سوری بانو آپا میں رو نہ سکا

بدھ 8 فروری 2017

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

فروری کی سرد شام کی اس ہلکی پھلکی بارش میں بانو آپا کی اس دنیا کی رخصتی کی خبرملی،میری آنکھیں بادل بننے کو تیار تھیں وہ بھی دسمبر کے بادل جن کے باعث ہونے والی بارش کئی غم ساتھ بہا لے جاتی ہے۔ داستان سرائے میں گزرے ہوئے سارے لمحات میرے دماغ کے کسی گوشے میں پسندیدہ فلم کے سین کی طرح گھومنے لگے یہ وہ سین ہوتے ہیں جو زندگی بھر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

ماں جی سے پہلے ملاقات یاد آئی جی ہاں ماں جی دنیا کے لیے وہ بانو آپا تھیں مگر میں کبھی انہیں آپا کہہ ہی نہیں پایا جب بھی مخاطب کیا لفظ ماں جی بے اختیار ہونٹوں پر آیا،پہلی ملاقات کیا تھی پہلی حاضری سمجھ لیجیے کیسے اور کہاں سے میں ان کے پاس پہنچ گیا ڈرتے ڈرتے پاس گیا ماں جی نے سر پر ہاتھ پھیرا پیار کیا دعا دی وہی دعا جو داستان سرائے کی دیواریں تک یہاں پر آنے والوں کو دیتی ہیں ”اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے“۔

(جاری ہے)

میں خوبصورت دعا اپنے ساتھ لیے داستان سرائے کے مہمان خانے کی آخری دیوار کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا،جیسے کسی کو اچانک اس کی اوقات سے زیادہ مل جائے میں تو دور سے دیدار کر کے بھی ساری زندگی گزار سکتا ہوں مگر یہ کیاجو تصور میں تھا وہ ہوبھی گیا۔مجھ پر سکوت طاری تھا میں دور بیٹھے صوفے پر بیٹھی اس عورت کو تکتا رہا جس کے چہرے پر اطمینان،سکون اور نور ہی نور تھا۔

یہ داستان سرائے میں میری پہلی انٹری تھی ،پتا چلا ماں جی کے ہاں نشستیں ہوتی ہیں جہاں لوگ اپنے ساتھ سوال،بے چینی،محبت،تلخی اور ناجانے کیا کیا ساتھ لاتے ہیں مگر واپسی پر پر اطمینان جاتے ہیں ۔میں باقائدگی سے داستان سرائے جانے لگا یوں سمجھ لیجیے یہ صرف ایک گھر نہیں تھا ایک ادارہ تھا جہاں میری حیثیت ایک جونئیر انٹرنی کی سی تھی میں اپنی اس حیثیت پر ساری زندگی فخر کرسکتا ہوں ۔

ماں جی کے ہاں ہر قسم کے لوگ آتے تھے یہ محفل بھی عجیب محفل تھی شاید ہی شہر میں اس جیسی کوئی محفل ہو جہاں اس ملک کے نامور لوگ فرش پر بیٹھنا پسند کرتے تھے ،کیا امیر اور کیا غریب سب کی خواہش تھی کہ ماں جی کے قدموں کے قریب اسے جگہ ملے۔ایک د ن نشست کے بعد ساری ہمت جمع کر کے پاس چلا گیا ”ماں جی“ جی بیٹا ماں جی میری طبیعت میں بے چینی ہے کسی کام میں سکون نہیں ملتا کیا کروں ؟ میں نے داستان سرائے کی شہزادی کو اپنی داستان ایک سانس میں سنا ڈالی۔

”بیٹا اپنے والدین کی دعائیں لے کر گھر سے نکلا کرو“ ٹھیک ہے ماں جی کیا آپ میرے لیے دعا کریں گی۔۔؟ میرے لہجے میں بے یقینی کی کیفیت قدرے نمایاں تھی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے لگا میں جی بھر کر رونا چاہتا ہوں ،میں نے ماں جی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے چھوا کوشش کر کے منہ قریب لایا اور ان کے ہاتھ کو چوما ”جی پتر جی ضرور اللہ آپ کو زندگی گزارنے کا قرینہ اور سلیقہ عطا فرمائے“ یہ دلکش الفاظ اپنی مٹھاس بھری شدت کے ساتھ میری سماعتوں سے ٹکرائے ایک لمحے کے لیے مجھے لگا جیسے میری ساری مشکلیں آسان ہوگئی ہوں۔

میرے والدین کو میری صحافت میں کبھی دلچسپی نہیں رہی چار سال تک والد محترم کو یہ سمجھانے میں ناکام رہا کہ صحافت کو ایک باعزت پیشہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔میرے کسی کالم پرگھر والوں کی طرف سے کبھی کوئی خاطر خواہ ردعمل نہیں آیا ایک دن والد صاحب کا فون آیا ”وہاڑی سے ایک ٹیچر ظفر جمیل صاحب بانو قدسیہ صاحبہ سے ملنا چاہتے ہیں تم ان کے پاس جاتے ہو کیا ملاقات کروا سکتے ہو؟ میں نے ہاں کردی اسی شام والد صاحب اور ان کے دوست کے ہمراہ داستان سرائے پہنچا،ماں جی سے ملاقات کروائی اسی ملاقات میں ماں جی نے والد صاحب کو کہا ”آپ کا بیٹا بہت محنتی ہے“۔

اس شام جب میں گھر پہنچا تو والدہ نے بتایا کہ تمہارے والد صاحب بہت خوش تھے ،یعنی میری صحافت اور کالم نویسی میرے کسی کام نہ آسکی مگر ماں جی کی کہی گئی ایک بات مجھے میرے والدین کے سامنے سرخرو کر گئی یہ چھ سال میں پہلی مرتبہ زبانی شاباشی کا سرٹیفکیٹ تھا جو مجھے میرے گھر والوں کی طرف سے ملا۔ماں جی کی علالت کی خبر سنی،قدوسی صاحب کا پیغام آیا دعا کیجیے،نورالحسن بھائی سے عطاالحق قاسمی صاحب کی سالگرہ کی تقریب میں ماں جی کا پوچھا کہنے لگے بہتر ہے دعا کیجیے۔

اس کے بعد اس خبر نے دل کو جکڑ سا لیا۔مجھے فون بھی آئے ،پیغام بھی ۔کیا بانو آپا والی خبر سچی ہے؟ میں کیا کہتا میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔کچھ دوستوں نے افسوس کا اظہار کیا۔میرے پاس ہاں اور ناں کے دو الفاظ تھے جو بڑی مشکل سے زبان تک آتے تھے۔میں شانی بھائی،افی بھائی ،نور بھائی،قدوسی جی،اثیر بھائی کس سے بات کروں اور کیا کہوں؟سوچتا ہوں اب کیسے داستان سرائے کے پاس سے گزروں گا؟
فروری کی اس رات بارش ہوتی رہی مگر میری آنکھیں خشک رہیں۔سوری ماں جی میں رو نہ سکا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :