خاموش جرم کا اقرار !

اتوار 5 فروری 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ مارچ 2009کی بات ہے۔ امریکہ کی دو صحافی خواتین غیر قانونی طور پر شمالی کوریا میں داخل ہو گئیں۔ دونوں خواتین کا تعلق امریکہ کے ایک نجی ٹی وی چینل سے تھا،کورین گورنمنٹ نے غیر قانونی داخلے کی وجہ سے دونوں خواتین کو گرفتار کر لیا ۔جیسے ہی یہ خبر عالمی میڈیا پر نشر ہوئی امریکہ میں طوفان بر پا ہو گیا ،سارا امریکی میڈیا چیخ اٹھا ،امریکہ بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے اور امریکی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔

اوبامہ انتظامیہ فورا حرکت میں آئی ،سابق صدر بالکلنٹن کو تیار کیا گیااور اگلے ہی روز بالکلنٹن شمالی کوریا میں موجود تھے ۔ان دنوں امریکہ اور شمالی کوریا کے تعلقات کشیدہ تھے مگراس کے باوجود امریکی حکومت نے شمالی کوریا کو خواتین کی رہائی کے لیئے تیار کر لیا ۔

(جاری ہے)

ان دنوں اخبارات میں جو تصویر چھپی وہ جذبات سے لبریز تھی ،بالکلنٹن نے ان خواتین کو سینے سے لگایا ہوا تھا اور خواتین کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

بالکلنٹن ان خواتین کو واپس اپنے ساتھ لے کر آئے اور ائیر پورٹ پر ہزاروں افراد نے ان کااستقبال کیا ۔یہ تصویر کا ایک رخ تھا تصویر کا دوسرا رخ عافیہ صدیقی ہے جو گزشتہ دس سال سے امریکی جیل میں پڑی اپنی زندگی کے دن پوری کر رہی ہے۔
پاکستان کے ”موسٹ امپورٹڈ“ سوالوں میں سے ایک سوال یہ ہے کہ 2003میں عافیہ کی گرفتاری، گمشدگی اور 2010میں سنائی جانے والی سزا اور اب 2017 تک پاکستانی گورنمنٹ ، میڈیا اور عوام نے کیا کیا؟کیا عافیہ کیس کے حوالے سے گورنمنٹ، دفترِ خارجہ اور امریکہ میں موجود پاکستانی سفارت خانے نے اپنے فرائض ادا کیے اور کیا پاکستانی میڈیا نے عافیہ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے کوئی مہم چلائی؟ کیا عوام نے عافیہ کی رہائی کے لیے آواز بلند کی؟میں سمجھتا ہوں ہم،ہمارے حکمران،ہماری اسٹبلشمنٹ،ہمار ا میڈیا اور ہمارے عوام ہم سب اس جرم میں ملوث ہیں اور آج ہمیں اس ”خاموش جرم“ کا اقرار کرنا چاہئے۔

ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہئے اور آج ہمیں اس جرم کی تلافی کے لیئے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری گورنمنٹ نے شروع سے ہی اس کیس کو سیریس نہیں لیا ۔ عافیہ کیس میں میڈیا کا کردار بھی بڑا مایوس کن رہا۔اس سارے کیس میں عوام کی بے حسی پر سب سے زیادہ دکھ ہوتا ہے ۔ آزاد اور جمہوری ممالک میں دس دس لاکھ لوگ اکٹھے ہو کر ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاوٴس کا گھیراوٴ کر لیتے ہیں مگر ہمارے ہاں مفاد پرستی، خود غرضی اور عافیت پسندی کا دورہے اور ہم پوری قوم مفاد پرستی، بے ضمیری اور بے حسی کی چادر اوڑھ کر سوئے ہوئے ہیں اور اس وقت تک سوئے رہیں گے جب تک دشمن کے ہاتھ ہماری اپنی ماوٴں بہنوں تک نہیں بڑھ جائے۔

ہم اُمید کے پجاری، عزم و ہمت سے عاری، بیرونی قوتوں سے حالات کی بہتری کے خواہش مند اور محض سپنے دیکھنے والی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہم اپنے مفادات کے لیے بار بار اکٹھے ہوتے رہے، ہم نے ملین مارچ بھی کیے اور لانگ مارچ بھی،ہم نے ایک ایک لاکھ افراد کے جلسے بھی کیے اور پچاس ہزار افراد کی ریلیاں بھی نکالی، ہم نے لوڈشیڈنگ کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور پٹرول مہنگا ہونے پربھی سڑکوں پر نکل آئے، ہم نے گیس کی قلت کے خلاف بھی مظاہرے کیے اور الیکشن کے سلسلے میں منعقدہ جلسوں میں بھی بڑے جوش و خروش سے شامل ہوتے رہے، ہم نے ریمنڈ ڈیوس کے خلاف بھی مظاہرے کیے اور سلالہ حملے پر بھی امریکہ کو معافی مانگنے پر مجبور کیا، ہم نے ڈرون اٹیک کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور مہنگائی کا بھی رونا روتے رہے، ہم نے نیٹو سپلائی کو چھ ماہ تک بند رکھنے میں طوفانی لانگ مارچ کیے اور ہم نے انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے خلاف بھی واہگہ باڈر پر جا کر بھارتیوں سے اعلان نفرت کیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا عافیہ کے لیے بھی کبھی ہم اکٹھے ہوئے؟ کیا ہم نے عافیہ کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کیا؟ گورنمنٹ سے لے کر میڈیا تک، انسانی حقوق کی تنظیموں سے لے کر این جی اوز تک، مذہبی اسکالرز سے لے کر بیورو کریسی تک کس نے کیا کیا؟ کیا کسی کے پاس اس”کیا“ کا جواب ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ عافیہ کیس میں پاکستانی گورنمنٹ، میڈیا اور عوام برابر کے ملوث ہیں اور انہوں نے مل کر عافیہ کیس کو بگا ڑا ہے۔

ہم ہر سال مارچ کے مہینے میں اکھٹے ہوتے ہیں ،عافیہ کی یاد میں شمعیں روشن کی جاتی ہیں ،موم بتیاں جلائی جاتی ہیں،ہمارے سیاسی اور مذہبی لیڈر مذمت کاریوں پر مشتمل بیان جاری کرتے ہیں ،کہیں کوئی سر پھرا سیمنار منعقد کر لیتا ہے اور یوں دو مارچ کا دن گزر جاتا ہے اور ہم دوبارہ اپنی روٹین میں مصروف ہو جاتے ہیں۔در اصل ہم وہ بد قسمت قوم بنتے جا رہے ہیں جو مردوں کی پجاری ہوتی ہے،ہم جیتے جی اپنے لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور جب وہ مر جاتے ہیں تو ہم ان کی یاد میں قبے اور مزار بنانا شروع کر دیتے ہیں ۔

ہم نے ارفع کریم کے ساتھ بھی یہی کیا اور خاکم بدہن ہم عافیہ کے ساتھ بھی یہی کرنے جا رہے ہیں۔
جمہوری حکومتوں میں بیورو کریسی کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے، بیوروکریسی کو چاہئے وہ گورنمنٹ کو عافیہ کے حق میں آواز اٹھانے پر مجبور کرے، صدر اور وزیر اعظم کو خط لکھنے پر مجبور کرے ۔مذہبی اسکالرز کو چاہئے کہ اپنے خطبوں میں عافیہ کا ذکر ضرور کریں۔

عافیہ کے متعلق عوام میں آگہی پھلائیں۔ این جی اوز اور ہیومن رائٹس کی تنظیموں کو چاہیے وہ اپنے دوہرے پن کے لبادے سے باہر آئیں۔انسانیت کو تعصب کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے مساوات کے آئینے سے دیکھیں۔ مختاراں مائی،آسیہ ،رمشہ اور ملالہ کے لیئے آواز بلند کرنے والی این جی اوز اور ہیومن رائٹس کی تنظیموں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ عافیہ کے حق میں جانبدارانہ رویہ اختیار کریں۔

اسٹوڈنٹس طبقہ کسی بھی معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے۔دوران تعلیم کام کرنے کے مواقع بھی میسر ہوتے ہیں اور خون بھی گرم ہوتا ہے۔سہولیات بھی میسر ہوتی ہیں اور وقت بھی وافر مقدار میں دستیاب ہوتا ہے۔لہذاعافیہ کے لیئے ہر اسٹوڈنٹ کو اپنے حصے کا چراغ جلانا ہو گا۔اپنے کالج اور یونیورسٹی میں عافیہ مہم چلائیں،عافیہ پر سیمینار کروائیں،فیس بک پرعافیہ کے نام سے ایک پیج بنا کر اس کو عام کریں۔

زیادہ سے زیادہ دوستوں کو اس پیج سے منسلک کریں اور سوشل میڈیا کی اثر انگیزی کو مدنظر رکھتے ہوئے گورنمنٹ پر دباوٴ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ہفتے میں ایک دن کلاسز سے علامتی واک آوٴٹ کریں اور ہفتے میں ایک دن چھٹی کے بعد سب جمع ہو کر امریکی سفارت خانے کے سامنے جا کر اپنا احتجاج ریکاڈ کروائیں اور عافیہ کی رہائی تک چین سے نہ بیٹھیں۔عافیہ رہائی کیس میں سول سوسائٹی کا کردار بھی بڑا اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ہر گلی ،محلے اور ہر گھر تک عافیہ کا تذکرہ عام کریں۔اپنی دعاوٴں میں عافیہ کو ضرور شامل کریں۔یہ وہ چند راسے ہیں جن پر چل کر ہم عافیہ تک پہنچ سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :