چراغِ آخرِ شب

جمعرات 16 مارچ 2017

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

دوسر ی عالمی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ حریف اور حلیف افواج ایک دوسرے پر بمبوں کی بارش برس کر لوگوں کو کشت وخون میں نہلا رہے تھے۔ جنگ سے تباہ اور اُدھڑی قوم اپنے مستقبل بارے مایوس اور پریشان تھی۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ زندہ بچیں گے بھی کہ نہیں تو کسی نے وزیراعظم سے سوال کیا۔ مسٹرپرائم منسٹر ! کیا ہم یہ جنگ جیت جائیں گے؟ وازیراعظم نے سوال کرنے والے کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا ہماری عدالتیں آزاد اور صحیح کام کر رہی ہیں؟جواب ملا جناب وزیراعظم ہماری عدالتیں بالکل آزاد، خودمختار ہیں اور و درست کام کر رہی ہیں۔

اس پر وزیراعظم نے و ہ تاریخی الفاظ کہے جو آج تک تاریخ کا حصہ ہیں کہ اگر ہماری عدالتیں آزاد اور مختار ہیں اور اپنا کام صحیح کر رہی ہیں تو پھر ہماری فتح یقینی ہے اور ہم یہ جنگ جیت جائیں گے!!!
یہ واقعہ میں نے کسی جگہ پڑھا اور یہ میری یادداشت میں نقش ہو گیا مگر ایک سوال اکثر مجھے بے چین کر دیتا تھا کہ جنگیں تو آلاتِ حرب، ٹیکناوجی، منصوبہ بندی اورفوج کے جزبے اور مورال سے جیتی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

جنگ میں فتح و شکست اور عدلیہ کی آزادی کا آپس میں کیا جوڑ ہو سکتاہے ؟ یہ سوال سوال ہی رہتا اگر اسرائیل کی عدالت مارچ 2015 میں ایک تاریخی فیصلہ نہ کرتی۔ اسرائیل کی عدات میں ایک کیس دائر ہوا کہ ایک شخص نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر قانونی طریقے سے اثاثے بنائے ہیں ۔ عدالت نے ملزم کو طلب کیا اس سے رقم کا ذریعہ پوچھا ملزم نے صحتِ جرم سے انکار کیا۔

مگر اس کا سابق سیکرٹری اس کے خلاف عدالت میں پیش ہوا اور اس کی گفتگو کی ٹیپ اور ثبوت عدالت کو پیش کیے اور عدالت نے جرم ثابت ہونے پر مجرم پر فردِ جرم عائد کر دی۔ دیکھنے کو یہ عدالت کی ایک معمول کی کارروائی نظر آتی ہے کہ یہ عدالت کا کام ہے مجرموں کو سزا دینا مگر یہ ایک غیر معمولی کارروائی تھی کیونکہ ملزم کوئی عام شہری نہیں تھا بلکہ اسرائیل کا اس وقت کا وزیراعظم ایہود المرٹ تھا۔

جس کو عدالت نے اس کی وزارتِ عظمیٰ کے وسط مدت میں ہی فارغ کر دیا اور اس کو جیل کی سزا ہوئی۔ 2012 میں ایہود المرٹ پر کیس کا آغاز ہوا اس پر الزام تھا کہ اس نے امریکی بزنس مین مورس تالانسکی سے کیش سے بھرے دو لفافے وصول کئے تھے جب وہ یروشلم کا میئر اور کابینہ میں وزیر کام رہا تھا۔ حیرت کی بات ہمارے لیے یہ ہو سکتی ہے ک ان لفافوں میں کھربوں، اربوں یا کروڑوں نہیں صرف اور صرف6 لاکھ امریکی ڈالرز تھے جو پاکستان کے 6کروڑ روپے بنتے ہیں ۔

مگر عدالت نے ایہود المرٹ کو رقم کے عوض ایک امریکی کو اپنی وفاداری بیچنے ، رقم کو ذاتی استعمال اور عوام اور ریاست کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی پاداش میں چھ سال قید اور جرمانے کی سزا سنا دی ۔ عدالت نے سزا سناتے ہوئے ایہودالمرٹ کی اسرائیل اور یہودیوں کے لیے دی گئی قربانیوں اور خدمات کو یکسر فراموش کر دیا جب اس نے اسرائیلی فو ج کے ایک لڑاکا بریگیڈ میں کام کیا اور زخمی ہوا اور کئی ماہ زیر علاج رہا۔

عدالت نے اسکی یروشلم کے مئیر شپ کی خدمات کو بھی نظر انداز کر دیا۔ عدالت کے نزدیک اسرائیل کے لیے لڑنا ایک اعزاز تھا مگر اس نے ایک غیر ملکی جو کہ کٹر یہودی تھا اس سے رشوت لے کر اسرائیل اور اسرائیلی قوم سے خیانت اور بردیانتی کی اور اس کا یہ گناہ اس کی پچھلی ساری عمر کی خدمات کو گھن کی طرح کھا گیا اور پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح اسرائیل کے ایک سابق وزیراعظم کو عدالت نے کس بے رحمی اور بغیر کسی رعائت کیا س کے منصب کی پرواہ کئے بغیر نشان عبرت بنا دیا تاکہ کل کوئی بھی شخص چاہے وہ کتنا ہی طاق ورکیوں نہ ہو ۔

اگر وہ بددیانت اور خائن ہو گا تو اس کا انجام بھی ایہود المرٹ سے مختلف نہیں ہو گا۔
یہ ہے وہ عدل اور انصاف کا معیار جو ملکوں کو ناکام اور ”ینانا سٹیٹس “ جیسی ذلت آمیز پستیوں سے نکال کر دیانت دار اور باوقار قوموں کی پہلی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ عدالتیں محض جنگیں ہی نہیں زندگی کے ہر شعبے میں ترقی اور تنزلی کا معیار طے کرتی یں۔

عدالتیں معاشرے کی نیاض ہوتی ہیں جو حق اور باطل ظلم اور چیر کے مابین حدِ فاصل طے کرتی ہیں۔ اسرائیل دنیا کا سب سے بدمعاش اور امریکہ کا خاص حلیف ہے جو فلسطین پر قابض اور غاصب ہے مگر اس کے اندرونی عدل وانصاف کا یہ عالم ہے ۔ جس کرپشن کی رقم پر اسرائیل نے اپنا وزیراعظم فارغ کر دیا شائد اتنی کرپشن ہمارے ملک ایک عام ”پٹواری“ ہر مہینے کرتا ہے ۔

عدالتیں محض کسزیکٹ کی عمارت، چند کرسیوں، چند اہلکاروں اور قانون کی پرانی کتابوں کا نام نہیں ہے یہ وہ ادارے ہیں جن کے وجود اور فیصلوں سے کروڑوں موجودہ اور آنے والے انسانوں کے حقوق وابستہ ہوتے ہیں۔ اور عدالتوں کا سب سے اہم رکن اور کردار اس جج اور منصف کا ہے جس کی قلم سے جاری ہونے والے فیصلے لوگوں کے مقدر، ان کے حقوق اور ان کے مقدر کا تعین کرتے ہیں۔

اگر جج کا ترازو صحیح ناپ تول کرے گا اور اس کا قلم درست چلے گا تو وہ ملک ،معاشرہ ، ادارے اور اس کے لوگ قانون اور اس کی پاسداری اور دیانت داری کے راستے پر چلیں گے اور اگر اسی جج کا ترازو ناپ تول میں ٹھوکر کھا گیا اور اس کا قلم ڈگمگا گیا اور وہ مصلحتوں کی غلام گردشوں میں پھنس گیا تو پھر اس ملک کی تباہی اور شکست یقینی ہے ۔اور اس ملک کو زوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا زوال اس کا مقدر ہے۔


یہ ملک لا الہ الا اللہ کے نام پرلیا گیا تھا جس میں اسلام ہمارے فیصلوں کا مرکز ومنبع تھا۔ کس قدر خوبصورت ہے و ہ دین جس کے بنانے والے کی ایک صفت ” العدل “ ہو اور بنانے والا قرآن میں کہے کہ ”ان اللہ یا مریالعدل والاحسان “ کہ اللہ تمہیں عدل کرنے اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ عدل اور انصاف تو ہمارا شیوہ ہونا چاہیے تھا۔ مقابل میں چاہے کوئی کیوں نہ ہو۔

ہم تو اس عظیم الشان اور قابل رشک تاریخ کے امین اور وارث ہیں کہ جس میں ایک مسلمان اور یہودی کا فیصلہ دربارِ رسالت میں پیش کیا جاتا ہے ۔ یہودی حق پر ہوتا ہے تو فیصلہ اس کے حق میں کر دیا جاتا ہے اور مسلمان سے کوئی اور رعائت نہیں برتی جاتی۔ ہم تو اس عدل اور انصاف کے امین ہیں کہ امیرالمومین سے سوال کیا جاتا ہے امیرالمومنین مال غنیمت میں سے سب کو ایک ایک چادر ملی آپ کے پاس دو چادریں کیسے ؟ ہماری تاریخ تو اس عدل اور انصاف سے روشن ہے کہ امیر المومنین کے پاس عید پر بچوں کو کپڑے کے دینے کے پیسے نہیں۔

بیوی کے اصرار پر بیت المال کے مستول سے کہا کہ عید قریب ہے بچوں کے کپڑے لینے کے پیسے نہیں اگلے مہینے کی تنخواہ ایڈوانس م جائے تو کپڑے لے سکتا ہوں۔ خزانچی نے کہا حضور آپ اگلے مہینے زندہ رہنے اور امورِ سلطنت سرانجام دینے کی گارنٹی مجھے لکھ کر دے دیں میں ایڈوانس تنخواہ آپ کو دے دیتا ہوں۔ یہ سن کر امیر المومنین خاموش ہو گے اور واپس چلے گے۔

بچے اپنے پرانے کپڑوں میں عید پڑھنے گے مگر ایک دمڑی بیت المال سے خیانت نہیں کی۔ یہ و ہ عدل انصاف اور قانون کی بالا دستی ہی تھی جس کے ثمرات میں سے ایک ثمر دلیری اور قابلیت تھی ۔ جس نے معاشی طور پر مفلوک الحال عربوں کو 22لاکھ مربع میل کی سلطنت کا حکمران بنا دیا اور وہ اس کسمپرسی کے باوجود اس دور کی دوسپر پاورز قیصر و کسریٰ کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔


آج ہمارے دیس کو اُنہی عالیشان روایات اور اُنہی روشن اصولوں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ ملک اندرونی اور بیرونی حلفشار کا شکار ہے ۔خارجہ پالیسی سے سیاسی تنہائی اور اندرونی دہشت گردی اور اداروں ے تنزل کے سب عوامل کا حل وہی طرز حکمرانی ہے جو ہمارے عظیم اسلاف نے کر کے دکھائی ۔ ملک میں جاری آپریشن ردالفساد کی کامیابی ہماری بقا ہے۔ اب ہمارے ملک میں عدلیہ پر بھاری ذمہ داری ہے اور عدلیہ ہی اب وہ معتبر ادارہ ہے جو روائتی بوسیدہ اوربدبودار بددیانت سسٹم کے خلاف اور عدل وانصاف پر مبنی منصفانہ سسٹم قائم کرنے کی کوشش میں نظر آتا ہے ۔

عدلیہ ہماری ریاست کا وہ سب سے اہم ستون ہے جو عدم اور مظلوم طبقے کی داد رسی کا سب سے اہم مرکز اور امید کی کرن ہے۔ پچھلے دنوں اسی ادارے سے خوشگوار ہوا کا جھونکا اس قوم نے محسوس کیا چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے گستاخانہ سوشل میڈیا پیجز کے خلاف تاریخی ریمارکس دیے۔بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان اس وقت تک کا حل و اکمل نہیں ہوسکتا جب تک ہم حضور ﷺ سے اپنے ماں باپ بیوی بچوں اور عزیز و اقریا سے بڑھ ر محبت نہ کریں۔

آپ کی ہستی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔ جن کے دم قدم سے تبض ہستی تپش آمادہ اور خیم و افلا کے الیستادہ ہے ۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور ان جیسے عدل پسند اور حبِ رسول ﷺ سے لبریز ججز ہماری عدلیہ اور ہمارے معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے وجود سے ملک میں انصاف عدل اور عدالتی نظام پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ پانامہ کیس کا فیصلہ بھی چند دنوں میں آنے کی امید ہے اور یہ امید اور دعا ہے کہ وہ فیصلہ عدل وانصاف کے تمام سابقہ فیصلوں کی نسبت مثای ہو گا اور لوگ انصاف کے ایوانوں میں پانامہ فیصلے کو عدل و انصاف کے فیصلوں میں تاریخی فیصلے کے طور پر یاد رکھیں گے۔

اور وہ ججز بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرح عوام کے دلوں میں زندہ اور سرخرو ہوں گے جو پانامہ فیصلے سے قوم کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ ظہیرکاشمیری کا یہ شعر عدل وانصاف کی جدوجہد کرنے والے اور صیح نوکی امید رکھنے والوں پر صادق ہوتا ہے ۔
ہمیں خیر ہے کہ ہم چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :