ہمیں اورنگزیب بنناپڑے گا

اتوار 26 فروری 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

1605میں جلا ل الدین اکبر کی وفات ہوئی تو شہزادہ سلیم جہانگیر کا لقب پا کر ہندوستان کا حکمران بنا ۔جہانگیر1627میں کشمیر سے واپس آ رہا تھا کہ راستے میں اس کا انتقا ل ہو گیا ۔جہانگیر کے بعد شاہجہان ہندوستان کا حکمران بنا ، شاہجہان کا دور مغلیہ سلطنت کے عروج کا دور تھا ،اس دور میں مغلیہ سلطنت غزنی سے چٹاگانگ تک پھیلی ہو ئی تھی ۔شاہجہان کی زندگی عیش و عشرت سے بھرپور تھی ،اس نے آگرے میں تاج محل بنا کر اپنے باپ جہانگیر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

شاہجہان نے جوانی کے ایام میں بڑی خوفناک جنگیں لڑیں لیکن زندگی کے آخری ایام میں وہ بڑھاپے سے شکست کھا گیا۔شاہجہان کے چار بیٹے تھے ،دارا شکوہ ،شجاع،اورنگ زیب اور مراد ۔شاہجہان کی ہمدردی دارا کے لیے تھی اور وہ اسے اپنا نائب بنانا چاہتا تھا جبکہ اورنگزیب دارا کی نسبت ذیادہ قابل، نیک،زیرک اور امور سلطنت کو جاننے والا تھا ۔

(جاری ہے)

شاہجہان بیمار ہوا تو دارا کے سوا دوسرے تینوں بیٹے دور درواز علاقوں میں اپنی مہمات میں مصروف تھے ، دار انے تینوں بھائیوں کو باپ کی بیماری سے بے خبر رکھا اور خود باپ کے پاس آ کر رسم تاجپوشی کی تیاریاں کرنے لگا ،اسے ڈر تھا اگر بیماری کی خبر بھائیوں تک پہنچ گئی تو وہ فورا چلے آئیں گے اور میری تاجپوشی کی رسم ادھوری رہ جائے گی ۔

شاہجہان کچھ دن تک منظر عام پر نہ آیا تو رعایا میں کھلبلی مچ گئی ،عوام کی اکثریت نے بادشاہ کی مو ت کا یقین کر لیا۔ بنگال ،احمد آبا،دکن اور پنجاب میں بغاوت کے طوفان کھڑے ہو گئے ،دارا شکوہ نے تمام راستو ں کی ناکہ بندی کر دی ، کو ئی ڈاکیا ، مسافر ، وفد یا کو ئی ایلچی بادشاہ کی بیماری کی خبر باہر نہیں لے جا سکتا تھا ۔ادھرباپ کی مو ت کی جھوٹی خبر سن کر مراد نے احمد آباد میں اپنی بادشاہت کا اعلا ن کر دیا تھااوراس نے اپنے نام کے سکے تک چلوا دیئے تھے ۔

یہی کیفیت شجاع کی تھی ، اس نے دکن میں اپنی حکو مت کا اعلان کر دیا ۔صرف اورنگزیب نے عقلمندی کا ثبوت دیا اوربغاوت سے بازرہا۔اب چاروں بھائیوں میں حصول اقتدار کی جنگ شروع ہو ئی، اورنگزیب اور مراد کو دارا کی سازشوں کا علم ہوا تو وہ جنگ کے لیے تیا ر ہو گئے ،ایک طرف دارا ساری مغلیہ فوج ،لا تعدادہاتھیوں اور بڑے توپ خانے کے ساتھ میدان جنگ میں پہنچ چکا تھا اور دوسری طرف اورنگزیب اور مراد نے سمو گڑھ کے تپتے ریگستانوں میں ڈیرے ڈال دیئے تھے،یہ ہندو ستان کی تاریخ کی دوسری بڑی لڑا ئی تھی جس میں ہزاروں مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔

جنگ شروع ہو ئی تو اورنگزیب اور مراد کا پلڑا بھاری رہا اوردارا شکست کھا کر بھا گ کھڑا ہوا۔دارا کی شکست کے بعد اورنگزیب کے قدم مضبوط ہو تے چلے گئے ،مراد اور شجاع کو اورنگزیب کی کامیابیوں کا احساس ہو اتو انہیں اپنا مستقبل تاریک دکھا ئی دینے لگا ، وہ دونوں اورنگزیب کے خلا ف سازشیں کرنے لگے ۔اب صورتحال یہ تھی کہ چاروں شہزدوں نے اپنی اپنی خود مختاری کا اعلا ن کر دیا تھا،ملک میں افرا تفری پھیل گئی تھی ۔

سکھوں اور راجپوتوں نے بھی حا لا ت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود مختاری کا اعلا ن کر دیا ،ملک میں قتل و غارت شروع ہو گئی اور قانون نے خود کشی کر لی۔ ان بگڑتے ہوئے حالات میں اورنگزیب آ گے بڑھا ،اس نے مراد اور شجاع کو شکست دی اور دونوں بھائیوں کو گرفتار کرنے کے بعد قتل کر وا دیا ۔اس کے بعد وہ دارا اور شاہجہان کی طرف بڑھا ،دونوں کی فوجیں خوب جم کر لڑیں، دارا کو شکست ہو ئی اور وہ بھاگ نکلا۔

اورنگزیب نے باپ کواٹھوا یااورقلعے میں بند کر دیا۔شاہجہان نے اورنگزیب سے رہائی کی درخواست کی لیکن شاید اب رہائی کا وقت گزر چکا تھا ،اورنگزیب کی بہن جہاں آرا ء نے بھی بھائی کو خطوط لکھے اور باپ کی رہائی کی درخواست کی لیکن اورنگزیب اپنی بات پر اڑا رہا ،بڑے بڑے بادشاہوں ،امراء اور وزراء کی طرف سے شاہجہان کی رہائی کی اپیل کی گئی لیکن اورنگزیب نہ مانا۔

کچھ عرصہ بعد شاہجہان بیمار ہوا اور قید خانے میں ہی اس کا انتقال ہو گیا ۔باپ کی وفات کے بعد ایک وزیر نے اورنگزیب کو ملا مت کیا کہ تم نے اپنے باپ کو قید کر کے سنگین غلطی کی،اورنگزیب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ بولا ”جس دن میں نے اپنے والد کو قید کیا وہ میری زندگی کا مشکل ترین دن تھا لیکن یہ حالا ت کا تقاضا تھا ،اوراگر اس وقت میں یہ مشکل فیصلہ نہ کرتا تو آج مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہو چکا ہو تا “۔


اقوام ہوں یا ممالک، افراد ہوں یا ادارے بعض اوقات انہیں اپنی بقا ء کے لیے سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور اگر بروقت یہ فیصلے نہ کیے جائیں تو اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے اورہم پاکستانی پچھلے پندرہ سالوں سے یہ خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ہمیں جو فیصلے پندرہ سال پہلے کر لینے چاہیئے تھے وہ ہم آج تک نہیں کر پائے جس کا نتیجہ آج ہمیں لاہوراور سیہون شریف کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم درپیش دہشت گردی کے مقابلے میں ابھی تک ایک پیج پر جمع نہیں ہو پائے اور ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آج تک پاکستان میں ایسے گروہ موجود ہیں جو دہشت گردوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ لیکن اب ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ جنگ کسی ایک گروہ یا فریق کی نہیں بلکہ پورا پاکستان اور پاکستان کا ہر طبقہ اس سے متاثر ہو رہا ہے ، ہمارے ہزاروں سویلین اور ہزاروں فوجی اس جنگ کی نذر ہو چکے ہیں ۔

پاکستان کے کا شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو گا جو دہشتگردی کی اس لہر سے متاثر نہیں ہوا ، ہم پچھلے دس پندرہ سالوں سے وزانہ دس بیس لاشیں ضرور اٹھا تے ہیں اور ہم روزانہ ٹی وی اسکرینوں پر خون ،خون اور خون دیکھ کر تھک چکے ہیں ۔ہم میں کوئی بھی ایسا خاندان ہیں جو باالواسطہ یا بلا واسطہ طورپر دہشت گردی سے متاثر نہ ہوا ہواور پاکستان میں کوئی ایسا گاوٴں محلہ نہیں جس سے جنازے نہ اٹھے ہوں لیکن اس سب کے باوجود ہم میں وہ اتحاد اور یگانگت پیدا ہیں ہوئی جو ہونی چاہئے تھے۔

ہمیں اب یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے کہ صرف طالبان اس جنگ میں ملوث نہیں بلکہ دشمنوں کی پوری ایک جماعت ہے جس میں بھارت، امریکہ افغانستان اور ان ممالک کی ایجنسیاں براہ راست ملوث ہیں ۔ یہ پوری ایک مثلث ہے جو دہشت گردوں کی فنڈنگ کررہی ہے اور انہیں ہر طرح کے ہتھیار ، سہولیات اور سرمایہ فراہم کر رہی ہے اور اس کے لیے یہ لوگ مقامی افراد کی خدمات بھی حاصل کررہے ہیں۔

حکومت اور فوج جتنی مرضی کوششیں کر لیں جب تک عام پاکستانی اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھے گا تب تک حکومت اور فوج کچھ نہیں کر سکتیں ۔ پشاور حملے کے بعد سے اب تک جتنے بھی دہشت گردپکڑے گئے سب نے اعتراف کیا کہ مقامی افراد نے سہولت کا ر کا کام کیا۔ ابھی لاہور حملے میں ملوث جو سہولت کا رپکڑا گیا اس نے بھی اعتراف کیا کہ ایک لاکھ روپے کے عوض اس نے اپنی خدمات دہشت گردوں کو فراہم کیں ۔

یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ جب تک عام پاکستانی اپنا کردار ادا نہیں کرتا تب تک یہ جنگ نہیں جیتی جائے گی ۔ اگر ہم واقعی اس قوم اور اس ملک سے محبت کرتے ہیں تو اب ہم میں سے ہر ایک کو اورنگزیب بننا پڑے گا اور اورنگزیب بن کر سخت فیصلے کرنے پڑیں گے ۔ اور اگر ہم آج یہ نہیں کریں گے تو لکھ لیں ہم یہ جنگ کبھی نہیں جیت پائیں گے اور آج دوسروں کے گھر میں جلنے والی آگ کل ہمارے گھر وں تک پہنچ جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :