پانامہ کی عجیب کہانی

اتوار 12 فروری 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

آپ پانامہ کیس کو مریم نواز اور سلطانہ بیگم کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں آپ کو پانامہ کیس کے سارے عقدے حل ہوتے نظر آئیں گے۔ سلطانہ بیگم کلکتہ کے قریب ھوورا کے ایک غریب محلّہ میں رہنے والی " شہزادی" کا نام ہے۔شہزادی کے شوہر کا نام بیدار بخت تھااور بیدار بخت کا تعلق مغلیہ خاندان سے تھا ، ہم پانامہ کی طرف جانے سے پہلے مغلیہ خاندان کی تھوڑی تاریخ جاننے کی کوشش کریں گے۔

امیر تیمور برصغیر کے مغلیہ حکمرانوں کا جد امجد ہے ۔ امیر تیمور کی نسل میں آگے چل کر ظہیرا لدین بابر پیدا ہوا ،ظہیرالدین بابرکی ساری زندگی اپنوں سے لڑتے ہوئے گزر گئی ،ظہرالدین کو اپنے بیٹے ہمایوں سے بہت پیار تھا ،ہمایوں بیمار ہواتو ظہیرالدین نے دعا مانگی یاللہ ہمایوں کی بیمار ی مجھے دے دے شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی ہمایوں صحت یاب ہو گیا اور ظہیرالدین وفات پا گیا ۔

(جاری ہے)

بابر کے بعد ہمایوں خان مغلیہ سلطنت کا حکمران بنا ،اس نے بڑی خوفناک جنگیں لڑی ،ایک دن وہ اپنے محل کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا کہ پاوٴں پھسلا اور لڑھکتا ہو اسیڑھیوں سے نیچے آ گرا ،بظاہر یہ معمولی واقعہ اس کی موت کا سبب بنا ۔ہمایوں کے بعد جلال الدین اکبر نے مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی ،وہ صرف تیرہ سال کا تھا جب اسے شاہی لباس پہنا دیا گیا ۔

اکبر کا بیٹا شہزادہ سلیم تھا ،شہزادہ سلیم ایک کنیز زادی انار کلی کے عشق میں گرفتا ہو گیا ،اکبر یہ حرکت کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا چناچہ عشق نے باپ اور بیٹے کو میدان جنگ میں لا کھڑا کیا اور بالآخرعشق نے باپ کے سامنے گردن جھکا دی ۔ اکبر1605کو طبعی موت مر گیا اور شہزادہ سلیم بعد میں جہانگیر کا لقب پا کر ہندوستان کا حکمران بنا ۔1611میں جہانگیر کے عشق کا جادو سر چڑھ کر بولا اور نو ر جہاں کے منظر عام پر آنے کے بعد ہندوستان کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا ،1627میں کشمیر سے واپس آتے ہو ئے راستے میں جہانگیر کا انتقال ہوگیا ۔

جہانگیر کے بعد اس کے بیٹے شاہجہان نے زمام اقتدار سنبھالی اور اس نے آگرے میں تاج محل بنا کر باپ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ،شاہجہان کی عیش پرستی دیکھ کر ملک خانہ جنگی کا شکا ر ہو گیا ،شاہجہان کے چاروں بیٹے آپس میں گتھم گتھا ہو گئے لیکن عالمگیر نے سب کو شکست دے کر زمام اقتدار سنبھال لی ،اس نے اپنے باپ شاہجہان کو قید کر دیا اور وہیں 1666شاہجہان کی وفات ہو ئی ۔

اورنگزیب کے بعد کئی بادشا ہ آئے لیکن آپس کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے کو ئی بھی ذیادہ عرصے تک نہ ٹھہر سکا اور صرف پچا س ساٹھ سالوں میں 11مغل بادشا ہ حکمران بنے ۔ بہادر شا ہ ظفر آخری وظیفہ خوار بادشاہ تھا ،بہادر شاہ ظفر لال قلعے کے اندر تک محدود ہو کر رہ گیا تھا اور حد یہ تھی کہ قلعے کے اندر بھی ا س کی کوئی نہ سنتا تھا ،صرف دو انگریز سپاہی اسے وظیفہ دینے آتے اور جاتے ہوئے اس کی عزت اور غیرت کا جنازہ پڑھا جاتے تھے۔

1857کی جنگ آذادی کے بعد انگریز نے بہادر شاہ ظفر کو بیٹو ں سمیت حراست میں لے لیا اور سب کو بھگی پر بٹھا کر شہر کی طرف لے جایا گیا ،جب یہ بھگی خونی دروازے کے قریب پہنچی میجر ہڈسن نے شہزادوں کو نیچے اتارا اور قطار میں کھڑا کر کے بادشاہ کے سامنے گولی مار دی ، بہادر شاہ کو رنگون میں قید کر دیا گیا ۔
اب ہم واپس آتے ہیں پانامہ کی طرف، بیدار بخت بہار شاہ ظفر کے سب سے چھوٹے بیٹے جواں بخت کا پڑپوتا تھا۔

جواں بخت 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد زندہ بچ جانے والا آخری شہزادہ تھا- بہادر شاہ ظفر کی آٹھ بیویاں تھیں جن میں سے ایک کا نام زینت محل تھا، زینت محل سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جواں بخت رکھا گیا -1852ء میں شہزادہ جواں بخت کی شادی ہوئی تو اس کی خوشی میں دلی میں دس روز تک جشن منایا گیا تھا- انگریز سر کا ر نے بادشاہ کو رنگون میں جلا وطن کیا تو شہزادہ جواں بخت بھی ان کے ساتھ تھا۔

بہادر شاہ ظفر نے اپنی زندگی کے آخری ایام برما کے شہر رنگون میں گزارے ، انگریزی سرکار بہادر شاہ ظفر کو مہینے بعد چند سو روپے وظیفے کے طور پر دے دیا کرتی تھی اور اسی سے بہادر شاہ ظفر اور اس کا خاندان اپنا گزارا کرتا تھا۔ جواں بخت کو اللہ نے ایک بیٹا عطا کیا جس کا نام جمشید بخت رکھا گیا۔ جمشید بخت کے دو بیٹے تھے۔ایک مرزا سکندر اور دوسرے بیدار بخت۔

جواں بخت نے اپنے والد بہادر شاہ ظفر اور ماں بیگم زینت محل کو اپنے ہاتھوں سے رنگون کی خاک میں دفن کیا- کسی نئی بغاوت کے خوف سے جواں بخت کو کبھی ھندوستان نہ آنے دیا گیا- اسے برما میں ایک بنگلہ عنایت کر دیا گیاتھا۔ جواں بخت کا بیٹا جمشید بخت برما میں پیدا ہوا اور اس نے وہیں انگریزی تعلیم حاصل کی- جمشید بخت کو بھی ھندوستان آنے کی اجازت نہ مل سکی- اس نے 60 سالہ زندگی برما میں ہی گزار دی اور بے شمار راز سینے میں لئے 1921ء میں راہیء ملک عدم ہو گیا- جمشید بخت کی وفات کے بعد اس کے تین سالہ بیٹے بیدار بخت کو اس کا ایک چچا کلکتہ لے آیا تاکہ انگریز حکومت سے اس کی وظیفے کی درخواست کی جا سکے جو باپ کی وفات کے بعد بند ہو گیا تھا- بیدار بخت کا وظیفہ اس شرط پر بحال کیا گیا کہ وہ کسی سیاسی جلسے میں سامنے نہیں لایا جائے گا اور کسی سے اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی- اسے پچاس روپے انگریز سرکار سے ، پچاس روپے نظام آف حیدر آباد سے اور سو روپے نظام الدین اولیاء فنڈ سے ملتے تھے- 1925میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بہادر شاہ ظفر کے خاندان کو واپس دلی بلانے کی کوشش کی تھی لیکن انگریزوں نے اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھاکہ انہیں کلکتہ لے جاوٴ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ وہاں کسی پر یہ ظاہر نہ کریں کہ وہ بہادر شاہ ظفر کے خاندان سے ہیں۔

نتیجے میں انہیں پھولوں کے بکس میں چھپا کر ہندستان لایا گیا تھا۔تقسیم کے بعد بیدار بخت کبھی سامنے نہ آیا- البتہ کلکتّہ کے لوگ کبھی کبھی لمبی اچکن کے ساتھ شاھی جوتا پہنے ، ہاتھ میں گلاب کا پھول لئے ایک شخص کو کلکتہ کی گلیوں میں چہل قدمی کرتے ضرور دیکھا کرتے تھے۔
بہادرشاہ ظفر کی اکثر اولاد 1857ء کی ناکام بغاوت کے بعد ہلاک ہو گئی تھی لیکن شہزادہ جواں بخت زندہ بچ گیا تھا، جواں بخت کا بیٹا جمشید اورجمشید کا بیٹا بیدار بخت تھا اور سلطانہ بیگم اسی بیدار بخت کی بیوہ ہیں۔

بہادر شاہ ظفر کی زندہ بچ جانے والی اولاد میں سے کچھ ہندوستان، ڈیٹرائٹ، مشی گن امریکا اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں۔بیدار بخت 1980 میں کلکتے میں وفات پاگیا تھا اور آج اس کی بیوہ سلطانہ بیگم کلکتے میں رہائش پزیر ہے۔یہ شہزادی اپنے پڑوس کے ساتھ مشترکہ کچن میں کھانا پکاتی اور گلی میں نصب ٹونٹی سے کپڑے دھوتی ہے۔ حکومت ہند کی طرف سے اس شہزادی کو چھ ہزار روپیہ مہینا وظیفہ ملتا ہے۔

کاش وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز سلطانہ بیگم کی یہ کہانی پڑھ لیتے تو شاید انہیں اپنی دولت چھپانے کے لیے قطری شہزادے کے خط کی ضروت نہ پڑتی۔ کاش وہ جان لیتے کہ یہ دولت اور اقتدار ہمیشہ انسان کے ساتھ نہیں رہتے ، اگر یہ دولت اور اقتدار مغلیہ خاندان کے پاس نہیں رہااور ان کی اولادیں آج چائے کے کھوکھے چلا کر گزارہ کر رہی ہیں تو یہ ان کے پاس بھی ہمیشہ نہیں رہیں گے ۔ کاش یہ جان لیں کہ دولت اور اقتدار جانے والی لیکن نیک نامی اور عزت باقی رہ جانے والی چیزیں ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :