پنجاب میں کومبنگ آپریشن اور پشتون برادری

بدھ 22 مارچ 2017

Syed Badar Saeed

سید بدر سعید

1947 میں ہم اکٹھے ہونے کے لئے تقسیم کے عمل سے گزرے تھے مگراس کے بعد جبری تقسیم کئے گئے ہیں ۔ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل اس ملک میں تاحال جاری ہے ۔اقتدار کی منزلیں طے کرنے کے خواہش مندوں نے شاید عزم کر رکھا ہے کہ وہ یہ راستہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی پر پاؤں رکھ کر ہی طے کریں گے ۔ المیہ یہ ہے کہ جن مسائل کا حل مل بیٹھ کر تلاش کیا جا سکتا ہے اسے بھی فرقہ واریت ، لسانیت ، صوبائیت اور جانے کن کن ہتھکنڈوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ۔

انتظامی مسائل حل کرنے کے لئے کسی صوبے کی تقسیم یا نئی بستی بسانا گناہ نہیں لیکن ہم نے اس پر بحث کو بھی جرم بنا دیا ہے ۔ جذباتیت کا چورن بیچنے والے یہاں ہماری ہی لاشیں کار ثواب سمجھ کر گراتے ہیں اور ہمیں یہ خبر تک نہیں ہوتی کہ کہ ہم کن راہوں میں مارے گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

ہمیں تو یہ سوال کرنے کی بھی اجازت نہیں کہ جمہوریت کے نام پر ماریں کھانے کے بعد ہم نے جس میثاق جمہوریت کو تعویز کی مانند گلے میں پہنا تھا اس کے ثمرات کیا ہوئے ؟
سوال کئی ہیں لیکن جواب کوئی نہیں دیتا ؟ ہمیں تقسیم در تقسیم کرنے والوں نے مسائل حل کر دیئے ہوتے تو طبیعت یوں اچاٹ نہ ہوتی لیکن المیہ یہ ہے کہ مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔

ہم نے افغان جہاد کے نام پر اپنوں کو قربان کیا تھا اور اب ہم ہی دہشت گردی کی جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں ۔ گلی کوچوں سے اٹھائے جانے والے ادھ جلے لاشوں میں کئی گھروں کے واحد کفیل بھی تھے ۔ سیکڑوں عام خواتین کے سہاگ اسی جنگ میں اجڑے ہیں ۔ امن اور مذہب کی تلقین کرنے والے ہی بارودی دھماکوں کی نذر ہوئے ہیں ۔ہماری فورسز تو ہر اول دستہ ہیں لیکن شہزادے علی اصغر کی سنت ہمارے بچوں نے بھی ادا کی ہے ۔

حالات یہ ہیں کہ قربانیاں سب نے دی ہیں اور الزام بھی سبھی پر ہے ۔ یہاں ہم ہی مدعی ہیں اور ہم ہی مشتبہ ہیں ۔ یاد آتا ہے ، آپریش ضرب عضب کے آغاز میں خاکسار نے ایک رپورٹ میں اعداد و شمار پیش کئے تھے جو بعد میں وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس میں بھی گونجتے رہے ۔تب بھی ببانگ دہل کہا تھا کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کے پس منظر میں مذہبی تعلیم کار فرما نہیں ہے ۔

دہشت گردی کی مد میں گرفتار ہونے والوں میں محض دس فیصد کا تعلق دینی مدارس سے تھا ۔ یہ الگ بحث ہے کہ آخر کیوں ہمارے یہاں حقائق کی بجائے مفاداتی بیانئے کو ہوا دی جاتی ہے ۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ بیت اللہ ، حکیم اللہ اور دیگر کالعدم جنگجو حافظ قرآن تک نہ تھے تو مذہبی راہنما کیسے ہو گئے ؟اسامہ بن لادن سے ڈاکٹر ایمن الزہراوی تک القاعدہ قیادت کی اکثریت تو یورپ سے جدید تعلیم حاصل کر کے آئی تھی۔

کیا یہ وہی تہذیب نہ تھی جس کے بارے میں اقبال نے اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرنے کی پیشنگوئی کی تھی ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کافی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ اس جیتی ہوئی جنگ کو ہمارے اپنے شکست میں بدلنا چاہتے ہیں ۔ اس وقت پنجاب میں پولیس اور رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کا مشترکہ آپریشن چل رہا ہے۔

آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی میڈیا سے کی گئی گفتگو اور ہر ضلع سے آنے والی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب سے دہشت گردی کی جڑیں اکھاڑنے کے لئے بھرپور جنگ لڑی جا رہی ہے ۔ دوسری جانب سوشل میڈیا سے اخباری بیانات تک ایک اور محاذ کھل چکا ہے ۔نازی فوج نے شکست چھپانے کے لئے جس پراپگنڈے کی بنیاد رکھی وہ یہاں بھی عروج پر ہے ۔مکالمہ کی کمی اور تحقیق کے فقدان کی بدولت اکثر لوگ پراپگنڈے کا شکار ہو چکے ہیں ۔

سچ یہ ہے کہ جیسی پراپگنڈہ مہم چل رہی ہے اس نے چند روز قبل تک مجھے بھی متاثر کر رکھا تھا ۔ تب سے غم و غصہ کی کیفیت میں ایک صحافی کے طور پر اعداد وشمار اور حقائق کی تلاش میں تھا ۔اب البتہ تحقیقات کی بدولت اعتماد کی مضبوط سیڑھی پر کھڑے ہو کر پورے یقین سے بات کر سکتا ہوں ۔سچ یہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوتے دیکھ بعض طاقتیں اسے متنازعہ بنانے کے لئے متحرک ہو چکی ہیں ۔


پنجاب میں ہونے والے مشترکہ سرچ آپریشن سے پہلے کہا جا رہا تھا کہ پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے گڑھ ہیں جن کے خلاف آپریشن ضروری ہے ۔ اب کہا جا رہا ہے کہ آپریشن کی بنیاد پر پختون برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہاں پہلا سوال تو یہی ہے کہ آخر کیوں کوئی پشتون برادری کو نشانہ بنائے گا؟ کیا اس آپریشن سے قبل پنجاب میں پشتون ، بلوچی یا کسی اور برادری کے خلاف منظم حملے ہوئے ہیں؟ سیاسی بیانات سے لے کر سوشل میڈیا پر پھیلے مختلف خودساختہ پمفلٹس کی تصاویر اور ان کی تردید کی داستان طویل ہے ۔

آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی جانب سے یہ ہدایات بھی سامنے آئیں کہ پنجاب میں ہونے والے کومبنگ آپریشن میں کسی مخصوص کمیونٹی اور علاقہ کو ٹارگٹ نہ بنایا جائے اور اس آپریشن کا اطلاق کسی رنگ ، نسل ، فرقے اور تعصب کے بغیر حقائق کی بنیاد پر کیا جائے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ آپریشن میں لیڈی پولیس کو ساتھ رکھا جائے جبکہ مقامی افغان یا پشتو بولنے والوں سے گفتگو کے لئے پشتو بولنے والا کوئی فرد کو بھی بطور نمائندہ ہمراہ ہو۔

پنجاب میں کومبنگ آپریشن کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے حقائق یہ ہیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک ماہ میں پنجاب پولیس نے لگ بھگ 4150 سرچ اور کومبنگ آپریشن کئے۔ اس دوران 3 لاکھ 23 ہزار افراد کے کوائف چیک کئے گئے اور مختلف قوانین کی خلاف ورزی پر 468 افراد کو گرفتار کیا گیا ۔ ان گرفتار افراد میں صرف 23 پختون شامل ہیں ۔ اس سے پیچھے کا ریکارڈ دیکھیں تو ایک اور رپورٹ کے مطابق لگ بھگ تین ماہ کے دوران نامکمل کوائف پر 1 لاکھ 43 ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا اور انہیں حراست کے چند ہی گھنٹوں بعد کوائف کی تصدیق ہونے پر رہا کر دیا گیا ۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس دوران صرف 11 سو افراد کے خلاف کرائے داری ایکٹ اور بنا لائسنس اسلحہ رکھنے پر مقدمات درج ہوئے اور ان کا معاملہ عدالت کے سپرد کر دیا گیا ۔
ہم دہشت گردی کے جس ناسور کو ختم کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے لازم ہے کہ ایک بار سبھی شہری تلاشی کے عمل سے گزریں تاکہ ہماری اپنی صفوں میں چھپے دہشت گرد اور ان کے سہولت کار بے نقاب ہو جائیں ۔

مہذب ممالک میں پولیس کسی بھی لمحے شہری سے اس کی شناخت طلب کر سکتی ہے اور شہری اپنی شناخت ظاہر کرنے کے بعد معزز شہری ہی سمجھا جاتا ہے ۔ موجودہ حالات میں یہ لازم ہے کہ ہم گھر سے نکلتے وقت اپنا شناختی کارڈ ہمراہ رکھیں ۔ اس کومبنگ اور سرچ آپریشن کے دوران بھی یہی بات سامنے آئی کہ اکثر شہریوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا اور جب ان کی جانب سے کوائف کی تصدیق کرا دی گئی تو انہیں فوری طور پر رہا کر دیا گیا ۔ وطن عزیز میں اس آپریشن کو قوم پرستی کی جس دلدل میں دھکیل کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے اس کی بنیاد صرف 25 پختون ہیں ۔لہذا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ہم دل سے دہشت گردی کے مخالف ہیں یا پھر کرسی اور نام نہاد جذباتی ریٹنگ قیام امن سے زیادہ اہم ہے ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :