فوٹو سیشن اور سیلفیاں

جمعرات 30 مارچ 2017

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

ہمارے کچھ ماڈرن اور روشن خیال علماء کا یہ کہنا کہ اسلام کی تعلیمات کا مقصد تزکیہ نفس ہے اور ریاست کی تشکیل اور حکومتی معاملات اس کے پیش نظر نہیں ہیں۔حیرت ہے وہ کہ رسول اکرم ﷺ کی جدوجہد اور اس کے نتیجہ میں ریاست مدینہ کی تشکیل کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ اگر تزکیہ نفس ہی دین کا مقصد ہے تو اس کے لئے کسی ریاست کی کیا ضرورت تھی۔ اسی طرح تحریک پاکستان کے دور میں بہت سے علماء اس بنیاد پر الگ ملک کے مخالف تھے کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف اقوام نہیں بلکہ ایک ہی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔

حیرت ہے ان لوگوں نے اسلام کی بنیاد کو ہی نہیں سمجھا اور بقول علامہ اقبال کہ عجم کو ابھی تک رموز دین کی سمجھ ہی نہیں آئی کہ اسلام ایک نظام ہے اور اسے بروئے کار لانے کے لئے ایک خطہ زمین اور مملکت کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

یہ محض مذہب نہیں جو چند عقائد اور رسوم کا نام ہو۔دوسری جانب لادین عناصر کی جانب سے یہ کہنا جاتا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ ایک سیکولر ریاست کے لئے تھا۔

اپنے زعم میں یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں اور وہ آل انڈیا مسلم لیگ اور قائد اعظم کا کوئی ایک بیان بھی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش نہیں کرتے بلکہ قائد اعظم کے بیسیوں پالیسی سازبیانات کو نظر انداز کردیتے ہیں جن میں وہ بار بار قرآن حکیم اور اسوہ حسنہ سے رہنمائی کا اظہار کرتے ہیں اور مملکت کا آئین کتاب عظیم کو قرار دیتے ہیں۔

اگر مذہب وجہ نہ تھی تو ہندوستان تقسیم کیوں ہوا۔ کانگریس تو خود سیکولر ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد کررہی تھی تو پھر برصغیر میں دو الگ الگ سیکولر ریاستوں کی ضرورت کیا تھی۔ چوہدری رحمت علی نے کس بنیاد پر مطالبہ پاکستان کیا تھا۔ کیا انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے اس جماعت کے مقاصد نظر نہیں آتے۔ دراصل ان عناصر کے دل میں نظریہ پاکستان کانٹے کی طرح چبتا ہے اور وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔

یہ وہ عناصر ہیں جن کا اصل مسئلہ اسلام ہے اور وہ دین کو اپنی زندگی کا محور نہیں سمجھتے۔ ایسے عناصر کی اصلیت قرآن حکیم کی سورہ بقرہ کی آٹھویں آیت میں کھول کر بیان کردی ہے کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ مومن نہیں ہیں۔
پاکستان نعمت خداوندی ہے اور قائد اعظم نے حصول پاکستان کا مقصد سچے اسلامی تصورات کے مطابق ایک جمہوری اور فلاحی مملکت کا قیام قرآن دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی قائم کریں گے اورغریب عوام کی معاشی حالت بہتر بنائیں گے۔ لیکن آج پاکستان آج بھی وہ مقآصد پورے نہیں ہوئے۔ جہاں بھی دو پاکستانی ملتے ہیں وہ ملکی حالات کا نوحہ پڑھتے ہیں۔ ہماری کوئی بھی محفل ہو اس میں گھوم پھر کر بات پاکستان کے حالات پر آجاتی ہے اور ان خراب حالات کا ذمہ دار اقتدار میں رہنے والوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔

سیاستدانوں، بیوروکریسی اور ذاتی مفاد کے لئے ملک کو نظر انداز کرنے والوں کو مجرم گرد انا جاتا ہے۔ لوگ جب پاکستان کے مسائل اور وہاں کے ناگفتہ بہ حالات پر بحث کرتے ہیں تو ضمیر فروش صحافیوں اور اہل قلم کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ قومی وسائل کے ناجائیز استعمال پر افسر شاہی کو برا بھلا کہتے ہیں اور سب سے زیادہ سیاستدانوں خصوصاً جو اقتدار میں رہے ہوں یا اس پربراجمان ہوں ،انہیں کوستے ہیں۔

بیرون ممالک مقیم پاکستانی جن میں دل پاکستان کی محبت اور بھی زیادہ ہوتی ہے، ان کی تنقید اور غصہ اور بھی شدید ہوتا ہے لیکن المیہ اور منافقت کا یہ عالم ہے کہ وہی عوام جب بر سراقتدار یا اقتدارمیں رہنے والوں میں سے کسی بھی شخص کو ملتے ہیں تو پھولے نہیں سماتے اور ان کے ساتھ تصویریں بنا کر اخبارات اور سوشل میڈیا پر تشہیر کرتے ہیں۔ عوام کی یہ کیسی دو رخی روش ہے کہ جن کو ہر وقت اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، چور، لٹیرے اور نجانے کیا کیا خطابات دیتے ہیں لیکن انہی کا استقبال کرنے ائیر پورٹ پہنچ جاتے ہیں، انہیں ہار ڈالتے ہیں،ان کے ساتھ تصویریں بناتے ہیں، سیلفیاں لیتے ہیں، استقبالیے دیتے ہیں اور فخر سے تشہیر کرتے ہیں۔

یہ کیسا رویہ ہے بقول میر تقی میر
میرکیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
عوام کو کچھ تو سوچنا چاہیے۔ کیا ان کا بس یہی کام ہے کہ ملک کو لوٹنے والوں کو برا بھلا کہتے رہیں اور جب وہ ملیں ان کے ساتھ تصویریں بنا کر بڑے فخر سے تشہیر کریں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تصویریں بنا کر اور تحائف دے کر آپ کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا اور نہ وہ لوگ سدھاریں گے۔

جن سرمایہ داروں نے ملک کا سرمایہ لوٹا اور قرضی معاف کروائے ،جن سرکاری افسروں نے کرپشن کی، جن علماء اور سیاستدانوں نے قوم کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کیا ہو انہیں دور سے سلام کریں۔ فرقہ واریت اور تعصبات پھیلانے والوں کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنوانا اور انہیں استقبالیے دینے کی بجائے ان سے لاتعلقی اختیار کرنی چاہیے۔ پاکستان کو بدحالی اور مسائل کا شکار کرنے والے ان عناصر کو نظر انداز کرنا چاہیے اور ان کی آؤ بھگت نہیں کرنی چاہیے تاکہ انہیں احسا س دلانا چاہیے کہ آپ لوگوں کے غلط کردار کی وجہ سے ہم تم سے بیزار ہیں ۔

اگر کہیں ان سے سامنا ہو بھی جائے تو تو تہذیب اور شائستگی کے ساتھ ان کا محاسبہ کریں اور ان سے سوالات کریں تاکہ انہیں علم ہو کہ عوام باشعور ہیں وہ لٹیروں کو سر پر بٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ البتہ باکردار اور مخلص رہنماوٴں، علماء حق ، اہل قلم، اورفرض شناس حکومتی اہل کاروں کی ضرور عزت افزائی کرنی چاہیے اور یہ ان کا حق بھی ہے۔ ملک لوٹنے والوں اور سنوارنے والوں میں کچھ تو فرق کریں۔ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ عوام کو کچھ تو سوچنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :