علماء کی سیاست… کل اور آج

جمعرات 30 مارچ 2017

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

جمعیت علمائے اسلام کے زیراہتمام صد سالہ تاسیس جمعیت اجتماع پشاور میں منعقد ہونے جارہا ہے جس کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ برصغیر میں علماء کی سیاست پولیٹیکل سائنس کا ایک اہم موضوع ہے جس پر مختلف جہتوں سے بحث ہوتی رہی ہے اور جمعیت علماء اسلام نے صد سالہ اجتماع کا انعقاد کرکے اس موضوع کو پھر سے معرض بحث میں پیش کردیا ہے۔ جمعیت علماء کے قیام کو قمری اسلامی کلینڈر کے حساب سے 100 سال مکمل ہوچکے ہیں اور اس موضوع پر ایک عظیم الشان اجتماع کے انعقاد کا مقصد ماضی سے روشنی حاصل کرکے مستقبل کی نقشہ گری کرنا ہے۔


یہاں یہ امر خاص طور پر ملحوظ رہے جمعیت علماء کی سو سالہ تاریخ محض ایک دینی سیاسی تحریک کے نشیب وفراز کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ برصغیر کے دینی طبقات کی عدم تشدد پر مبنی پرامن سیاسی جدوجہد کے سودوزیاں کے حساب کا بھی ایک اہم موقع ہے۔

(جاری ہے)

جمعیت علماء 100 سال بعدآج کہاں کھڑی ہے اور جن مقاصد واہداف کے حصول کی خاطر یہ جماعت تشکیل دی گئی تھی، ان میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے اور وہ کون سے امور ہیں جن توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ اس اجتماع کے موقع پر اجتماعی غوروفکر کا سوال ہے۔


سب سے پہلے اس پس منظر کو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں جمعیت العلماء کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ اس وقت کا عالمی منظرنامہ یہ تھا کہ پہلی جنگ عظیم اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے ساتھ اختتام کو پہنچی تھی اور دنیا میں زبردست سیاسی وجغرافیائی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران بہت سی قوموں نے نقصان اٹھایا مگر سب سے زیادہ خسارہ عالم اسلام کے حصے میں آیا کہ امت مسلمہ کی وحدت کی علامت خلافت عثمانیہ شکست خوردہ قوتوں کا ساتھ دینے کی پاداش میں اتحادی ممالک کے زیر عتاب آئی اور اس کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل اپنے انجام کو پہنچنے لگا۔

ادھر برصغیر کی صورت حال یہ تھی کہ یہاں 1915ء کے آس پاس تحریک ریشمی رومال کی ناکامی اور آزادی کی جدوجہد کی قیادت کرنے والے رہنماوٴں کی گرفتاری وجلاوطنی نے مسلمانوں کو سخت بے حوصلہ کردیا تھا۔ ہندوستان میں انڈین نیشنل کانگریس کے نام سے ایک بڑی سیاسی قوت ضرور موجود تھی جس کا مسلمان بھی حصہ تھے مگر اس کی قیادت چونکہ ہندووٴں کے ہاتھ میں تھی، اس لیے اس سے زیادہ توقعات نہیں رکھی جاسکتی تھیں۔

مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے ایک الگ سیاسی پلیٹ فارم بھی موجود تھا مگر اس وقت وہ بھی کسی ولولہ انگریز قیادت سے محروم تھا اور اس میں زیادہ تر انگریز سرکار سے مراعات یافتہ طبقے کے افراد شامل تھے۔
ان حالات میں ایک ایسی انقلاب آفریں دینی وسیاسی قوت کی تشکیل ناگزیر تھی جو برطانوی استعمار کے قبضے کے خلاف مسلمانوں کی 200 سالہ جدوجہد کے تسلسل کو نئی حکمت عملی، نئے ولولے اور نئے جوش وجذبے کے ساتھ آگے بڑھا سکے۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بڑا تاریخی لمحہ اور ٹرننگ پوائنٹ تھا جہاں مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی حکمت عملی تبدیل ہوئی اور مسلح بغاوت اور عسکری جدوجہد کی بجائے پرامن سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنایا گیا۔ حکمت عملی کی اس تبدیلی کے پیچھے خود مسلمانوں کی 200 سالہ عسکری جدوجہد کے تجربات کا عمل بھی دخل تھا اور نئی دنیا کے لیے حالات ورجحانات کے ادراک کا عنصر بھی کارفرما تھا۔

بنگال، میسور، بکسر، بالاکوٹ، یاغستان اور دہلی کے معرکوں اور آخر میں تحریک ریشمی رومال کی ناکامی کا سبق یہ تھا کہ ایک منظم ریاستی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے منتشر سماج کا غیرمنظم عسکری محاذ کا رگر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے معاشرے کی از سر نو شیرازہ بندی ضروری ہے۔ تحریک ریشمی رومال کے بانی شیخ الہند مولانا محمود حسن نے مالٹا کی قید کے دوران مسلمانوں کی ذلت و پستی کے اسباب پر غور کیا تو اسی نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا سماج قرانی تعلیمات سے دور ہوکر خرافات میں کھوچکا ہے اور داخلی انتشار، فرقہ بندی، بے سمتی اوربے عملی کا اشتہار بنا ہوا ہے۔

ذلت و ادبار سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کا احیاء اور فرقہ وارانہ آویزش کو ختم کرکے امت کے اتحاد کے لیے منظم بنیادوں پر کام کیا جائے۔
اب یہ کام کیسے کیا جائے؟ اس کے لیے انیسویں صدی کی دنیا میں امکانات کے نئے باب کھل رہے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے پوری دنیا میں عدم تشدد کی پالیسی کی اہمیت پھر سے اجاگر کردی تھی اور سیاسی و معاشی اہداف و مطالبات کے حصول کے لیے سیاسی پارٹیوں، ٹریڈ یونینز، طلبہ تنظیموں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی انجمنوں کے قیام کا رجحان بڑھ گیا تھا۔

اس ماحول میں ہندوستان کے جید اور ممتاز علماء نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ علماء کی بھی ایک جماعت ہونی چاہیے جو ہندوستانی مسلمانوں کے دینی و ملی مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ وطن کی آزادی کی جدوجہد کو بھی آگے بڑھاسکے۔ 1919ء میں جمعیت علماء ہند کا قیام عمل میں آیا تو اس میں مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا داوٴد غزنوی، مولانا معین الدین اجمیری، مولانا عبدا لماجد بدایونی رحمہم اللہ جیسے دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی مکاتب فکر کے جید ترین علماء شامل تھے۔

جمعیت علماء ہند کا پہلا سالانہ اجلاس ہوا تو شیخ الہند مولانا محمود حسن نے پیرانہ سالی کے باوجود اس میں شرکت کی اور نہ صرف مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کو اتحاد کا درس دیا بلکہ مسلمانوں، ہندووں اور سکھوں کویہ تلقین بھی کی کہ وہ اپنے مذہبی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر قابض برطانوی استعمار کے خلاف متحد ہوں۔ شیخ الہند نے دیوبند اور علی گڑھ کے درمیان خلیج کو پاٹنے کی کوبھی کوشش کی اورجامعہ ملیہ کاقیام عمل میں لاکر اور علی گڑھ سے مضبوط رابطے قائم کرکے یہ پیغام بھی دیا کہ مسلمانوں کو ترقی اور کامیابی کا سفر شروع کرنے کے لیے مسٹر اور ملا کی تفریق ختم کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔


بد قسمتی سے شیخ الہند کی زندگی نے وفا نہیں کی اور انہیں اپنے اس عزم کی تکمیل کے لیے مزید کام کرنے کا موقع نہ مل سکا تاہم جمعیت علماء ہند نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجودمسلمانان ہند کی قیادت و رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینے کی کوشش کی۔ جمعیت علماء ہند وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے سب سے پہلے ہندوستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا اور اس مطالبے کی تکمیل کے لیے تحریک ترک موالات، تحریک خلافت، ہندوستان چھوڑو تحریک سمیت کئی تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کیا۔

اس سلسلے میں علماء کو قیدو بنداور جبر وتشدد کے روایتی استعماری حربوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی پوری ایک تاریخ ہے۔ جمعیت علماء ہند محض ایک دینی سیاسی جماعت نہیں تھی بلکہ اس کی خدمات کا دائرہ مختلف رفاہی شعبوں تک پھیلا ہوا تھا۔ جمعیة نے مسلمانوں کے روزمرہ کے معاملات میں ان کی رہنمائی کے لیے صوبوں اور ریاستوں کی سطح پر امرائے شریعت کا ایک نظام قائم کیا جس نے دور غلامی میں مسلمانوں کے لیے آزاد عدلیہ کا کردار ادا کیا۔


دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے ہنگام جب دنیا میں نئی سیاسی و جغرافیائی تبدیلیاں آنے لگیں اور یہ نظر آنے لگا کہ سلطنت بر طانیہ اپنی دیگر بہت سی نو آبادیات کے علاوہ بر صغیر پر بھی قبضہ بر قرار نہیں رکھ سکے گا تو ہندوستان کے مستقبل کا سوال پیدا ہوا اور اس سوال نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو متاثر کردیا کہ ان کی سوچ اس حوالے سے تقسیم ہوگئی کہ مسلمانوں کومتحدہ ہندوستان کے اندر ہندو اکثریت کے ساتھ عمرانی معاہدہ کرکے رہنا چاہیے یا اپنے لیے ایک الگ وطن کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔

یہ دونوں امکانات آسان نہیں تھے لیکن دوسرے امکان میں کشش زیادہ تھی، اس لیے ایک کشمکش کی صورت حال پیدا ہوگئی جس سے علماء بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ چنانچہ جمعیت علماء ہند میں بھی اس مسئلے میں اختلاف ہوا۔ تحریک پاکستان کے حامی علماء نے جن کے سرخیل مولانا شبیر احمد عثمانی تھے، 1944ء میں جمعیت علماء اسلام تشکیل دی جبکہ تقسیم کے مخالف علماء نے پرانے نام سے ہی مولانا سید حسین احمد مدنی کی قیادت میں اپنی جدو جہد جاری رکھی۔

کہا جاتا ہے کہ شاید علماء کے اس اختلاف تکوینی حکمت پوشیدہ تھی، بعد میں پاکستان کا ساتھ دینے والے علماء کو پاکستان میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملا اور تقسیم کے مخالف علماء کے سیاسی کردار نے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے سر اٹھاکر بات کرنے کی گنجائش برقرار رکھی۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے مگر یہاں ایک لمحے کے لیے اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ اگر جمعیت علماء اس وقت تقسیم کا شکار نہ ہوتی اور تقسیم بر صغیر کے حق یا مخالفت میں علماء کا ایک متفقہ موقف سامنے آتا تو کیا آج بر صغیر کے مسلمانوں کی پوزیشن وہی ہوتی، جو اس وقت ہے؟:
تقسیم کے بعد جمعیت کی ان دو شاخوں کا اختلاف خود ہی ختم ہوگیا اور ہر ایک کے سامنے نئے اور بالکل الگ نوعیت کے مسائل اور چیلنجز کھڑے ہوگئے۔

جمعیت علماء ہند کویہ چیلنج در پیش تھا کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ہندو اور سکھ اکثریت کے عتاب سے کیسے بچایا جائے اور ان کی دینی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔ جمعیت علماء ہند کے اکابر نے پاکستان کے الگ ہونے کے بعد ہندوستان میں اقلیت بننے والے مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا کیا اور اسلامی سلطنت کی یادگاروں اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے نشانات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا۔

جمعیت علماء ہند کے لیے ہندوستان کی پارلیمانی سیاست میں موٴثر کردار ادا کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں رہی تھی، اس لیے نے ایک غیر سیاسی اور خالص مذہبی تحریک کی حیثیت سے اپنا کام جاری رکھا اور تعلیمی، رفاہی اور سماجی شعبے میں ہزاروں ادارے قائم کیے جو اس وقت بھی کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جمعیت کے راہنما دیگر سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے انتخابی سیاست میں بھی حصہ لیتے ہیں۔

حالیہ عرصے میں مولانا محمود مدنی بھارتی سیاست میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ برطانیہ، افریقا اور بعض دیگر ممالک میں جمعیت علماء کی شاخیں بھی اسی طرز پر کام کرتی ہیں اور مسلمان عوام میں اپنا اثر رسوخ رکھتی ہیں۔
جہاں تک جمعیت علماء اسلام کا تعلق ہے تواسے بالکل مختلف حالات کا سامنا رہا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا قیام ہی پاکستان کی حمایت میں عمل میں لایا گیا تھا۔

اس کے بانیین نے تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مفتی محمد شفیع  نے دارلعلوم دیوبند سے دو قومی نظریے کے حق میں تاریخی فتوی جاری کیا، جس نے تحریک پاکستان کی عمارت کے لیے ایک بنیادی اینٹ کا کردار ادا کیا۔ صوبہ سرحد میں ہونے والے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں راے عامہ ہموار کرنے میں سب سے نمایاں کردار مولانا شبیراحمد عثمانی نے ادا کیا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تحریک پاکستان میں ان علماء کے کردار کے دل سے معترف تھے، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد ڈھاکا اور کراچی دونوں جگہ پاکستان کا پرچم لہرانے کا اعزاز علماء کو بخشا جو جمعیت علماء اسلام کے لیے باعث افتخار امر ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ پاکستان بننے کے بعد اس مقصد اور منزل کی طرف کوئی پیش رفت نہ ہوسکی، جس کی خاطر علماء نے قربانیاں دی تھیں۔

یہاں یہ تسلیم کر نے میں بھی کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا کہ تحریک پاکستان کے دوران مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے قیام کا نظریہ پیش کیا گیا اور اس ریاست کو اسلامی تعلیمات کی تجربہ گاہ بنانے کی بات بھی کی گئی، مگر اس وقت کے معروضی حالات نے شاید مسلم لیگی قیادت کو موقع ہی نہیں دیا کہ ان علماء کرام سے مشاور ت کرکے اسلامی نظام کا کوئی پیشگی خاکہ ہی مرتب کرلیا جاتا، جس کا تجربہ پاکستان میں کیا جانا تھا۔

جمعیت علماء اسلام چونکہ ابھی نئی نئی بنی تھی، اس لیے اسے بھی شاید اس سلسلے میں پوری تیاری کا وقت نہ مل سکا۔
پھر قیام پاکستان کے بعد ایک تو فسادات، مسلمانوں کے قتل عام، مہاجرین کے مسائل اور اقتصادی مشکلات کا ایسا طوفان سامنے تھا کہ اس میں ملک کے سیاسی نظام کی تشکیل کا سوال ہی ثانوی سا ہوگیا تھا، دوسری طرف تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کے لیے فضا ہموار دیکھ کر انگریزوں کے مراعات یافتہ روایتی مفاد پرست طبقے کے لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر رکھی تھی، یہ طبقہ پاکستان میں کسی ایسے انتظام کو قبول نہیں کرسکتا تھا جو ااس کے مفادات کے تحفظ کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہو۔

اس دوران قائد اعظم کی رحلت نے ایک ایسا خلاء پیدا کردیا جس میں مذکورہ طبقے کو اپنا کھیل کھیلنے کا پورا پورا موقع مل گیا۔ حالات ایسے بن گئے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا خواب پورا ہونے کی امید کی کلی مرجھانے لگی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کی پہلی دستورساز اسمبلی میں یہ سوال بلاوجہ کھڑا کردیا گیا تھا کہ ملک کا دستور اسلامی بنیادوں پر ہوگا یا سیکولر ہوگا؟تحریک پاکستان کے سرگرم رکن اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی سردار عبد الرب نشتر کو صرف اس وجہ سے ”سائیڈ لائن“ کردیا گیا کہ وہ پاکستان کے لیے اسلامی دستور کی تشکیل پر زور دیتے تھے۔

اس وقت ملک کے وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم تھے، جو بانی پاکستان محمد علی جناح کے بعد مسلم لیگ کے سب سے بڑے اور مسلم قائد تھے، جبکہ دستور ساز اسمبلی میں تحریک پاکستان کے نام ور راہ نما شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی بھی موجود تھے، جو مشرقی پاکستان سے منتخب ہوکر دستور ساز اسمبلی میں آئے تھے۔ مولانا شبیراحمد عثمانی نے جو اس وقت اس جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ تھے، جس نے جماعتی طور پر تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا تھا، اس صورت حال کا پوری جرأت واستقلال کے ساتھ مقابلہ کیا۔

ان کی محنت اور جدو جہد سے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان مرحوم نے دستورساز اسمبلی میں ”قرارداد مقاصد“ پیش کی، جو متفقہ طور پر منظور ہوئی اور جس میں ہمیشہ کے لیے طے پاگیا کہ پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر نظام مملکت چلایا جائے گا اور اس طرح پاکستان کو باقاعدہ نظریاتی اسلامی ریاست کی حیثیت دے دی گئی، جس پر عالمی سیکولر لابیاں آج تک پیچ و تاب کھا رہی ہیں۔


مگر پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے محض قرار داد مقاصد کی منظوری کافی نہیں تھی۔ ابھی آئین سازی کے بہت سے مرحلے باقی تھے اور دوسری جانب مخصوص طبقے کی محلاتی سازشیں بھی اپنے عروج پر تھیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک منظم اور پیہم جدوجد کی ضرورت تھی۔ اس جدو جہد کے حوالے سے بھی یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ علماء نے قیام پاکستان سے پہلے کی طرح نئے مایوس کن حالات میں بھی پر امن سیاسی تحریک کا راستہ ہی اختیار کیا اور ملک کی پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور کہیں بھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔

1953ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران علماء اور مذہبی طبقے کو زبردست ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، مگر انہوں نے کسی بھی مرحلے پر جوابی تشدد کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایوب خان کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف جدوجہد، 1973ء کے آئین میں اسلامی دفعات کی شمولیت کی جدوجہد، تحریک ختم نبوت، قومی اتحاد کی تحریک، ایم آر ڈی کی تحریک اور نائن الیون کے بعد کی دنیا میں امریکی مداخلت کے خلاف تحریک میں کہیں بھی علماء کی سیاست میں تشددکا عنصر نہیں ملے گا۔


اب سوال یہ ہے کہ علماء کی 100سالہ پر امن سیاسی جدوجہد کا حاصل اور ثمرہ کیا ہے؟ اور جن مقاصد و اہداف کے تحت جمعیت علماء ہند کا قیام عمل میں لایا گیا تھا،ان کے حصول میں اب تک کتنی کامیابی مل سکی ہے؟اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو متعدد مثبت اور حوصلہ افزااشاریے بھی سامنے آتے ہیں جبکہ کئی زاویے ایسے بھی ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پارلیمانی سیاست علماء کی پر امن سیاسی جدو جہد کا ایک اہم عنوان ہے۔جیساکہ پیچھے گزرا،اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام کی اہم کامیابی قرار داد مقاصد کی منظوری تھی جس نے ملک کے نظام کی سمت متعین کی۔ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد اسی سمت میں چلتے ہوئے1973ء کا آئین تشکیل دیا گیا۔
ملک کا موجودہ آئین جو 1973ء کا دستو رکہلاتا ہے، جب 1973ء میں ملک کی منتخب دستورساز اسمبلی میں منظور کیا گیا تو اس وقت دستورساز اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا مفتی محمود نہ صرف جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی گروپ کی قیادت کررہے تھے، بلکہ حزب اختلاف کے بھی قائد تھے اور ان کی قیادت میں حزب اختلاف نے دستور میں اسلامی دفعات شامل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس میں انہیں دیگر علمائے کرام اور حزب اختلاف میں شامل دیگر جماعتوں کا تعاون بھی حاصل تھا، مگر یہ معرکہ حضرت مولانا مفتی محمود کی قیادت میں سر ہوا، جس کے تحت #ملک کا سرکاری مذہب اسلام قرار پایا۔#قرآن وسنت کے احکام وقوانین کے نفاذ کو پارلیمنٹ کی ذمہ داری قرار دیا گیا اور #قرآن وسنت کے منافی قانون سازی سے پارلیمنٹ کو دستوری طور پر روک دیا گیا وغیرذلک۔

اس کے بعد 1974ء میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو اس وقت بھی جمعیت علمائے اسلام کے راہ نماوٴں مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبدالحق اور دیگر حضرات نے بنیادی کردار ادا کیا اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں اور علمائے کرام کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کو اس بات کے لیے تیار کیا، جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیرمسلم اقلیت کا درجہ دے دیا اور یہ پرانا مسئلہ اسلامی احکام اور عوامی جذبات کے مطابق حل ہوا۔


1977ء میں ملک بھر میں نظام مصطفی کے نفاذ کی تحریک ”پاکستان قومی اتحاد“ کے پلیٹ فارم سے چلائی گئی، جس کے سربراہ جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا مفتی محمود تھے اور اس زبردست عوامی تحریک کے بعد جنرل ضیاء الحق مرحوم کی حکومت نے جب تحریک نظام مصطفی کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کیا تو قومی اتحاد نے اس مقصد کے لیے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ حکومت میں شامل ہوکر وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں شریعت اپیلٹ بنچ جیسے اہم ادارے قائم کرائے، حدود آرڈیننس کا نفاذعمل میں لایا گیا، قرارداد مقاصد دستور کا واجب العمل حصہ قرار پائی اور نفاذ اسلام کے لیے دیگر عملی اقدامات کیے گئے۔

2008ء کے عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں دستور پاکستان پر نظرثانی کے لیے کمیٹی بنائی گئی تو بین الاقوامی اور ملکی سطح پر بہت سی لابیاں متحرک ہوگئیں کہ نظرثانی کے نام پر اسلامی دفعات کو دستور سے خارج کردیا جائے یا کم ازکم غیرموثر بنادیا جائے۔ یہ ملک کی دینی قوتوں کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا، جس کا جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے آئینی اصلاحات کمیٹی میں پوری جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلامی دفعات کے خلاف پیش کی جانے والی ہر ترمیم پر دلائل کے ساتھ بحث کرکے ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔

یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ عالم اسباب میں دستوری ترامیم کی زد میں آنے سے اسلامی دفعات کو بچانے میں مولانا فضل الرحمن کا کردار فیصلہ کن رہا، جسے تاریخ میں جمعیت علمائے اسلام کے اہم کارنامے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جمعیت علماء اسلام اس وقت بھی پاکستان کی ایک بڑی پارلیمانی سیاسی قوت ہے۔وفاق میں جمعیت ایک اہم حکومتی جماعت ہے اورجمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا شمار اس وقت پاکستان کی صف اول کی سیاسی قیادت میں ہوتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پانچواں بڑے آئینی عہدے( ڈپٹی چیئر مین سینیٹ) پر آج ایک مولوی براجمان ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل جیسے آئینی ادارے کی سربراہی بھی کچھ عرصہ قبل تک جمعیت کے پاس تھی۔دو صوبائی اسمبلیوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قائد حزب اختلاف کا منصب بھی علماء کے پاس ہے۔ دونوں صوبوں کے کئی اضلاع میں جمعیت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی بلدیاتی حکومتیں قائم ہیں ۔

جمعیت علماء اسلام پاکستان کی ان دو تین سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے جس کی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں یونین کونسل کی سطح تک کی بھی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں جمعیت کے اورسیز یونٹ بھی سرگرم ہیں۔اس بناء پر یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ جمعیت علماء اسلام محض کوئی کاغذی پارٹی نہیں بلکہ ایک زندہ و جاوید سیاسی حقیقت ہے ۔

اس بات کا کریڈٹ جمعیت علماء اسلام کوجاتا ہے کہ اس نے قومی سیاست میں علماء کے کردار کو بہر حال زندہ رکھا ہوا ہے اور پاکستان کو بنگلہ دیش یا مصر بننے سے بچائے رکھا ہے۔بناء بریں جمعیت علماء اسلام آج اگر اپنی تاسیس کے سوسال مکمل ہونے پر تقریبات کاا نعقاد کر رہی ہے تو اس کے پاس یقینا کچھ مایہ ٴ افتخار بھی ہے جو بھی قوم کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔


مگر ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اگر اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر بھی نظر رکھنے کا بھی خیال ہو تو ابھی بہت سے میدان ایسے ہیں جن میں کام کرنے کی اشدضرورت ہے۔ مثلا جمعیت علماء ہند کے قیام کا ایک بڑا مقصد جیساکہ شروع میں عرض کیا گیا،فرقوں ، مسلکوں اور گروہوں میں بٹے مسلم سماج کو مجتمع کرنا بھی تھا۔ اس وقت برصغیر کا مسلم سماج ایک جانب مسلکی اختلافات کا شکار تھا تو دوسری جانب دینی و عصری تعلیم کو الگ الگ کرنے کے نتیجے میں مسٹر اور ملا کی جو تفریق پیدا ہوگئی تھی ،اس نے بھی مسلم معاشرے کے لیے مستقل خطرے کی شکل اختیار کر لی تھی۔

علماء اور سماج کے درمیان خلیج کا حجم بڑھتا جارہا تھا۔شیخ الہند مولانا محمود حسن نے اس خلیج کو ختم کرنے کا پیغام دیا تھا۔جمعیت علماء ہند نے یقینا اپنی سطح پر اس کے لیے کوششیں کیں لیکن بد قسمتی سے ان کوششوں کو زیادہ موٴثر اور ثمر آور نہیں بنایا جاسکا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک جانب جمعیت علماء ہند مسلکی لحاظ سے آہستہ آہستہ ایک مکتب فکر تک محدود ہوتی گئی اور دیگر مکاتب فکر کے علماء اس سے دور ہوتے چلے گئے ۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان میں ہر مکتب فکر نے اپنی اپنی” جمعیت علماء“ تشکیل دے دی۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر جمعیت علماء میں تمام مکاتب فکر کی نمایندگی اسی طرح رہتی تو شاید آج پاکستان میں دینی جدو جہد کا سفر اگلی منزلوں میں ہوتا اور شاید ہمارا معاشرہ فکری و مسلکی لحاظ سے اتنا منتشر نہ ہوتا جتنا کہ آج ہے۔
اسی طرح شیخ الہند نے اپنی تحریک میں جہاں وقت کے بڑے اور سرگردہ علماء کو آگے آگے رکھا وہیں ساتھ ہی انہوں نے عصری تعلیم گاہوں سے تعلیم حاصل کرنے والے ممتاز افراد اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے قابل اور ذہین لوگوں کو چن چن کرشامل کیاتھا۔

شیخ الہند کی فکر نے جامعہ ملیہ کی صورت میں دینی اور عصری تعلیم کے امتزاج کا ایک نمونہ بھی پیش کیا تھا۔ مگر بد قسمتی سے بعد میں علماء کی سیاست علماء ہی تک محدود ہوتی گئی اورعصری تعلیم کا شعبہ بھی علماء کی توجہات سے محروم رہا۔ علماء اور سماج کے درمیان خلاء ختم نہیں کیا جاسکا۔ درحقیقت اسی خلاء سے جماعت اسلامی کا نمودہوا،جمعیت علماء ہند سے سابقہ وابستگی رکھنے والے مولانا سید ابولا اعلیٰ مودودی نے سماج کی زبان اور نفسیات کے مطابق مواد پیش کیا اور برصغیر کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا۔


پاکستان بننے کے بعد بہت1969ء میں شیخ الہند کی فکر کے مطابق مسٹر اور ملا کی تفریق ختم کرنے اور عصری تعلیمی اداروں سے رجال کار پیدا کرنے کی خاطر جمعیت طلبہ اسلا م کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے ابتدائی دو عشروں تک تو خاصا اچھا اوراہم کام کیا۔ جمعیت طلبہ اسلام میں ملاوں اور مسٹروں کی کیمسٹری بنی توکئی نامور لوگ قومی سطح پر ابھر آئے جن میں مدارس سے خود مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری، مفتی نظام الدین شامزئی شہید، مولانا زاہدا لراشدی،مفتی جمیل خان شہید، مولانا شمس الدین شہید اور کالجوں اوریونیورسٹیوں سے ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید، ڈاکٹر سرفراز احمد خان شہید، ملک سکند رخان ایڈوکیٹ، محمدفاروق قریشی و دیگر نمایاں ہیں۔

مگر اسی کی دہائی کے بعد جمعیت طلبہ اسلام بھی آہستہ آہستہ مدارس کی طرف ہی لوٹنے لگی اور اس وقت خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عصری اداروں میں کہیں اگر اس کا وجود ہے تو ہے ورنہ قومی سطح پر یہ ”ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے“ کا مصداق بنی ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جمعیت کی قیادت میں تازہ خون شامل ہونے کا سلسلہ عرصہ ہوئے رک گیا ہے اور علماء کی سیاست اور سماج کے مزاج کی ہم آہنگی میں بڑی رکاوٹیں در پیش ہورہی ہیں جن کا نقصان خود جمعیت علماء کو سب سے زیادہ پہنچ رہا ہے۔


دنیا میں پر امن سیاسی جدو جہد کا جو تصور ہے، وہ ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے جو زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔ پارلیمانی سیاست اس کا ایک اہم جزو تو ہوسکتی ہے ، اس کا محور اور کل ہر گز نہیں۔ موجودہ دور میں کوئی بھی سیاسی تحریک اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے، جب معاشرے کے تانوں بانوں(Fabrics )تک اس کا اچھا اثرو نفوذ قائم ہوچکا ہو۔ حالیہ تاریخ میں جہاں جہاں بھی کوئی اسلامی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے، تو اس کے پیچھے برسوں کی منظم جدوجہد اور زندگی کے تمام شعبوں پر محنت کا عنصر دکھائی دیتا ہے۔

آپ کوئی بھی تبدیلی اس وقت تک نہیں برپا کرسکتے، جب تک آپ نے اس کے لیے مطلوبہ کوائف کے حامل رجال کار تیار نہ کیے ہوں۔ ترکی کی مثال دینا اس لیے تو شاید درست نہ ہو کہ ترکی کی اے کے پارٹی کوئی ٹھیٹھ دینی جماعت نہیں ہے اور رجب طیب اردوان وہاں کے علماء کی قیادت نہیں کر رہے، تاہم اگر پاکستان اور ترکی کے حالات اور ماحول کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے تو ترکی میں ایک مدرسے کے فیض یافتہ قرآن خواں رجب طیب اردوان کی جماعت کا اقتدار میں آجانا بالکل ایسا ہی جیسے پاکستان میں جمعیت علماء اسلام کی حکومت آگئی ہو،لیکن یہ حکومت ایسے ہی نہیں آئی،رجب طیب اردوان اور ان کی جماعت نے گلی محلے کی سطح پر کام کا آغاز کیا،انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں تگ و دو کی،امانت و دیانت کے ساتھ ساتھ اپنی اہلیت و قابلیت کی بھی دھاک بٹھائی اور ترک عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ مسجد کے میناروں اور اذان کی آوازوں کو اپنی عظمت اور طاقت کی علامت قرار دینے والے یہ راہنما ترکی کے عوام کے بنیادی مسائل کے حل کا بھی عزم اور صلاحیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے لوگوں کے مسائل کے حل بھی پیش کیے اور شہری و سماجی حقوق کے حصول کی جدو جہد میں ان کی قیادت بھی کی۔اس کے بعد ترکی کا سیکولر آئین ان کی راہ کا پتھر بن سکا نہ اس آئین کے محافظ منہ زور جرنیل تمام تر سازشیں کرنے کے باوجود ان کے آگے ٹھہر سکے۔ مصر میں الاخوان المسلمون کی حکومت قائم تو نہیں رہنے دی گئی تاہم وہاں جو انقلاب آیا تھا،اس کے اجزائے ترکیبی میں بھی معاشرے کے تمام طبقات کے عناصر موجود تھے۔

ایران کی مثال شاید ہمیں زیادہ گوارا نہ ہو ،تاہم یاد رکھنے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ ایرانی انقلاب میں جہاں قم کے قبا پوش نمایاں تھے، وہیں تہران ، مشہداور زاہدان کی یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اس میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔پاکستان میں بھی تحریک ختم نبوت سمیت کئی تحریکوں میں نوجوانوں نے علماء کی اپیل پر لبیک کہا اور قربانیاں دیں، لیکن یہاں بدقسمتی سے ان نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی کا کوئی دیرپا اور مستقل بندو بست نہیں کیا جاسکا۔


پھر یہاں علماء کی اب تک کی سیاست زیادہ تر خالص دینی و مذہبی موضوعات کے ارد گرد رہی ہے جوکہ اپنی جگہ درست ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ عوام کے بنیادی مسائل مثلاً مہنگائی، بے روز گاری، لوڈشیڈنگ اور شہری زندگی کے معاملات کو قرار واقعی اہمیت نہیں دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان مسائل کا حل سیکولر اور قوم پرست جماعتوں کا وظیفہ ٹھہرا اور لوگ انہی کی طرف دیکھنے لگے۔

یہ ایک حیرت انگیز امر ہے کہ حالیہ عرصے میں غیر ملکی اداروں نے رائے عامہ کے جتنے بھی جائزے پیش کیے ہیں، ان میں ہر جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے 80فی صد سے زائد عوام ملک میں اسلامی نظام کا قیام چاہتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو دینی جماعتوں کو کل ملنے والے ووٹ 10فی صد بھی نہیں ہوتے۔اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہاں کے مسلم سماج اور دینی جماعتوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے جس کو پاٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔


2002ء میں خطے کے مخصوص حالات کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت جمعیت علماء اسلام کی قیادت میں بنی، اس میں شک نہیں کہ زیادہ تر مدارس کے فیض یافتہ علماء کرام پر مشتمل اس حکومت نے کئی کارہائے نمایاں بھی سر انجام دیے جن کو صوبے کے عوام ا بھی تک یاد رکھتے ہیں، ناتجربہ کار ارکان پر مشتمل اس حکومت کا پانچ سال تک چلنا بھی اس کی ایک بڑی کامیابی ہی تھی،اس دوران کسی بد عنوانی اور بد انتظامی کی کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی، مگریہ حکومت صوبے میں کسی ایسی بڑی جوہری تبدیلی کی علامت نہ بن سکی جو دیگر صوبوں کے لیے مثال بن سکتی اور پورے ملک کے عوام اسے دیکھ کر علماء کی طرف کھچ آتے۔

اس کی وجہ یہی تھی کہ اس کے لیے پہلے سے تیاری تھی نہ وہ رجال کار دستیاب تھے جو بیوروکریسی پر قابو پاکر انقلابی پالیسیاں بناتے۔
آج کی دنیا میں میڈیا کا کردار ہر شعبے کی طرح سیاست میں بھی نہایت اہم اورکلیدی ہے۔ جو معرکے پہلے بڑے بڑے عوامی جلسوں اوراجتماعات میں لڑے جاتے تھے، اب اخبارات کے صفحات اور میڈیا کے ٹاک شوز میں لڑے جاتے ہیں۔

میڈیا جب ایجنڈا سیٹ کرتا ہے تو اس کی مرضی ہے کہ کسی کی رائی کو بھی پہاڑ بنالے اور کسی کے پہاڑ کو بھی رائی کی طرح دکھائے۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی جماعتیں میڈیا پر کام کرتی ہیں،اپنے موقف کو میڈیا پر لانے اور اپنے خلاف مواد کو روکنے
یا اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے جاتے ہیں۔افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علماء کی سیاست کا یہ باب تاحال خالی ہی دکھائی دیتا ہے۔

ایک دو رہنماوٴں کے استثناء کے بعد کوئی تیسرا شخص ہی نہیں ملتا جو میڈیا پر ڈھنگ سے بات ہی کرسکے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا پر سب سے زیادہ ٹرائل بھی علماء کا ہی ہوتا ہے، کیونکہ ان کی طرف سے جواب دینے والا ہی کوئی نہیں ہوتا۔اسی طرح سوشل میڈیا بھی دور حاضر کا ایک بڑا ہتھیار ہے۔کچھ سیاسی جماعتوں کا تو انحصار ہی گویا سوشل میڈیا پر ہے۔

اس میدان کوباقاعدہ ہدف بناکر لوگ اس کے ذریعے سے اپنی پروپیگنڈا وار چلا رہے ہیں۔دینی جماعتوں کی جانب سے اول تو اس میدان میں کوئی باقاعدہ اور منظم کام نظر ہی نہیں آتا ،پھر چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر جوشیلے نوجوان اس میدان میں جو گل کھلارہے ہیں، وہ دینی کاز کے لیے فائدہ مند ہونے کی بجائے الٹا نقصان کا باعث بن رہا ہے۔اس شعبے پر بھی توجہ دینا لازمی ہے۔


اس وقت میرے سامنے ماہنامہ ”الجمعیة “ کا تازہ شمارہ رکھا ہے۔ شمارے کے سرورق پر صدسالہ اجتماع کی تیاریوں کے سلسلے میں پشاور میں مولانا فضل الرحمن کے خطاب کی سرخی جلی حروف میں لکھی ہوئی ہے کہ” علماء کرام دنیا کی ترجیحات کو سمجھیں۔“ میرا خیال ہے کہ یہی فقرہ اس اجتماع کا ایجنڈا اور پیغام ہونا چاہیے۔ علماء کرام نے اگر معاصر دنیا کی ترجیحات اور اپنے سماج کے مزاج اور نفسیات کو سامنے رکھ کر اپنی سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ٹھان لی تو پاکستان میں نفاذ اسلام اور عالمی سطح پر اسلام کی نشاة ثانیہ کو کوئی نہیں روک سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :