بھارت کے ریاستی انتخابات اور مسلمان

اتوار 19 مارچ 2017

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

بھارت کے حالیہ ریاستی انتخابات کے نتائج بھارتی مسلمانوں کے لئے انتہائی مایوس کن رہے۔بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش (یو پی) کی چار سو تین (۴۰۳) رکنی نو منتخب اسمبلی کے لئے صرف چوبیس (۲۴) مسلمان الیکشن جیت سکے۔ یہ بھارت کی آزادی کے بعد سے یوپی اسمبلی میں مسلمانوں کی سب سے کم تعداد ہے۔ پچھلی اسمبلی میں انہتر (۶۹) مسلمان منتخب ہوئے تھے۔

اس بار منتخب ہونے والے ان چوبیس میں سے پندرہ مسلمان ارکان سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ، سات ارکان بہوجن سماج پارٹی اور دو کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ دو ہزار چودہ میں ہونے والے مرکزی اسمبلی لوک سبھا کے انتخابات کے نتائج بھی مسلمانوں کے لئے مایوس کن رہے تھے، ان انتخابات میں یو پی سے کوئی مسلمان رکن کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔

(جاری ہے)

یوپی میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب انیس فیصد کے قریب ہے۔ یوپی کے چار سو تین حلقوں میں سے تہتر (۷۳) حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان ووٹروں کا تناسب تیس فیصد سے زائد ہے اور ستر ایسے حلقے ہیں جہاں مسلمان ووٹروں کی تعداد بیس اور تیس فیصد کے درمیان ہے۔ ان انتخابات میں مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی نے سب سے زیادہ یعنی نناوے (۹۹) مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جبکہ سماج وادی پارٹی نے چھپن (۵۶) مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیئے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مسلمانوں کو مکمل نظر انداز کیا اور ان سے اپنی روایتی نفرت کو جاری رکھتے ہوئے کِسی مسلمان کو الیکشن لڑنے کے لئے پارٹی ٹکٹ نہیں دِیا، نتیجتاً بے جے پی کے تیس سو بارہ ( ۳۱۲) منتخب ارکان میں سے کوئی مسلمان نہیں ہے۔ ان انتخابات میں ” مسلم ووٹ بینک “ کے نظریے کو شدید دھچکا پہنچا۔ بھارتی میڈیا میں مسلم ووٹ بینک کو ایک ہوا بناتے ہوئے یہ تاثر دِیا جاتا رہا ہے جیسے تمام مسلمان ایک اکائی کے طور پر ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں اور بلاک ووٹ کی صورت میں کِسی ایک پارٹی کی جیت کا باعث بنتے ہیں۔

حالانکہ یہ نظریہ ماضی کے انتخابات میں بھی غلط ثابت ہوتا رہا ہے۔ مفروضوں اور پروپیگنڈے پر مبنی اس نظریے کا نتیجہ یہ ہُوا کہ مسلمانوں کے ہوّے سے ڈر کر ہندو ووٹ یکجا ہوگیا اور بے جی کے حق میں گیا۔ سماج وادی پارٹی اور کانگریس۔بہوجن سماج پارٹی اتحاد نے کثیر تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے تھے ، لِہٰذا بے جی پی اِن جماعتوں کو مسلمانوں کی ہمدرد جماعتیں مشہور کرکے ہندو ووٹروں کو لبھانے میں کامیاب رہی۔

اِس بار پچاس (۵۰) ایسے حلقے تھے جہاں ایک سے زیادہ مسلم امیدوار ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹ سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی اور دیگر جماعتوں کے مسلم امیدواروں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے کامیابی بے جی پی یا دیگر غیر مسلم امیدواروں کے حصے میں آئی۔ مر کز میں بی جے پی کی مودی حکومت کے قیام کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف معاندانہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ، ان حالات میں بھارت کی سب سے بڑی ریاست میں مسلمانوں کا اس طرح سے غیر اہم ہوجانا تشویش ناک ہے۔

یہ نتائج مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور غیر یقینی صورتحال کو اور بڑھاوا دیں گے۔ یوپی کی نئی ریاستی حکومت کا طرز عمل دور رس اثرات مرتب کرے گا۔ دیگر ریاستوں کے انتخابی نتائج بھی مسلمانوں کے لئے قابل تحسین نہیں۔ اترا کھنڈ کی ستر (۷۰) رکنی اسمبلی میں صرف دو مسلمان ارکان منتخب ہوسکے۔ پنجاب کی ایک سو سترہ (۱۱۷) رکنی اسمبلی میں ہمیشہ کی طرح کامیابی صرف ایک مسلمان کے حصے میں آئی۔ منی پور کی ساٹھ رکنی اسمبلی کے لئے تین مسلمان منتخب ہوئے جبکہ گوا کی چالیس رکنی اسمبلی کے لئے کوئی مسلمان منتخب نہیں ہو سکا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :