تین طرح کے ڈاکٹر

اتوار 19 مارچ 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

آج کچھ ڈاکٹروں کا ذکر کرنے کو جی چاہ رہاہے ۔تین طرح کے داکٹروں سے آپ کومتعارف کروانا ہے۔ تینوں ہی اپنی صفات کے حساب سے منفرد ہیں۔ تینوں کے الگ الگ خواص ، الگ الگ خواہشیں اور الگ الگ مسائل ہیں۔ یہ تین طرح کے ڈاکٹر نہیں، زندگی کے تین رخ ہیں۔
ڈاکٹروں کی پہلی قسم کو ہم ینگ ڈاکٹر کہتے ہیں۔ یہ ہر موقعے پر ہڑتال انکا فرض اولین ہے۔

سیاسی رہنماوں کے اشارے پر، ذاتی مفاد کے لئے ، تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے کے لئے یہ کسی بھی وقت ہڑتال کر سکتے ہیں اینکروں کے ساتھ انکے خصوصی تعلقات ہیں۔میڈیا میں خبر لگوانے کا ہنر یہ جانتے ہیں۔ اہم شاہراہوں پر دھرنا دینا انکی صفات میں شامل ہیں۔ حکومتوں کو بلیک میل کرنا ان کو بہت اچھی طرح سے آتا ہے۔انکے دھڑے بہت مربوط ہیں۔

(جاری ہے)

ایک شہر میں ہڑتال کی خبر ملتی ہے تو باقی شہروں میں بھی یہ مریضوں کو مرتا چھوڑ کر نعرے لگاتے سڑکوں پر آجاتے ہیں۔

ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کہیں آگ لگے، کہیں سر پھوٹیں، کہیں گولی چلے یا پھر پولیس سے تصادم ہوتو پھر یہ گریبان پھاڑ کر سڑکوں پر نکلیں اور اپنی مسیحائی کے نام پر ہم سے انتقام لیں ۔ان کی اس جد و جہد میں مریض کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ مریض چاہے سسکتے رہیں، ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں بے شک تالے پڑ جائیں، او پی ڈی میں جالے لگ جائیں۔ بس انکے مطالبات مان لئے جائیں ۔

حکومتیں صحیح یا غلط کی بحث میں نہ پڑیں بس ان کو مان لیں۔ انکے قدموں میں سرنگوں رہیں، انکے خوف سے کانپتی رہیں۔ دوسری قسم کے ڈاکٹروں کو سمجھنے کے لئے قصہ ذرا تفصیل سے سننا پڑے گا۔اسلام آباد کے معروف ہسپتال پمز کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ اس میں ایک کارڈک سنٹر موجود ہے ۔ جہاں دل کے مریضوں کے آپریشن ہوتے ہیں اور یہ اپنے علاج کے معیار کے لئے پاکستان بھر میں جانا اور مانا جاتا ہے۔

سن دو ہزار پانچ میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس منصوبے کی تکمیل کے لیے تین سال کا وقت دیا گیا۔ شومئی قسمت یہ منصوبہ سن دو ہزار آٹھ میں مکمل نہیں ہو سکا اور اسکی تکمیل میں گیارہ سال لگ گئے۔ یہ تاخیر کسی دور افتادہ گاوں کا قصہ نہیں ہے پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد کا ذکر ہے۔سن دو ہزار آٹھ میں اس منصوبے کے لئے اکتیس لوگوں کے سٹاف کی منظوری دی گئی۔

جنہوں نے سہولیات نہ ہونے کے باوجود اپنا کام شروع کر دیا۔ ہر سال ان لوگوں کوایک سالہ معیاد کا کنٹریکٹ دیا جاتا اور اگلے سال انکے کانٹریکٹ میں ایک سال کی توسیع کر دی جاتی۔ جب ملازمت پکی ہونے کامرحلہ آیا تو انہی ڈاکٹروں کو اوور ایج کہہ کر ان کی تنخواہ روک دی گئی۔ یہاں یہ بتانا ازحد ضروری ہے کہ ان دس برسوں میں اس کارڈک یونٹ نے بیت المال اور زکوات فنڈزکے تعاون سے قریبا چار ہزار بائی پا س کے مستحق مریضوں کے آپریشن کیئے اور قریبا آٹھ ہزار لوگوں کی اینجیو پلاسٹی کی۔

گزشتہ اکیس ماہ سے ان فرشتہ صفت ڈاکٹروں کے کارناموں پر حکومت نے انکے تنخواہ روک کر اپنے فرائض کی زبردست ادائیگی کی ہے۔ یہ لوگ مستحق مریضوں کے آپریشن کرتے ہیں ، خدا کی رضا اور اپنے ہنر سے قریب المرگ مریضوں کو شفاء دیتے ہیں مگر ان مسیحاوں کے گھروں میں ماتم ہے۔ ان کی اپنی جیب خالی ہے۔ ان میں سے بیشتر قرض لے کر گزارہ کر رہے ہیں۔ کچھ نے بچوں کو سکولوں سے اٹھا لیا ہے۔

کچھ کے گھر وں میں فاقہ مستی کا عالم ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان بھر سے دل کے مستحق مریض علاج کے لئے اسی ادارے کا رخ کرتے ہیں اور یہی بے تنخواہ ڈاکٹر ان مریضوں کا علاج پوری تندہی سے کرتے ہیں۔ پمز ہسپتال کے کارڈک سینٹرکے یہ بد نصیب ڈاکٹر مریض کا دل تو ٹھیک کر دیتے ہیں مگر اپنا گریبان چاک کر کے اپنا دل دنیا کو نہیں دکھا سکتے۔اس مسئلے کے بارے میں جب حکام سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو جواب یہی ملا کہ فائل وزیر اعظم کے پاس ہے اور وزیر اعظم کا یہ حال ہے سڑکیں بنا سکتے ہیں،بجلی کے دور افتادہ منصوبوں کا افتتاح کر سکتے ہیں، میٹرو بس اور اورنج ٹرین پر نعرے تو لگوا سکتے ہیں مگر اپنے دارلخلافہ میں موجود ان ڈاکٹروں کی تنخواہ نہیں دے سکتے۔

کسی دن یہ ڈاکٹر جو گیارہ سال سے یہ نیک کام کر رہے ہیں وہ یہ کام چھوڑ دیں گئے۔ پمز ہسپتال کا یہ کارڈک یونٹ بند ہو جائے گا۔اس سے نہ ایوانوں کو کوئی گزند پہنچے گی نہ حکام کی زندگی میں کوئی فرق پڑے گا بس ہزاروں مستحق مریض علاج سے محروم ہو جائیں۔یہ ڈاکٹر مریضوں کو شفاء دینے میں اتنے غرق ہیں کہ نہ ان کے پاس ہڑتال کا وقت ہے، نہ انکے پاس دھرنے کے وسائل ہیں اور نہ ہی انکی تنخواہ کی ادائیگی سے حکومت کو کوئی غرض نہیں ہے۔


ڈاکٹروں کی تیسری قسم ڈاکٹر محمد انور خان قسم کے لوگ ہیں جو اس معاشرے سے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر انورپاکستان کے مایہ ناز ماہر چشم ہیں۔ہزاروں افراد کی آنکھوں کے سفید موتیا کے آپریشن مفت کر چکے ہیں۔ یہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ وطن کی محبت انکے دل میں دھڑکتی ہے۔انسانیت کا درد انکے سینے میں سمایا ہوا ہے۔قابلیت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے بڑے ہسپتالوں میں آنکھوں کے امراض کے ڈیپارٹمنٹ انہوں نے ہی شروع کیئے۔

انکی اہلیہ ڈاکٹر تنویرخان بھی الٹرا ساونڈ کی سپیشلسٹ ہیں اور فلاحی کام کرتی ہیں۔بیٹی راحت انور لندن میں گائناکالوجسٹ ہے، ایک بیٹا بابر انور خان عمان میں ماہر امراض چشم ہے اور ایک بیٹا اعظم انور ایم بی اے کر چکا ہے۔ڈاکٹر صاحب سابقہ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کے معالج بھی رہے، شہباز شریف بھی انکے مریض رہے، سابق صدر رفیق تاڑر بھی انکے زیر علاج رہے۔

نواز شریف بھی انکو اپنی آنکھیں دکھا چکے ہیں۔اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر میں انہوں نے لاتعداد فری آئی کیمپ لگائے اور ہزاروں لوگوں کے مفت آپریشن کئے۔ انیس سو اٹھانوے میں انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر انور ریٹائر ہونے کے بعد فارغ نہیں رہے۔انہوں نے روالپنڈی آئی ڈونر آرگنائزیشن ریڈو کو جوائن کر لیا۔ریڈو ایک ایسا ادارہ ہے جس نے آنکھوں کے امراض پر بہت قابل قدر کام کیا ہے۔

اب اس کے کمیٹی چوک کے ہسپتال میں فری ڈائلسز سینٹر کا بھی آغاز ہو گیا ہے جس سے سینکڑوں مریض روزانہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔یہاں ڈاکٹر انور نے سفید موتئے کے فری آپریشن شروع کر دیئے۔اب ہر ماہ اپنے خرچ پر کراچی سے اسلام آباد آتے ہیں چھوٹے سے ہوٹل میں رہتے ہیں اور مریضوں کی بینائی لوٹاتے ہیں۔جب ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم تھے تو ڈاکٹر صاحب نے حکومت پاکستان کی موجودہ سہولیات کی مدد سے ملک سے سفید موتئے کے اختتام کی ٹھانی۔

ایک مربوط منصوبہ جمالی صاحب کو پیش کیا گیاجس میں حکومت کا ایک پیسہ خرچ کیئے بغیر اس مرض کے تمام مریضوں کا علاج ممکن تھا۔اس منصوبے پر کسی نے کان نہ دھرا ۔ لیکن حیرت کی بات ہے کچھ عرصے کے بعد مشرف دور کے وزیر صحت نے اپنی طرف سے اسی منصوبے کا علان کیا اور اس کے لئے ڈھائی ارب روپے کی رقم مختص کر دی گئی۔ وہ رقم غائب اور وہ منصوبہ فلاب ہو گیا۔


ڈاکٹر انور آج بھی پر عزم ہیں کہ اس ملک میں سفید موتئے کی وجہ سے ہونے والی نابینائی کا تدارک ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹرانور کا فرمانا ہے کہ حکومت کا ایک روپیہ بھی نہیں لگے گا بس انہیں سہولیات کو زیادہ منظم طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔لیکن مجھے خدشہ ہے کہ یہ منصوبہ ایک بار پھر پہلے کی طر ح فائلوں کی نظر ہوگا پھر کسی طالع آزما وزیر یا بیوروکریٹ کی نظر اس پر پڑے گی اور وہ لوگوں کی بینائی سے کھیلتا سے ہوا اپنی دولت کی ہوس کی تسکین کرے گا۔یہ ڈاکٹروں کی تیسری قسم ہے۔ جو نیکی ، انسانیت اور مسیحائی کے ہر میزان پر پورا اترتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :