خطرے کا الارم

جمعرات 30 مارچ 2017

Ghaznafar Hanif

غضنفر حنیف

علامہ اقبال نے کہا تھا کہ میں نیند کی میٹھی آغوش میں سو رہاتھا کہ تو نے جوش خودنمائی میں مجھے جگا دیا اقبال کی اس بات میں ایک فلسفہ موجود ہے جب خالق کائنات نے انسان کو بیدارکیا تو انسان کو ایک ارفع مقام سے نواز کر اس کائنات میں اتارا عالم انسانیت کے جد اول بابا آدم اور حوا سے لیکر آج کے اس دور تک تاریخ میں انسانوں کے عروج و زوال کے کئی ابواب موجود ہیں کہتے ہیں ہیں کہ انسانی تاریخ کے سب سے پہلے قتل جس میں ہابیل نے قابل کو جان سے ماراتھا اور پھر اس کو مٹی میں دبا دیا گیا عام آدمی سے لیکر بادشاہوں تک کئی نامور شخصیات جو تاریخ کے پنوں میں موجود ہیں اپنی تمام تر رعنائیوں اور جاہ وجلال کے ہوتے ہوئے آخر ایک دن اس دنیا سے دوسرے جہاں بہر صورت منتقل ہوئے گناہ و ثواب کی بنیاد پر پرکھے جانے والے اعمال انسان کی آخرت کا فیصلہ کرتے ہیں ہم فطرت کے ایک مربوط نظام کے باسی ہیں ہم کچھ بھی کر لیں فطرت نے اپنے اٹل اصولوں کے مروجہ قوانین کے بنیاد پر ہی فیصلہ سازی کرنا ہوتی ہے ایک خالق جو اس فطرت کا مالک ومختار ہے وہ اکیلا و یکتا اس کائنات کے ہزارہا نہیں اربوں رازوں کا لاشریک ہے اگر ہم باحیثیت انسان اپنے روزمرہ اعمال پر نظر ڈالیں تو ہر روز ہم سے بیش بہا غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کئی دانستہ اور کئی ایک غیردانستہ طور پر لیکن ہم جب اپنا آج قربان کر کے کل میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے کئی مواقع ضائع کر دیتے ہیں انسان کا اشرف المخلوقات ہونے کا بنیادی راز بھی یہی ہے کہ انسان اپنی غلطی کو نہ دہرائے بلکہ جو غلطی ہو چکی اس سے سیکھ کر ایک نئے ولولے سے دوسرے دن کا آغاز کرے ہم جس سماج کے باسی ہیں ہمارے مسائل دنیا کے مسائلوں سے ایک حد تک مختلف ہیں اور یوں ہم ہر روز کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو پس پشت ڈال کر دن بدن مسائل میں گرتے چلے جاتے ہیں اور پھر یہ مسائل گھمیر حد تک جا پہنچتے ہیں اگر ہم اپنے آس پاس چلتے پھرتے لوگوں پر نظر ڈالیں تو لوگ مسائل میں گھیرے خود سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں اگر کہا جائے کہ ہم لوگ آج بھی چاند دیکھ کر سوچتے ہیں کہ چاند تو روٹی کیطرح گول ہے تو غلط نہیں ہوگا جبکہ ترقی یافتہ قومیں چاند اور مریخ کی تسخیر کے بعد وہاں ہاوٴسنگ سوسائٹی کے بارے میں سوچ وبچار کرتی نظر آتی ہیں 70 سال قبل تقسیم برصغیر کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی جو سیاسی صورت حال درپیش آئی کچھ عرصہ قبل تک کشمیر صرف انڈیااور پاکستان کے مابین ایک قضیہ تھا جس میں کشمیری فریق تھے ہی لیکن آج کشمیرکے نام پر ایک فریق اور سامنے آگیا ہے چونکہ آج سرمایے کا دور ہے دنیا ہتھیاروں کی جنگ کو معشیت کی جنگ میں تبدیل کرچکی ہے اسطرح آج جو جنگ قوموں کے مابین لڑی جارہی ہے وہ معاشی جنگ کے زمرے میں شمار ہے سوویت یونین کے انحطاط نے دنیا کی تھانیداری امریکہ کو سونپ دی تھی لیکن وقت کے پھیر جب انگڑائی لی تو کسی نہ کسی حد تک یورو نے امریکہ کو پچھاڑنے کی کوشش کی لیکن معاملات جوں کے توں بدستور موجود رہے بین الاقوامی منڈی میں کوئی بڑی تندیلی دیکھنے کو نہ ملی اس دورانیے میں چائنہ اپنی افرادی قوت کی بنیاد پر آہستہ آہستہ منڈی میں اپنا اثرورسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا گیا جو معاشی اعتبار سے امریکی معیشت کے لئے خطرہ کا الارم ہے آج سے 70 سال قبل کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ منقسم کشمیر کی سرزمین اس اہمیت کے حامل ہو جائے گی جہاں سامراج اپنی معاشی جنگ لڑنے آدھمکیں گے اور آج چائنہ اس جنگ کا ایک فریق بن کر کشمیر کی سرزمین کے حوالے سے اپنے وزارتی ترجمان سے اوٹ پٹانگ بیان جاری کروا رہا ہے گلگت بلتستان کو صوبہ کے حوالے سے آج کشمیرکی تمام حصوں کی قیادت یہاں تک کہ حریت کانفرنس کے عمائدین بھی اس عمل کے خلاف ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے ذمہ داران کشمیر کے ایک وکیل کی حیثیت سے چائنہ کو باور کرواتے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے لیکن یہاں پھر ایک غلطی دہرائی جا رہی ہے اس سارے معاملے پر مٹی پاوٴ کی سی کیفیت ہے جغرافیائی وجوہ کی بنیاد پر آج ریاست جموں کشمیر دنیا کے معشیت پر اثر انداز ہونے کے تواتر میں ہے آج کشمیری قیادتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان انڈیااور چائنہ کے ذمہ داران کو یہ باور کروائیں کہ ہماری منقسم اور متنازعہ خطہ کی حیثیت کے تعین کے بعد تمام دوسرے عوامل مکمل کئے جائیں وہ سی پیک ہو یا گلکت بلستان کی آئینی حیثیت اہمیتی اعتبار سے کشمیر آج اس نہج پر ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنی معاشی جنگ کو کشمیر کی سرزمین پر لڑنے کے لئے خیمہ زن ہیں اور ہم اپنی کل کی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے انتشار میں بٹے ہوئے ہیں اگر آج ہم اور ہمارا وکیل اس انتشار کو قابوکر نے میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ دنیا کی نصف آبادی کی بقاء کی ضمانت ہوگی بصورت دیگر دنیا کی تین ارب کی آبادی کشمیر کی سرزمین پر ایک خوفناک صورت سے دوچار ہوتی نظر آتی ہے قضیہ کشمیر کا حل ضروری ہے ورنہ آج دنیا کی جو نئی صورت حال بنتی جارہی ہے اس میں خطہ کشمیر ایٹم بم نہیں ہائیڈروجن بم سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو گا جہاں دوکروڑ انسانوں کی بنیادی آزادی اور حق خودارادیت کا منصفانہ حل امن وآتشی مہیا کرسکتا ہے اگر اس خطہ کے تین ایٹمی طاقتوں اورامریکہ نے ریاست جموں کشمیر کے قضیہ کا حل تلاش نہ کیا تو دنیا کے حالات مختلف ہوتے نظر آتے ہیں آخر کیا ہرج ہوجائے گی اگر دنیا کے منصف کشمیریوں کے بنیادی آزادی کے حق کو دیتے ہوئے اپنے اپنے معاشی معاملات خوش اسلوبی سے نمٹائیں اگر ایسا نہ ہوا تو انتشار کا ایک لاوا ایشاء کے طرف بڑھتا ہو ا نظر آرہا ہے جسکا انجام نہ جانے کیا ہوگا آج قضیہ کشمیر کا منصفانہ حل ہر دوصورت ہندوستان ،پاکستان اور چائنہ کے مابین اور یہاں بسنے والی دنیا کی آدھی آبادی کے امن کا ضامن ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :