شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے!

اتوار 29 جنوری 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ہم دہلی سے جنوب مشرق کی طرف جائیں تو 580 کلو میٹر کے فاصلے پر آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی اور رقبے کے لحاظ سے پانچویں بڑی ریاست اتر پردیش واقع ہے۔اتر پردیش جسے عموما یوپی کہا جاتا ہے برصغیر کے مشہور دریاگنگا کے انتہائی زرخیز اور گنجان آباد میدانوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی سرحدیں ایک طرف نیپال اور دوسری طرف بھارت کی ریاستوں اترانچل، ہماچل پردیش، ہریانہ، دہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھاڑکھنڈ اور بہار سے ملتی ہیں۔

اتر پردیش کا انتظامی و قانونی دار الحکومت لکھنوٴ ہے جبکہ اعلیٰ عدالت الہ آباد میں قائم ہے۔ریاست کے دو بڑے دریا گنگا اور جمنا الٰہ آباد میں ملتے ہیں ،اترپردیش قدیم تاریخ اور قرون وسطی میں بھارت کی طاقتور سلطنتوں کا گھر تھا۔

(جاری ہے)

اس میں کئی تاریخی، قدرتی، مذہبی اورسیاحتی مقامات واقع ہیں جن میں آگرہ،وارانسی، رائے بریلی، کانپور، بلیا، گورکھپور، لکھنوٴ، جھانسی، الٰہ آباد، بدایوں، میرٹھ اور متھراشامل ہیں۔

مظفر نگرریاست اتر پردیش کا ایک اہم شہر ہے۔ یہ شہرمغل دور میں جاگیردار منور لشکر علی نے اپنے والد مظفر علی خان کے نام پر آباد کیا تھا۔25 دسمبر 1926ء کو مظفر نگر کے مشہور قصبہ حسن پورلوہاری کے ایک معزز خاندان میں ایک بیٹا پیدا ہوا، خاندان کا تعلق آفریدی پٹھانوں سے تھااور یہ خاندان پاکستان کے آزاد قبایلی علاقے خیبر ایجنسی سے ہجرت کر کے مظفر نگر آ کر آباد ہوا تھا۔

خاندان نے بیٹے کا نام سلیم رکھا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ بیٹا اپنے زمانے کا قطب او ر ولی ہو گا ،جی ہاں میں مولانا سلیم اللہ خان کی بات کر رہا ہوں ، مولانا سلیم اللہ خان کا آبائی علاقہ ضلع مظفر گڑھ کا قصبہ حسن پور تھا اور آپ کے آبا وٴ اجداد خیبر ایجنسی کے علاقے سے ہجرت کر کے اس جگہ آباد ہوئے تھے ۔
گزشتہ کچھ عرصے میں مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا عبد الحفیظ مکی یکے بعد دیگرے اپنے لاکھوں کروڑوں سوگواروں کو چھوڑ کرداعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔

پچھلے کچھ عرصے سے جس طرح صاحب علم اٹھ رہے ہیں اور علم کی گود خالی ہوتی جا رہی ہے تو محسوس ہو تا ہے ہم تیزی سے اس دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے بارے میں نبیء مہربان نے فرمایا تھا کہ قرب قیامت علم کو اٹھا لیا جائے گا ۔ پوچھنے والے نے سوال کیا تھا کہ اے اللہ کے نبی علم کے اٹھانے سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا تھا کہ میری امت کے علما ء کو اٹھا لیا جا ئے گا ۔

بلاشبہ ان دونوں حضرات کی وفات ایک عالم کی وفات تھی اور ان حضرات کے جانے سے علم کا ایک جہاں ویران ہو گیا ۔ ان حضرات کی وفات پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ،شاید میں نے پہلے بھی کسی کالم میں لکھا تھا کہ چار پانچ سال پہلے ملک کی ایک معروف علمی شخصیت کا انتقال ہو گیا ،میڈیا نے اس انتقال کو کوئی خاص کوریج نہ دی ۔ تقریبا ایک ماہ بعد میں لاہور میں ایک مشہور عالم کی خدمت میں حاضر ہوا ،وہ ابھی تک اس شخصیت کی وفات کے صدمے سے باہر نہیں آئے تھے ،وہ بار بار ان کا تذکرہ کرتے اور ان کی باتیں دہراتے ،مجھے کچھ مبالغہ آرائی محسوس ہوئی تو میں نے عرض کیا ” حضرت ہر انسان نے اس دنیا سے جانا ہے اور وہ بھی ایک انسان تھے تو افسوس کس بات کا “ وہ بولے ” بات انسان کی نہیں علم کی ہے ، ایک عام آدمی جب دنیا سے جاتا ہے تو وہ اکیلا ہوتا ہے لیکن جب ایک عالم کی وفات ہوتی ہے تو پورا علم کا ایک جہا ن ہوتا ہے جو اس کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے ،علم کی گود پچاس ساٹھ سال پرورش کے بعد ہمیں ایک ہیرا تراش کر دیتی ہے اور ہم اگلے ہی لمحے اسے کھو دیتے ہیں “ انہوں نے مزید وضاحت کی ” تم اپنے چوبیس میں سے کتنے گھنٹے علم اور تعلیم پر خرچ کرتے ہو “ میں نے عرض کیا ” میں چوبیس میں سے تقریبا سولہ گھنٹے علم اور تعلیم سے متعلقہ سرگرمیوں پر خر چ کرتا ہوں “ وہ بولے ” سولہ گھنٹے دینے کے باوجود تمہارے پاس کتنا علم ہے ، تم کس فن میں ماہر ہو ، تمہاری کتنی تصانیف ہیں ، کتنے لوگوں نے تم سے استفادہ کیا اور تمہارے کتنے شاگرد ہیں “ اتنے سارے سوالو ں کے جواب میں میرا جواب صفر تھا ،وہ بولے ” خود اندازہ لگاوٴ سولہ گھنٹے علم اور تعلیم پر خرچ کرنے کے باوجود تمہارے پا س علم کی الف اور ب بھی نہیں اور اگر تم مزید تیس چالیس سال بھی جی لو تب بھی تمہارا یہی حال ہو گا اور تب بھی تم اسی جگہ پر کھڑے ہو گے لیکن یہ جو شخصیا ت گئی ہیں تمہیں اندازہ نہیں کہ وہ کتنے بڑے صاحب علم اور کتنے بڑے عالم دین تھے ،ان کی علم، تعلیم ، قرآن ،حدیث ،فقہ اور دیگر علو م وفنون میں کتنی خدمات تھیں کیا تم یہ سب جاننے کے بعد بھی اسے ایک عام شخصیت کا انتقال کہو گے “ اس دن مجھے سمجھ میں آیا کہ ایک عالم کی موت عالم کی موت ہوتی ہے اور ایک عام انسان اور ایک علمی شخصیت کے انتقال میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے چوبیس میں سے بائیس گھنٹے اور ساٹھ میں سے پچاس سال علم ، علم اور صرف علم پر خرچ ہوتے ہیں ،یہ لوگ دن رات علم کا دیپ جلاتے ہیں ،یہ لوگ سراپا علم ہوتے ہیں اور علم کو ان پر ناز ہوتا ہے ، یہ لوگ اٹھتے بیٹھتے ،بات چیت اور گفتگو کے دوران بھی علم کی گھتیاں سلجھاتے ہیں ،یہ لوگ حقیقت میں انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ، یہ لب کھولیں تو علم کے موتی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرتے چلے جاتے ہیں ،یہ علم میں اس قدر مستغرق ہوتے ہیں کہ ان ذات بذات خود علم بن جاتی ہے اور ایک لمحے میں ان کی ذات کے روئیں روئیں سے علم کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی امت کی اصلاح و فلاح کے لیے خرچ کر دیتے ہیں ،جن کا ایک ایک پل انسانیت کی فکر میں گزرتا ہے جن کی اپنی کوئی ذاتی زندگی اور ذاتی ترجیحات نہیں ہوتیں ،جب جہاں اور جس وقت مخلوق خدا کی خدمت اور دین اسلام کی سربلندی کا معاملہ درپیش ہو یہ لوگ وہاں کھینچے چلے آتے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جن کے دم سے قرون اولیٰ کی درسگاہیںآ باد ہیں ،جن کے دم سے حدیث کی مسندیں آباد ہیں او ر جو خواب بھی دیکھیں تو خواب میں رسول اللہ کی زیارت کرتے ہیں اور جو اس دنیا سے جاتے ہوئے بھی قال اللہ و قال الرسول کا ورد کر رہے ہوتے ہیں۔

اور اگر جانے والے مولنا اشرف علی تھانوی ، مولانا حسین احمد مدنی اور مولاناانور شاہ کشمیری اور مولانا الیاس کی نسبتوں کے امین ہوں تو پسماندگان کا دکھ سوا ہو جاتا ہے ۔ یہ لوگ امت کا مشترکہ سرمایہ ہوتے ہیں اور انہی لوگوں کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا :
تیری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں ، صْبح کے نالے بھی گئے
دِل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صلہ لے بھی گئے
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عْشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
اَب اْنہیں ڈْھونڈ چراغِ رْخِ زیبا لے کر

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :