ۳۱/ مارچ کو اُس وقت ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں کیا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں لاہور سے جماعت اسلامی کے مر کزی سیکر یٹری جناب لیاقت بلوچ بھی شامل ہوئے تھے۔ نرسری پر جماعت کے پر امن دھرنے پر پولیس چڑھ دوڑی، آنسو گیس کے گولے فائر کیے، لاٹھی چارچ کیااوراور فائرنگ بھی کی۔ اس سے جماعت کے پندرہ سے زائد کارکنوں کو زخمی کر دیا جس میں دو شدید زخمی ہیں اور آغا خان ہسپتال میں ابھی زیر علاج ہیں۔

۷/ مارچ کے دھرنے سے ایک دن پہلے ہی کے الیکڑک کے ہیڈ آفس واقع ڈیفنس اتھارٹی فیس ٹوسڑک کے کنارے متاثرین کی شکایات وصول کرنے کے لیے استقبالیہ کیمپ لگا دیا گیا۔ جس پر عوام سے سے دونوں روز رات گئے شکایات وصول کی جاتی رہیں۔اس کیمپ کی ایک طرف تین بھینسیں بھی باندھی ہوئی تھیں۔ جس کے سامنے علامتی طور پر بین بجائی جاتی رہی ۔ ایک بھینس پر ک الیکٹرک ، دوسری پر سندھ کی صوبائی حکومت اور تیسری پر وفاقی حکومت لکھا تھا۔

اس کے ساتھ ان تینوں اداروں کے نام کے بینر بھی عوام کی آگاہی کے لیے لگائے تھے۔ کہا گیا کہ ان اداروں کے سامنے عوام کے مسائل رکھنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ثابت ہوا۔ اس کے ساتھ جماعت نے کے الیکٹرک کے خلاف عدالت میں مقدمہ بھی داہر کیا ہوا۔ جمعہ کے دن ۱۲/ بجے دھرنے کا وقت طے کیا گیاتھا۔ عوام ۱۲/ بجتے ہی اپنی شکایات کے ساتھ وہاں پہنچ گئے تھے جو رات گئے تک آتے رہے۔

استقبالیہ پر بیٹھے کارکن ان سے شکایاتیں وصول کر کے اسٹیج پر بیجتے رہے۔ کارکن بھی وقت پر ہی دھرناگاہ میں پہنچ گئے تھے۔ نماز جمعہ قریب ہی واقعہ مسجد بیت الاسلام میں ادا کی گئی۔نماز جمعہ کے بعد بھی شہر بھر سے عوام کے الیکٹرک کی زیادتیوں کے خلاف اپنی اپنی شکایات لے کر رات گئے تک آتے رہے جس میں خواتین بھی شامل ہیں۔حافظ نعیم الرحمان امیر جماعت اسلامی نے اجتماع گاہ میں عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کی امامت کی۔

دھرنے میں کالے پیلے غبارے بھی لگائے گئے۔ ان غباروں پر کے الیکٹرک کی شکایات، لوڈشیڈنگ نامنظور وغیرہ درج تھا۔دھرنے میں ایک نوجوان اسپائیڈر مین کا لباس پہن کر آیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اسپا ئیڈر مین کو حکم دیا جائے تو وہ کے الیکٹرک کی بلڈنگ کے اندر بھی داخل ہو سکتا ہے۔ دھرنے میں جماعت اسلامی یوتھ کے نوجوان علامتی جنازہ اُٹھائے ہوئے آئے۔

جس پر ک الیکٹرک لکھا تھا۔ کئی لوگوں نے علامتی جنازے کو کندھے دیے۔ اسٹیج پرتقریر کرتے ہوئیکے ای ایس سی سے کے الیکٹرک تک ظلم کی داستان ایک سابق ملازم نے سنائی۔ اس نے کہا کہ جب یہ ادارہ حکومت کی ملکیت کے ای ایس سی تھا تو حکومت اس کو پانچ ارب سالانہ سبسڈی دیتی تھی۔ اب یہ ادارہ کے الیکٹرک پرائیویٹ ہے تو اسے پچھتر ارب روپے سالانہ سبسڈی دی جارہی ہے۔

عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔کے الیکٹرک نے جبرناًسات ہزار ملازمین کو نوکری سے بھی فارغ کر دیا۔مساجد اور مدارس کے میٹرز میں اوور بلنگ اور میٹر کاٹنے کی بڑی تعداد میں شکایات درج اور بیان کی گئیں۔ کے الیکٹرک کے ستائے ہوئے ایک امام مسجد نے اوور بلنگ کے شکایات بیان کرنے کے بعد ایک شعر اس طرح پڑھا” ہم نے سوچا تھا کہ حکمرانوں سے کریں گے فریاد۔

مگر وہ بھی کمبخت تیرے چاہنے والے نکلے“ ایک اور مسجد کے منتظم نے روداد سناتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک نے مسجد کی دکانوں کی بجلی اوور بلنگ کی ادائیگی نہ کرنے پر بند کر دی ۔پھر مسجد کا میٹر بھی کاٹ دیا۔ میں اوور بل درست کرانے کے لیے کے الیکٹرک کے ہر ذمہ دار کے پاس گیا مگر ایک نہیں سنی گئی۔ آخر میں نے اپنے ریٹائرمنٹ کے پیسے ادا کر کے مسجد کی بجلی بحال کرائی۔

اس طرح درجنوں صحارفین نے اپنی اپنی روداد سنائی۔ دھرنے میں مصنوئی عدالت قائم کر کے، کے الیکٹرک کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا۔ عدالت نے کے الیکٹرک اور درخواست گزار کو سنا اور کے الیکٹرک کے خلاف فیصلہ دیا۔ رات گئے امیر جماعت اسلامی پاکستان ، سینیٹر سراج الحق صاحب نے دھرنے کے شرکا سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوامی مفادات کا سودا نہیں کریں گے۔

کے الیکٹرک لوڈ شیدنگ ختم کرے۔ عوام کے ۲۰۰/ ارب واپس کرے۔اوور بلنگ اور او اوور چارجنگ ختم کرے۔فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر لیے گئے ۶۲/ارب روپے واپس کرے۔چھوٹے صحارفین کے لیے نرخوں میں اضافہ واپس لیا جائے۔صدر، وزیر اعظم اور گورنر کراچی کے عوام کے خلاف ظلم پر کیا کر رہے ہیں؟انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام خود کو تنہا نہ سمجھیں جماعت اسلامی ان کے ساتھ ہے۔

کراچی سے چترال تک پاکستانی عوام ان کے ساتھ ہیں۔ جماعت اسلامی خوشحال اور اسلامی پاکستان کے لیے کرپشن کے خلاف لڑ رہی ہے اور کراچی کے عوام کے ساتھ بھی ہے اسی لیے کراچی جماعت نے کے الیکٹرک، نیپرا اور حکومتی گڈ جوڑ کے خلاف دھرنا دیا گیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی نعیم الرحمان نے کہا کہ انتظامیہ نے ہم سے رابطہ قائم کیا ہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ میٹر رینٹ کے نام پر ۱۵/ ارب روپے،فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر ۶۲/ ارب روپے، عوام کو واپسی کا اعلان کرو تو بات چیت ہو سکتی ہے صرف دھرنا بند کرنا پربات نہیں ہو سکتی۔

ہمیں بتایا جائے کہ کے الیکٹرک کا مالک کون ہے۔نعیم الرحمان نے آج پریس کانفرنس کر کے اعلان کیا کہ ہمارا دھرنا عوام کے مطالبات منظور ہونے تک جاری رہے گا۔۱۱/ اپریل کو شاہراہ قائدین کے الیکٹرک کے دفتر کے باہر دھرنا دیا جائے۔ شہر میں کے الیکٹرک کے مختلف جگہوں پر قائم دفاتر کے بعد ۲۲/اپریل کو گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔ یہ احتساب کی تحریک ہے عوام کے مطالبات ہونے تک جاری رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :