کیا یہ صرف جسٹس شوکت عزیز کے ذمہ داری ہے؟

جمعہ 24 مارچ 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

یہ کچھ دنوں کی بات نہیں بلکہ کئی سالوں سے اپنے ا ٓپ کو روشن خیال کہلانے والے ”سیاہ دل“ والے ،مختلف طریقوں سے نبی آخر الزمان ﷺ کی ناموس میں گستاخی کر کے اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل اور لعنتی ذریعے سے اپنے بنک اکاؤنٹس بھرنے کی دوڑ میں اس قدربد حواس ہو چکے ہیں کہ پہلے تو خباثت میں لتھڑے ابلیسی فرزند ، چھپ چھپا کر اپنے اس مکروہ اور گھناؤنے عمل کو کرتے تھے لیکن حکمرانوں سمیت ارباب اختیار کی طویل خاموشی کے باعث اب یہ لوگ متحرک ہو کر سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر مختلف اکاؤنٹس کے ذریعے نبی محترم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے نظر آتے ہیں ۔

مجھ سمیت کئی لوگوں نے بے شمار دفعہ ایسے بد کردار لوگوں اور ان کے اکاؤنٹس کی رپورٹ کی اور پیمرا تک اپنی آواز پہنچائی ، لیکن جن کے دل عشق محمد ﷺ سے خالی ہو چکے ہوں بھلا ان پر ایسی شکا یتیں کیا اثر رکھتی ہیں؟
قارئین کرام !مجھے بہت افسوس کہ ساتھ یہ لکھنا پر رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر روز بروز، زور پکڑتے ایسے اکاؤنٹس کی تشہیر، اس بات کا عکاس ہے کہ مملکت خداد پاکستان میں ، جہاں حکمرانوں سے لیکر مزدور تک ہر شخص اپنے آپ کو مومن مانتا ہے ، میں نبی محترم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ مواد پر کوئی حکمران، کوئی ادارہ، کوئی عالم دین، کوئی مولوی، کوئی تھانیدار ، کوئی سر مایہ دار ،کوئی سیاستدان، کوئی وکیل ، کوئی مزدور آواز بلند کر تا دکھائی نہیں دیا ۔

(جاری ہے)

لیکن جب کسی سیاستدان، حکمران، ادارے اور عالم کے حوالے سے سچی بات بھی منظر عام پر آجائے تو ہر شخص ممکنہ حد تک اس بات کو منظر عام پر لے کر آنے والے شخص کو اس کے انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ۔ جبکہ نبی محترم ﷺ کے فر مان کے مطابق :”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتاجب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ،اس کے بیٹے اور دوسرے تما م لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

“ اب میں اور آپ اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں کہ اس سب کے باوجود بھی ہم مو من کے لفظ پر پورا اترتے ہیں۔؟
بھلا ہو مرد مومن ، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا جنہوں نے اس حساس نوعیت کے معاملے پر سختی سے ایکشن لیا اور بے حسی کی لمبی چار تان کر سوئے ہوئے ایف۔آئی۔اے، وزارت داخلہ، خفیہ ایجنسیوں اور پیمرا کے ذمہ داروں کو عدالت میں بلا کر ان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ، صرف یہی نہیں بلکہ جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس بھی دئیے کہ اگر اس معاملے میں وزیر اعظم کو بھی عدالت بلانا پڑا تو بلائیں گے۔

عدالت کے اس ایکشن سے کم از کم اتنا ضرور ہوا ہے کہ وقتی طور پر تو نہ کسی حد تک یہ ادارے اپنے کام میں لگ گئے ہیں جسکے نتیجے میں بھینسے اور سور اپنی اوقات میں آگئے ہیں۔ اس معاملے پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کا رویہ بھی قابل تحسین تھا جنہوں نے واضح لفظوں میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ حکومت انٹرنیٹ بالخصوص سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موجود ”گستاخانہ مواد”کو موثر طریقے سے بلاک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ ہم اس معاملے پر ہر حد تک جائیں گے اور اگر سوشل میڈیا نے تعاون کرنے سے انکار کیا تو اس طرح کی تمام سوشل ویب سائٹس کو مکمل طور پر بلاک کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے گستاخانہ مواد کو پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی جن سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کا معاملہ نہیں بلکہ امت کا مسئلہ ہے جو اس طرح کے مواد سے دکھی ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا آپریٹرز کی جانب سے گستاخانہ مواد کو بلاک کرنے کے حوالے سے اقدامات نہ کرنے پر پوری دنیا کے مسلمانوں کو سنگین خدشات ہیں۔
قارئین کرام !تاریخ کے اوراق کنگھالے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی محترم ﷺ نے ہمارے لئے کیا کیا جبر برداشت نہیں کئے ، کبھی طائف کے میدان میں لہو لہان کئے جا رہے ہیں ،کبھی جانوروں کی گندگی اوپر ڈالی جاتی ہے ، کئی کئی روز کے فاقے ، ظلم و تشدد، سوشل بائیکاٹ اور پھر سب سے بڑھ کر شعب ابی طالب میں گذرے وہ ایام، جب سب سے عزیز بیوی جناب سیدہ خدیجہ کا نتقال ہو جا تا ہے ۔

ایسے کریم نبی ﷺ کی شان اقدس میں کوئی بھی منہ اٹھا کر گستا خی کا مرتکب ہو جا تا ہے اور ہم بے حسی اور بے ضمیری کے نشے میں مست ہو کر اپنی زندگیوں میں مگن ہیں اور پھر اس بات کے متقاضی بھی کہ روز محشر نبی محترم ﷺ ہماری شفاعت فر مائیں گے۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ہم کس منہ سے کریم نبی ﷺ کی بارگاہ میں پیش ہو نگیں ؟۔ ہم نے سوچا کہ کیاگستاخانہ مواد کے خاتمے کے لئے تما م تر ذمہ داری جسٹس شوکت عزیزپر عائد ہوتی ہے یا ہم بطورسیاستدان ، حکمران یا ایف۔

آئی۔اے ، آئی۔ایس۔آئی،آئی۔بی،ملٹری اینٹیلی جنس، پیمرااہلکار و افسران کے طور پر اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا ء کرتے ہوئے ایسے ناسوروں کے خلاف کیا ایکشن کر سکتے ہیں؟ ۔ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں جس کی مثال آئے روز سوشل میڈیا کے ذریعے حکمرانوں اور فوج کے خلاف بات کرنے والے لوگوں کی فوری گرفتاری ہے ۔ پھر آپ یہ بھی سوچیں کہ کیا ہمارے دلوں میں اس کریم نبی ﷺ کی محبت حکمرانوں اور اداروں سے بھی کم ہے؟اگر جواب میں ہاں میں ہے تو پھر مومن کی شرائط پر غور کریں اگر ناں میں ہے تو پھر آج سے ہی سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد نشر کرنے والوں کے خلاف کمر کس لیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :