کیامردم وخانہ شماری امن اور ترقی کی ضامن ہے؟؟

جمعرات 16 مارچ 2017

Sanaullah Nagra

ثناء اللہ ناگرہ

14اگست 1947ء کوپاکستان آزادہواتوملک میں ہر10سال بعدمردم شماری کروانے کامتفقہ فیصلہ کیاگیا،جس کے تحت پہلی مردم شماری 1951ء میں کی گئی۔جبکہ اسی عمل کی ہر10سال بعد پیروی کرتے ہوئے1961،1972،1981میں مردم شماری کروائی گئی۔جبکہ ملک میں سیاسی کشیدہ حالات کے باعث7سال کی تاخیر سے1991ء کی بجائے 1998ء میں مردم شماری کروائی گئی۔اسی طرح ایک سال تاخیر سے1971کی بجائے 1972ء میں مردم شماری ہوئی ۔اس بارایک سال تاخیرکی وجہ مشرقی پاکستان کاتنازع بنا۔اس سے پتاچلتاہے کہ پاکستان میں گزشتہ 68سالوں میں پانچ بارمردم اورخانہ شماری ہوچکی ہے۔تاہم اب 2017ء میں چھٹی بارمردم شماری 18سال بعد کروائی جارہی ہے۔جس سے صاف ظاہرہے کہ ہماری حکومتوں نے اپنی غفلت سے کم ازکم 2بارمردم شماری نہیں کروائی۔اس عرصہ کے دوران 9سال جنرل(ر)پرویزمشرف کی حکومت رہی جبکہ 5سال پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔

(جاری ہے)

لیکن جمہوریت کی دعویدارپیپلزپارٹی کی حکومت نے مردم شماری کرواکراپنے ملک کے عوام کی نمبرنگ کرنابھی گوارہ نہ کی۔تاہم آج ہمیں اللہ کاشکراداکرناچاہیے کہ وزیراعظم نوازشریف کی موجودہ حکومت کوداددینی چاہیے کہ انہوں نے مردم شماری کروانے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں کی اور مردم شماری کروانے کااعلان کردیا(بے شک مردم شماری کروانے کاسپریم کورٹ نے ہی حکم دیاہے)،حکومت نے مردم شماری کیلئے 18.5بلین کی رقم مختص کی ،جس میں تمام اخراجات شامل ہیں۔مردم شماری کیلئے سکیورٹی کی ذمہ داری پاک اداکررہی ہے،تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مادروطن پرمشکل وقت آیا(زلزلہ،سیلاب یاقدرتی آفات ہوں یادہشتگردی کے واقعات ہوں)ہمیشہ پاک فوج نے پاکستانی قوم کاساتھ دیا،ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پاک فوج نے مردم شماری کی شفافیت اور سکیورٹی کی بھاری ذمہ داری سرانجام دینے کاعزم دہرایا،مردم شماری کیلئے 2لاکھ فوجی جوان تعینات کیے گئے ہیں جوکہ عملے کے ساتھ گھرگھرجاکرمردم شماری کیلئے فرائض سرانجام دینگے۔ماضی کی نسبت اب ملک کی آبادی میں کافی اضافہ ہوگیاہے،جس کے باعث ملک میں دومرحلوں میں مردم شماری کاانعقادکیاجارہاہے۔پہلامرحلہ 15مارچ تا15اپریل جبکہ دوسرامرحلہ 25اپریل تا25مئی تک جاری رہے گا۔مردم شماری مکمل ہونے کیساتھ ہی پاکستان کی کل آبادی،مرداور خواتین کی آبادی کاتناسب،تعلیم یافتہ افرادکاتناسب،بے روزگاری اور بے گھرافرادکی شرح،کچے پکے مکانوں ،مساجد،مدرسے،سرکاری اور نجی عمارتوں کی تعدادکااعلان کردیاجائیگا۔اس بارمردم اور خانہ شماری کیلئے فارمزمیں معذورافراداور خواجہ سراؤں کی گنتی بھی کی جائیگی جوکہ موجودہ حکومت کا ایک احسن اقدام ہے۔قارئین !جب ملک میں بسنے والے لوگوں اور ان سے منسلک تمام چیزوں کاریکارڈدستیاب ہوگا،جب گھرگھرجاکرلوگوں کاڈیٹااکٹھاکیاجائیگا،ملک کے باسیوں کے گھروں کی تعدادکاحقیقت میں اندازہ ہوسکے گا،ان کے رہن سہن اور جائیداداورزمین کی حقیقت سامنے آئیگی۔تومیرانہیں خیال کہ پھرکسی تخریب کار،دہشتگرد،یاسہولتکارکوہماری آبادیوں میں رہنے کی کوئی گنجائش مل سکے گی؟ یقین جانیئے اس عمل سے جہاں ہمیں اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کوکنٹرول کرنے میں مددملے گی وہاں پاکستان میں امن ،استحکام اور ترقی کومزیدفروغ ملے گا۔یہاں یہ واضح کرنابھی ضروری ہے کہ ملک میں پہلی پانچ مردم شماری کے اعدادوشمارکے مطابق 1951ء کی مردم شماری میں(مشرقی اورمغربی )پاکستان کی آبادی 7.5کروڑ،1961ء میں 9.3کروڑ،1972ء میں مشرقی پاکستان ہم کھوچکے تھے،جبکہ مغربی پاکستان یاموجودہ پاکستان کی آبادی 7.2کروڑ،1981ء میں 8.4کروڑ جبکہ مردم شماری 1998ء کے مطابق پاکستان کی آبادی تیزی کیساتھ 14کروڑکے لگ بھگ پہنچ چکی تھی۔ماضی میں پاکستان میں امن اورترقی کودیکھاجائے تویوم آزادی سے لیکر1998ء تک پاکستان مختلف قسم کے جنگی(بھارت کیساتھ جنگ)،سیاسی ،معاشی،لسانی اورمذہبی نشیب وفرازمیں سے گزرا۔عالمی سطح پربھی جنگیں ہوئیں،ملکوں کی سرحدیں بھی تبدیل ہوئیں،ہم نے مشرقی پاکستان کوکھودیا۔لیکن ان تمام ترکٹھن حالات کے باوجودپاکستان میں دہشتگردی اور انتہاپسندی کی گنجائش نہیں تھی۔آج ہمیں مردم شماری کی اہمیت کومدنظررکھتے ہوئے دیکھناہوگا کہ ہم سے غلطی کہاں ہوئی؟یقینا ہم سے ملک کے لوگوں کی گنتی کرنے میں غلطی ہوئی۔اگرہم مردم شماری والا سلسلہ جاری رکھتے توہماری صفوں میں دشمنوں کوچھپنے کی جگہ نہ ملتی۔ایک چھوٹی سی مثال ہے اگرکسی ملک ،قبیلے یاخاندان کے سربراہ کواپنے لوگوں کی پہچان ہی نہ ہوگی،ان کی تعدادہی معلوم نہیں ہوگی،ان کی مشکلات کاہی اندازہ نہیں ہوگا،ان کی صلاحیتوں سے ہی وہ آگاہ نہیں ہوگاتوبتائیے کہ کیاوہ ملک،قبیلہ یاخاندان ترقی کرسکے گا؟؟یقینا نہیں!بلکہ ایسی قوموں کاجینابھی مشکل ہوجاتاہے جن کواپنے دائیں بائیں گھروں میں رہنے والے لوگوں کے بارے کوئی علم نہیں ہوتا۔مثلا ان کے علاقے میں جس کاجی چاہے آکربسیراکرلے،جاسوسی کرتاپھرے اور تباہی بربادی کرکے چلاجائے۔تاہم اب وقت کاتقاضا ہے کہ ہمیں مجموعی طورپرایک قوم کاثبوت دیتے ہوئے مردم شماری کرنے والی ٹیموں کوانتہائی ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ اپنے گھر،خاندان کے اعدادوشمارفراہم کرناچاہئے،اگرکسی جگہ پرکوئی کوتاہی نظرآرہی ہوتواس کوبھی اجاگرکرناچاہیے۔اسی طرح مردم شماری کے انعقاد پروفاقی وصوبائی حکومتیں،سپریم کورٹ، پاک فوج اور تمام متعلقہ اداروں کاکردارقابل تحسین ہے۔حکومت کوچاہیے کہ ہردس سال بعدمردم شماری کروانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرزمیں اتفاق رائے پیداکرے،اقتدارمیں جوبھی ہومردم شماری لازمی کروائی جائے،کیونکہ مردم شماری امن اور ترقی کی ضامن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :