کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں

جمعہ 7 اپریل 2017

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

صبح دس بجے کے قریب نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ ٹیلی فون اٹھایا تو دوسری طرف ایک محترم دوست تھے ۔ نیند خراب کرنے کی معذرت کے بعد انہوں نے پوچھا فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں کوئی جاننے والا ہے ؟پوچھا خیریت ہے ؟کہنے لگے ایک عزیز وہاں ایمرجنسی میں داخل ہیں اور انہیں بستر کے ساتھ چند نیلی پیلی گولیوں کے علاوہ کچھ مہیا نہیں کیا جارہا ۔

انجیو گرافی کی ضرورت ہے اور ڈاکٹر نے حکم صادر کیا ہے کہ بیس ہزار روپے پیشگی جمع کروائیں کیونکہ آپ کی انجیوگرافی سرکاری خرچ پرنہیں بلکہ پرائیویٹ ہوگی ۔اب وہ غریب پریشان ہے کہ سرکاری ہسپتال کی ایمر جنسی میں بھی اگر بسم اللہ بیس ہزار سے ہوتی ہے تو مکمل علاج کیلئے اسے کون کون سے اثاثے بیچنا ہوں گے ۔ایک غریب کے پاس بیچنے کے لئے ہوتا ہی کیا ہے؟حیرت ہوئی کہ پنجاب میں تو سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں ادویات اور علاج مفت ہے تو پھر مریض کو پرائیویٹ علاج پر کیوں مجبور کیا جارہا ہے ۔

(جاری ہے)

ظاہر ہے صرف دولت کی ہوس میں ۔ راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے جنرل اظہر کیانی یاد آئے ، ایک شفیق معالج ،جوا پنے ادارے میں غریب مریضوں کا مفت علاج کرتے ہیں اور میں ذاتی طور پر اس بات کا گواہ ہوں کہ ہسپتال میں حالات کا خود جائزہ بھی لے چکا ہوں ۔ بہت حیرت ہوئی کہ ایک ہی حکومت کے زیر انتظام ایک جیسے اداروں کو چلانے میں پالیسی کا فرق اس قدر کیونکر ممکن ہے ۔


اس سے پہلے کے مزید بات کروں ایک آپ بیتی بھی سن لیجئے ،چند ماہ پہلے فیصل آباد میں بڑی بہن کی طبیعت اچانک ناساز ہوئی ، ڈاکٹرز نے رپورٹس دیکھ کر بتایا کہ دماغ میں رسولی ہے ان کا آپریشن کرنا ہوگا۔ میں نے بھانجے سے کہا والدہ کو لے کر فوراََ جنرل ہسپتال لاہور چلے جاوٴ۔ خیال یہ تھا کہ پنجاب حکومت کی عین ناک تلے صوبے کا بہت بڑا ہسپتال ہے ،اچھے ڈاکٹر میسر ہوں گے اور آپریشن کی ضرورت ہوئی تو بھی وہیں سے کروانا چاہیے ۔

خدا برکت دے سینیٹر محسن لغاری کو ان سے ذکرکیا تو کہنے لگے رات گہری ہوچکی ، فون کرنا مناسب نہیں میں خواجہ سلمان رفیق کے موبائل پر پیغام بھیجتا ہوں امید ہے وہ کچھ کریں گے ۔رات کے تقریبا بارہ بج رہے تھے ،خواجہ سلمان رفیق نے ان کا پیغام دیکھا تو ان کو فون کیا اور مریض کے ساتھ جانے والے کسی اٹینڈنٹ کا فون نمبر طلب کیا۔ کما ل مہربانی سے انہوں نے ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر کو بھی فون کردیا۔

ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد متعلقہ ڈاکٹرز مریضہ کے پاس پہنچ گئے اور ان کا علاج شروع ہوگیا۔ صبح دم مریضہ کو ایمرجنسی سے میڈیکل وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا ، فائل پر اس نشاندہی کے ساتھ کہ مریضہ کی سفارش کرنے والا صوبائی وزیر صحت ہے ۔میڈیکل وارڈ میں مریضہ کی حالت کے پیش نظر دماغی امراض کے شعبہ میں نیورالوجسٹ کو ایمرجنسی کال دی گئی کہ مریضہ کا معائنہ کریں اور فوری ضروری علاج تجویز کریں ۔

بس یہیں تک وزیر صحت کی سفارش کام آسکی ،سارا دن گزر گیا اور رات بھی لیکن نیورالوجسٹ کو دی گئی ایمرجنسی کال کہیں فائلوں میں دب گئی ۔تلاش بسیار کے باوجود نیورالوجسٹ کا کوئی سراغ نہ مل سکا کہ کہاں موجود ہیں ، ہسپتال میں ہیں بھی یا نہیں ۔اگلے دن لاہور میں ایک صحافی دوست سے رابطہ کیا تو ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تک رسائی ہوئی ۔ ٹکا سا جواب انہوں نے دیا کہ میں نیورالوجسٹ کو کہاں سے ڈھونڈوں ؟حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے مریضہ کو فوراََ واپس فیصل آباد شفٹ کیا گیا اور الائیڈ ہسپتال کے ایک نیورالوجسٹ سے پرائیویٹ معائنہ کروایا ، انہوں نے فوراََ دماغ کی رسولی کے آپریشن کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی طریقے سے یہ بھی سمجھا دیا کہ کینسرابتدائی مراحل سے آگے جا چکا، بروقت علاج سے مریضہ کی جان بچانا مقصود ہوتو آپریشن پرائیویٹ ہی کروائیے ،مرتا کیا نہ کرتا ؟ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے مصداق سرکارکے الائیڈ ہسپتال میں ہی پرائیویٹ آپریشن کروایا ۔

یہ ایک طویل داستان ہے کہ آپریشن کے بعد ریڈی ایشن اورعلاج کے دوسرے مراحل کس قدر اذیت ناک بنا دیئے گئے ۔
قارئین !میں عام طور پر معاشرے کے تاریک پہلووٴں پر لکھنے سے اس لئے گریز کرتا ہوں کہ آج کا منہ زور میڈیا یہ خدمت بہت اچھے طریقے سے بجا لارہا ہے ۔کوشش کرتا ہوں کہ سما ج کی کوئی اچھائی سامنے آئے تاکہ اس کے فروغ کی بات چلے اور برائی کا مقابلہ اچھائی سے کیا جا سکے ۔

لیکن بعض اوقات دل اس قدر دکھتا ہے کہ بیان سے باہر ہے ۔ کوئی چار ، چھ مہینے گزر گئے ہیں ایک بیوہ خاتون کا معاملہ ذاتی طور پر ایم ڈی بیت المال بیرسٹر عابد وحیدشیخ کے علم میں لایا تا کہ اس غریب کے علاج اور گزر بسر کا کچھ انتظام ہو سکے ، بارہا رابطہ کیا ، کل ٹیلی فون پر انہوں نے فرمایا کہ میں منظوری دے چکا ہوں بہت جلد بیوہ خاتون کو امدادی رقم کا چیک مل جائے گا۔

دیکھئے کب اس بیوہ خاتون کی داد رسی ہوتی ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایک غریب اور مستحق کو صحت کی سہولیات بغیر کسی سفارش کے کیوں نہیں مہیا کی جاتیں ؟بغیر سفارش تو چھوڑئیے ، اوپر بیان کئے گئے ایک واقعے سے اندازہ لگائیے کہ ہسپتالوں میں بیٹھے ڈاکٹر ز کیسے ایک وزیر کے احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیتے ہیں ۔ جمہوریت بحالی کی تحریک کے بعد اس قوم پر وکلا برادری کے احسان ہی کیا کم تھے کہ آئے روز ”چائنا میڈینگ ڈاکٹرز“ کی ہڑتال نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔

ایسا نہیں کہ تمام ڈاکٹر ز ایسے ہیں لیکن اکثریت اپنے پیشے کے تقدس کو دولت پرستی کی غلاظت میں ڈبو چکی ۔ فیصل آباد کے ڈاکٹر شفیق یاد آتے ہیں ، جو صرف نام کے نہیں حقیقی معنوں میں مریضو ں کے لئے شفیق ثابت ہوتے ہیں ۔ مریض کو اس کی ذہنی سطح کے مطابق بیماری کی نوعیت مناسب طریقے سے نہ صرف سمجھاتے ہیں بلکہ علاج کے معاملے میں بھی پورا تعاون کرتے ہیں ۔

کراچی کے ڈاکٹر ادیب رضوی کی خدمات بھی شعبہ طب سے وابستہ افراد کے لئے قابل تقلید ہیں کہ کیسے اس ایک شخص کے خلوص اور جذبے نے ہزاروں مریضوں کی زندگی آسان کی اور اپنے دنیا اور آخرت بھی کر رہے ہیں۔
آئے روزڈاکٹرز کی ہڑتال کے معاملے پر وزیراعلیٰ کے بیانات بھی اخبارات کی زینت بنتے ہیں کہ ڈاکٹرز اپنے جائز مطالبات پر ضرور بات کریں لیکن عوام کی زندگیوں کو داوٴ پر لگانے والی قاتل ہڑتالوں سے باز آجائیں لیکن یہ مسیحا ہیں کہ اپنے پیشے کے تقاضے کے بالکل برعکس دولت کی ہوس میں مبتلا ہیں اور کسی کی جان تک کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ۔

حکومت اگر ہسپتالوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانا چاہتی ہے تو واویلا مچایا جاتا ہے کہ ہسپتال بیچے جار ہے ہیں ۔ بھاری بجٹ مختص کرنے کے باوجود جب ان ہسپتالوں سے عوام کو کچھ میسر نہیں تو اور کیا کیا جائے ۔
#ضرورت اس امر کی ہے کہ اب حکومت اورنج ٹرین اور میٹرو بس کے علاوہ بھی کچھ سوچے ، یہ منصوبے ضرور چلائے جائیں کہ ان سے غریب عوام کا مفاد وابستہ ہے لیکن صحت کے شعبہ سے جلاد صفت ڈاکٹروں کے اخراج کے لئے غیر معمولی قانون سازی کی جائے اور ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ پیرامیڈیکل سٹاف کو بھی ایک ایسے نظم کا پابند بنایا جائے جس کی ترجیح اول دولت کی ہوس نہ ہو بلکہ غریب عوام کو مفت ادویات اور علاج کی دوسری سہولیات بغیر کسی سفارش اور آسانی سے میسر ہوں ۔

ورنہ اورنج ٹرین اور میٹرو جیسے مہنگے منصوبے بھی عوام کا دل جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :