تماشہ

منگل 14 فروری 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

بھئی سچی بات تو یہ کہ مداری کا کام بہت کٹھن ہوتا ہے۔ سوچیئے تو سہی ،اس کو تماشے کی خاطر کیا ،کیا ،کشٹ کاٹنے پڑتے ہیں۔ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ مداری کا مطع نظر صرف، مجمع ہوتا ہے۔ تالیوں کی آواز ہوتی ہے۔ تماشائیوں کی حیرت ہوتی ہے۔ ایک نعرہ تحسین اور جملہ خوش کن اس کا کل اثاثہ ہوتا ہے۔ یہ بھی آپ جانتے ہی ہیں کہ تماشا گر کی نگاہ ہمیشہ تماشائیوں پر ہوتی ہے۔

دراصل تماشا دیکھنے والوں کے رد عمل سے ہی تو تماشا ہوتا ہے۔ تب ہی توپھرحا ل پڑتے ہیں،داد ملتی ہے،شور ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ تماشے کے دواران وہ ایک لمحہ بھی آتا ہے جب سب تماشائی حیرت سے دنگ رہ جاتے ہیں، تالیاں بجنے سے پہلے سناٹا ساہو جاتاہے۔ اس وقت لوگ حیرانی سے ششدر ہو رہے ہوتے ہیں۔ دراصل یہ لمحہ مداری کے لیے معراج کا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اسکی ساری محنت، مشقت اور محبت اس ایک لمحے کے لیے ہوتی ہے۔ اس لمحے میں اس کو پیشگی علم ہو جاتا ہے کہ اگلے ثانیئے میں کیا ہونے والاہے۔وہ جانتا ہے کہ اب داد ملنے والی ہے۔ تالی بجنے والی ہے۔ اس کے حق میں نعرہ لگنے والا ہے۔جناب ،اسی لمحے کے لیے تو سارا تماشا ہوتا ہے۔یہی وقت تماشا گر کے لیے اعجاز اور یہی لمحہ انعام ہوتا ہے۔
تماشائیوں کو مبہوت کرنے کے لیے مداری کو بہت سے کرتب دکھانے پڑتے ہیں۔

کبھی ڈگڈگی بجانی پڑتی ہے، کبھی جیب سے کبوتر نکالنا پڑتا ہے، کبھی سولا ہیٹ میں سے رنگ برنگے رومالوں کی ہزاروں کترنین برآمد کرنی پڑتی ہیں، کبھی ناراض بندر کو سسرال سے واپس بلانا پڑتاہے، کبھی بکری کو ایک ٹانگ پر کھڑا کرنا پڑتا ہے، کبھی بچہ جمہورا کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کے گلے پر چھری چلانی پڑتی ہے۔ کبھی سدھائے ریچھ کو نچانا پڑتا ہے، کبھی ڈگڈگی کی تھا پ پر خود ناچنا پڑتا ہے۔

کبھی تھیلے سے دو موا سانپ برآمد کرنا پڑتا ہے۔ کبھی بین بجانی پڑتی ہے ، کبھی خود کوزہریلے سانپوں سے ڈسوانا پڑتا ہے۔کبھی گھنگھرو پہننے پڑتے ہیں۔ کبھی ننگے پاوں دہکتی آگ پر چلنا پڑتا ہے، کبھی تیز دھار تلوار کو حلق سے نیچے اتارنا پڑتا ہے۔ کبھی ٹوٹے گلاس کی کرچیاں چبانی پڑتی ہیں۔کبھی بغیر کسی سہارے کے ایک باریک سے تار پر چلنا پڑتا ہے۔

کبھی صاحبان ، قدردان اور بھائی جان کی آواز لگانا پڑتی ہے۔ کبھی تماشائیوں سے پہلے خود تالی بجانی پرتی ہے اور کبھی کبھی تواپنے حق میں خود ہی نعرہ لگانا پڑتا ہے۔
اس بات کی طرف کم ہی لوگوں کا دھیان جاتا ہے کہ مداری کا مقصد تماشا نہیں ہوتا، اس کو ان شعبدوں سے درحقیقت کوئی غرض نہیں ہوتی، ان کرتبوں سے اس کو کچھ حاصل نہیں ہوتا، جیب سے نکلنے والے کبوتر اور ٹوپی سے نکلے رنگ برنگے رومالوں سے اس کو کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔

اس کا اصل مقصد تماشائی ہوتے ہیں۔ ان کی دل بستگی کے لیے یہ سارا جھنجھٹ ہوتا ہے۔ ان کی نگا ہ ستائش مقصود ہوتی ہے۔ تب ہی تو وہ اپنے تماشے میں جتنا بھی مگن ہو اس کی ایک نگاہ تماشائیوں پر ہوتی ہے۔ جس بات پر تالی بجتی ہے وہ اس کرتب کو دوہراتا ہے۔ جہاں مجمع میں سناٹا چھا جائے وہ اس شعبدے سے گریز کرتا ہے۔وہ اپنی مہارت کا رخ ہمیشہ ناظرین کی جانب رکھتا ہے۔

انکی نبض پر مداری کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر تماشائی رقص پسند کریں تو وہ ناچنا شروع کر دیتا ہے، گھنگھرو پہن لیتا ہے، ڈگڈگی کی تھاپ پر اس کے قدم چلنے لگتے ہیں۔ سامنے والوں کی خوشنودی کے لیے وہ کتھک سے لے کر بھنگڑے تک ہر مرحلے سے گزرتا ہے۔ غرض وہ تماشائیوں کے لیے تماشا کرتا ہے اور انکی مرضی پر چلتا ہے۔
آپ نے غور کیا ہو گاکہ اگر مجمع میں سے کوئی آواز کستا ہے، مداری کو ہوٹ کرتا ہے، تماشے میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتا ہے تو مداری کبھی اس سے بددل نہیں ہوتا۔

ایسے مواقع اس کو حوصلہ بخشتے ہیں، وہ پہلے سے زیادہ محنت کرتا ہے، پہلے سے زیادہ کاوش دکھاتا ہے۔نئے کرتب ایجاد کرتا ہے، جیب سے انڈا نکالتا ہے، انڈے سے بطخ برآمد کرتا ہے، بطخ کے سر پر تاج رکھتا ہے، تاج میں نگینے جڑتا ہے، نگینوں میں رنگ بھرتا ہے،اس پر بھی تالی نہیں پڑتی تو وہ چھوٹی سی پٹاری سے بڑا سا اژدھا نکال لیتا ہے۔ اژدھا کے منہ میں اپنا سر ڈال دیتا ہے، اسکو دم سے پکڑ کر جھلاتا ہے، اس اژدہے کو طیش دلاتا ہے، اور پھر اس دیو قامت اژدھے کو ننھی سی ماچس میں بند کر دیتا ہے۔

اس سے بھی اگر ناظرین کی تسلی نہیں ہوتی تو اپنا جوتا اتار کر اپنے منہ میں ڈال لیتا ہے، چمڑے کو دانتوں سے کترتاہے، تلوں کو زبان سے چاٹتا ہے، تسموں کو گلے کا ہار بناتا
ہے۔ بعض اوقات تماشائیوں کی دلبستگی کے لیئے، وہ اپنے چہرے پر رنگ گراتا ہے۔ لال کلغی والی ٹوپی پہن کر بچوں کو ہنساتا ہے، تا وقتییکہ تالی بج جائے، شور مچ جائے۔ نچھاور ہو نے والے سکوں کی جھنکار بڑھ جائے ۔

عزت ، بے عزتی اس کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ وہ تماشائیوں کے لیے ہر مرحلے سے گزرتا ہے۔ بیچارہ اپنے آپ کو منوانے کے لیے بڑے جتن کرتا ہے۔
مداری کی زندگی کا سب سے الم ناک منظر وہ ہوتا ہے جب تماشیوں کو تماشے کی سمجھ آجاتی ہے۔ جب اسکے کرتبوں کے بارے میں لوگوں کو پہلے سے پتہ چل جائے۔جب بھائی جانوں ، قدر دانوں اور مہربانوں کو پہلے سے علم ہو جائے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔

ایسے میں مداری اپنا سارا زور لگاتا ہے۔ ہر کرتب دکھاتا ہے۔ ہر ترکیب لڑاتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتا۔ اس کے جادو لوگوں کو ڈھونگ کہنے لگتے ہیں، اس کے ہنر پر ٹھٹھے ہونے لگتے ہیں۔ لوگ پہلے سے نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ تماشائی پیش بین ہو جائیں پھر انکو تماشے میں دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ روز بہ روز ہونے والے مسخرہ پن بیزار ہو جاتے ہیں۔

پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ تماشا گر خود تماشا بن جاتا ہے۔ اپنی رسوائی کا خود ہی لطیفہ ہوجاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب زمانہ اس کو پہچان جاتا ہے اور وہ زمانے کی نظروں سے کہیں دور پاتال میں گر جاتا ہے۔
مداری اور صحافی میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ ایک اصل صحافی کو تماشہ نہیں دکھانا ہوتا۔ نہ اسکو تالیوں سے غرض ہوتی ہے، نہ نعرے اس کا مطمع نظر ہوتے ہیں۔

نہ داد و تحسین اس کی خواہش ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کوئی کرتب دکھاتا ہے۔ نہ اس کی جیب میں کوئی کبوتر ہوتا ہے نہ ٹوپی میں سے رنگ برنگا رومال نکلتا ہے۔ نہ تماشائیوں کی دل بستگی اسکی خواہش ہوتی ہے نہ اک جملہ خوش کن اس کے دل کو لبھاتا ہے۔ اصل صحافی کا مطمع نظر صرف اور صرف خبر ہوتی ہے۔ اسکی ساری وفاداری خبر کی سچائی سے منسوب ہوتی ہے۔ اسی خبر کے لیے وہ کشٹ کاٹتا ہے۔

اسی کے لیے در در کی خاک چھانتا ہے۔ اسی کی تلاش میں سرگرداں ہتا ہے۔ نہ کوئی پارٹی اس کو عزیز ہوتی ہے نہ کوئی ادارہ اسکی خبر سے وفاداری کو کم کر سکتا ہے۔ اس کو نہ لوگوں کو لبھانا ہوتا ہے نہ انکی داد سے کوئی غرض ہوتاہے۔ اس کو بس خبر اپنے درست ترین انداز میں مکمل دیانتداری کے ساتھ ، پورے شواہد اور سیاق و سباق کے ساتھ عوام تک پہنچانی ہوتی ہے۔ یہی اسکا مقصد اور یہی خبر اسکی معراج ہوتی ہے۔
اب اسے ہماری بدقسمتی ہی کہئے کہ ہمارے میڈیا پر صحافی کم اور مداری زیادہ گئے ہیں۔میڈیا کے ان مداریوں میں سے کچھ کے تماشے تو بحکم عدالت بند ہوگئے ہیں اور باقیوں مداریوں کے کرتبوں سے بھی اب لوگ بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :