پاکستان کا دل لہولہان ہے

جمعرات 16 فروری 2017

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

یہ لاہور ہے زندہ دل والوں کا شہر،اس شہر کے کی رونقوں،کھابوں کی روایات سات سمندر پار تک مشہور ہیں۔آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں لاہوریے دور سے پہچانے جاتے ہیں ،لاہوریے اپنے کھابوں کے مزاج اور ”ڑ“ سے پکڑے جاتے ہیں۔لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے سچ پوچھیے تو یہ شہر واقعی دل کا کردار اد ا کر رہا ہے ۔لاہور کی راتیں جاگتی ہیں بلکہ یوں کہہ لیجیے چہکتی ہیں،گاتی ہیں۔

یہاں کی رونقیں لوگوں کو اپنی طرف کھینچنا جانتی ہیں۔مگر یہ کیا اس دل پر دشمن نے ایک بار پھر شدید ضرب لگائی ہے اب کی بار لاہور کے دل کو ٹارگٹ کیا گیا جی ہاں ہے یہ مال روڈ چئیرنگ کراس کا علاقہ ہے جہاں کیمسٹ ایسوسی ایشن والے اپنے دیرینہ مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے تھے اس احتجاج میں سینکڑوں افراد شریک تھے۔

(جاری ہے)

میڈیا رپورٹس کے مطابق،خود کش حملہ آور الفلاح بینک کی جانب سے آیا اس کا ہدف پولیس کے سینئر افسران تھے، اس نے جب ایسوسی ایشن کے نمائندگان سے مذاکرات کامیاب کرنے کے بعد ڈی آئی جی کیپٹن(ر) مبین کو آتے دیکھا تو ان کی جانب بڑھا لیکن ڈیوٹی پر مامورڈی آئی جی کے گن مین نے حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی توحملہ آورقریب کھڑی آج ٹی وی کی گاڑی کے پاس گیا اورخود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن مبین اور ایس ایس پی آپریشن زاہد گوندل سمیت 13 افراد شہید، 70 زخمی ہوگئے۔

دھماکے کی خبر نے زندہ دلان کے شہر لاہور کو سوگوار کردیا۔دہشت گردی کی یہ واردات پہلی نہیں ہے۔
اس سے پہلے 27مارچ 2016 کو لاہور میں گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کے موقع پر دھماکا کیا گیا جس میں 72 لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں،2015میں پولیس لائن قلعہ گجر سنگھ کے باہر ایک خود کش حملہ آورنے خود کو دھماکے سے اڑایا جس کے نتیجے میں2پولیس اہلکار شہید،30زخمی۔

2010میں دوخودکش حملہ آوروں نے داتادربار پر حملہ کر دیا اور دربار کے احاطے کے اندر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔دھماکے کی زد میں آکر 50لوگ شہید،200کے قریب شدید ہوگئے۔لاہور ہی میں ایک بار پھر سے 3مارچ 2009 کو قذافی سٹیڈیم کے قریب دہشتگردوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر فائرنگ کی،گولیوں کی زد میں آکر ایک ٹریفک پولیس اہلکار موقع پر شہید ہوگیا۔

15اکتوبر 2009میں مناواں پولیس اکیڈمی کو نشانہ بنایا گیا جس کے باعث 14سکیورٹی اہلکاروں سمیت38افراد شہید،20زخمی ہوگئے۔جنوری2008میں شدت پسندوں نے لاہور ہائی کورٹ کے باہر دھماکہ کردیا،دھماکے کی زد میں آکر 24افراد شہید،73زخمی ہوگئے جبکہ حملہ آور کاہدف سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار کے جوان تھے۔مارچ 2008میں امن پسند دہشت گردوں نے نیوی وار کالج مال روڈ کو نشانہ بنایا جس میں 8افراد شہید اور 24زخمی ہوئے اور اسی مہینے میں11مارچ کوایف آئی اے کی بلڈنگ پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں16پولیس اہلکاروں سمیت 21افراد شہید ہوگئے تھے۔

سیکورٹی اداروں کی جانب سے کئی روز پہلے الرٹ جاری کی گئی میڈیا نے شور مچایا دہشتگرد لاہور میں گھس آئے اس سب کے باوجود یہ سانحہ ہوا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے جب تھریٹ پہلے سے موجود تھے تو مظاہرین کی اتنی بڑی تعداد کو کیوں جمع ہونے دیا گیا،کیا مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کی کوئی صورت پیدا نہیں کی جاسکتی تھی؟ اگر حکومت کے اس دعوے کو بھی تسلیم کر لیا جائے کہ مظاہرین روکنے کے باوجود آگے بڑھتے رہے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ریاست کی رٹ کی دیوار اتنی کمزور تھی کہ مظاہرین کے سامنے کھڑی نہ رہ سکی،کیا مظاہرین کو روکنا نا ممکن ہوچکا تھا؟جب سیاسی دھرنوں کے لیے کنٹینروں کی دیوریں کھڑی کی جاسکتی ہیں تو ان کے تحفظ کے لیے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ ایسے میں اس سانحے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ ہم نے قیمتی جانیں اور بہترین افسر کھو دیے کیا اس پر مذمت کی چادر چڑھا کر ہم نے اپنا فرض پورا کر لیا،حکومتوں کو معاملات الجھانے کی بجائے حل کرنے چاہیں۔

اس مرتبہ عوام کے ساتھ ساتھ دشمن کا نشانہ ہماری پولیس فورس تھی اور ٹائمنگ بھی بہت خوفناک تھی۔ پی ایس ایل جیسا ایونٹ چل رہا ہے جس کی دھوم دنیا میں سنی جاسکتی ہے اس ایونٹ کا فائنل لاہور میں ہونا طے پایا ہے ،اس حادثے کے بعد حکومت کا چیلنچ مزید بڑھ گیا ہے،سکیورٹی اداروں کو مل بیٹھ کر اس پر غور کرنا ہوگا سخت عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ دشمن کے ناپاک عزائم کو ملیا میٹ کیا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :