جیسے عوام ۔۔۔۔ویسے حکمران

جمعرات 26 جنوری 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

میرے کالم وہ باقاعدگی سے پڑھتا ۔۔ لیکن جب بھی ملتا ۔۔ کہتا کہ کبھی کوئی کام کی بات بھی لکھو ۔۔ یہ پانامہ ۔۔ سیاست نامہ ۔۔ جھوٹ ۔۔ فریب ۔۔ ظلم ۔۔ سچ ۔۔ ایمانداری ۔۔ غیرت اور بے ایمانی سے تم کیا نکالنا چاہتے ہو ۔۔ ظالموں ۔۔ سود خوروں ۔۔ منافقوں اور بے ایمانوں سے آگے بھی تو جہاں اور ہے ۔۔ لکھنے کے تو اور بھی بہت کام ہیں ۔۔ ہم لوگ صبح سے شام تک دکان میں بیٹھے رہتے ہیں ۔

۔ حکومت کی طرف سے ہمارے لئے کوئی مراعات نہیں ۔۔ سال کے 365 دن بغیر کسی چھٹی و ناغے کے ہم لوگوں کی خدمت کرتے ہیں ۔۔ کیا ہمارا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ حکومت کی طرف سے سال میں ہمیں کوئی ایک گولڈ میڈل ۔۔ تمغہ شجاعت یا کوئی تمغہ خدمت دیا جائے ۔۔ آج جب پھر میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ معمول کے مطابق مجھے انہی باتوں کا درس دیئے جانے لگے ۔

(جاری ہے)

۔ میں پچھلے ایک گھنٹے سے اس کے پاس بیٹھ کر ایک کان سے اس کے یہ مفت مشورے سن اور دوسرے سے ایمرجنسی کی صورت میں نکال رہا تھا ۔

۔ وہ بولتے پر بولتے جارہا تھا ۔۔ اس کی ڈائری میں سٹاپ کا کوئی لفظ اور زبان میں تھکاوٹ کا کوئی مادہ ہی نہیں۔۔ ہمارے جیسے اچھے بھلوں کو بھی اپنی نان سٹاپ باتوں اور گفتگو کے ذریعے چند گھنٹوں میں نیم پاگل کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کام ہے ۔۔ اس لئے ہر کوئی اس سے کنارہ کرنے کی سر توڑ کوشش کرتاہے ۔۔ اور جو میری طرح جال میں پھنس جائے وہ پھر مچھلی کی طرح تڑپتا ہی رہتاہے ۔

۔ شہر کی مشہور جگہ پر اس کی دودھ کی دکان ہے ۔۔ یہ بات پورے شہر میں مشہور ہے کہ اس کی دکان پر خالص اور تازہ دودھ آتا ہے ۔۔ ایک گوالہ جونہی بھینسوں سے دودھ نکالتاہے فوراً ایک بڑی گاڑی کے ذریعے اس کی دکان پر پہنچاتاہے۔۔جس کی وجہ سے خالص اور تازہ دودھ کی آس میں شہر کے اکثر لوگ اس کی دکان کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں ۔۔ اکثر اوقات تو اس کی دکان کے آگے اتنی بڑی لائن لگی ہوتی ہے کہ جسے دیکھ کر یوں لگتاہے کہ جیسے یہاں کوئی لنگر تقسیم ہورہا ہو۔

۔ اس دن اس نے ابھی تک دودھ بیچنے کاکام شروع نہیں کیا تھا کیونکہ تھوڑا ٹائم ہی ہوا تھا کہ اس نے دودھ کو گاڑی سے اتارا تھا ۔۔ اس دوران جو کوئی دودھ لینے کیلئے آتا ۔۔ یہ کہتا کہ دودھ نہیں ۔۔ تھوڑی دیر بعد آئیں ۔۔ وہ ایک طرف دودھ کی سیٹنگ کررہا تھا اور دوسری طرف اپنی لمبی زبان سے میرا مغز کھپائے اور کھائے جارہا تھا ۔۔ اچانک اس نے،، پانی،، کی ایک بھری بالٹی دودھ میں ڈالتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں نواز شریف جیسے چور اور کرپٹ حکمرانوں سے کب ہماری جان چھوٹے گی ۔

۔؟ اس کی یہ بے ایمانہ حرکت دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا ۔۔ میں فوراً بولا ۔۔ جب تک دودھ میں پانی ڈالنے کا سلسلہ جاری رہے گا ۔۔ اس وقت تک چوروں ۔۔ ڈاکوؤں ۔۔ سود خوروں ۔۔ بے ایمانوں ۔۔ نوسربازوں اور ظالموں سے کبھی ہماری جان نہیں چھوٹے گی ۔۔ میری بات اس کو بہت بری لگی ۔۔ اور لگنی بھی تھی ۔۔ جو مختصر الفاظ میں ۔۔ میں نے اس کی تعریف بیان کر دی تھی ۔

۔ غصے سے لال پیلے ہوکر وہ بولے کہ اگر 50 کلو دودھ میں پانچ دس کلو پانی ڈال دیا ۔۔ تو اس سے کیا ہوتا ہے ۔۔ ؟ میں نے کہا یہی بات تو چور اور لٹیرے حکمران بھی کرتے ہیں ۔۔کہ اگر 50 ۔۔100 ارب میں 10 بیس ارب سوئس بنکوں میں رکھے یا آف شور کمپنیوں میں لگا بھی دئیے تو اس سے کیا ہوتا ہے ۔۔؟ وہ بولے ۔۔ کروڑوں اور اربوں سے تو بہت کچھ ہوتا ہے ۔۔ پر یہاں ان ہزار دو ہزار سے کچھ نہیں ہوتا ۔

۔ میں نے کہا ۔۔ کیا آپ نے نہیں سنا قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے ۔۔ واہ جی واہ ۔۔ نواز شریف اور آصف زرداری کی چوری تو کسی کو نظر نہیں آرہی ۔۔ ہماری چھوٹی سے مجبوری پر ہر کوئی آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے ۔۔ ہم اگر دودھ میں تھوڑا سا پانی بھی نہ ڈالیں تو کمائیں گے پھر کیا ۔۔ وہ دوبارہ سٹارٹ ہوئے ۔۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔ چور نواز شریف ہو ۔۔ آصف زرداری ۔

۔ یا آپ ۔۔ چور چور ہوتا ہے ۔۔ چور کیلئے چھوٹے بڑے۔۔ عمر ۔۔قوم اور قبیلے کی کوئی قید نہیں ۔۔ آپ جیسے بے ایمان لوگوں کی وجہ سے تو چور اور ڈاکو حکمرانوں سے اس ملک کے غریبوں کی بھی جان نہیں چھوٹ رہی ۔۔ اللہ پاک تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔۔ وہ غفور و رحیم ذات تو ستر ماؤں سے بھی زیادہ اپنے ایک بندے سے پیار کرتا ہے ۔۔ آج ہم پرجو چور اور کرپٹ حکمران مسلط ہیں یہ ہمارے انہی دو نمبر اعمال کا نتیجہ ہے ۔

۔ جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی ان پر حکمران بھی مسلط کر دئیے جاتے ہیں ۔۔ آج ہم نوازشریف ۔۔ آصف علی زرداری اور دیگر سیاستدانوں اور حکمرانوں کی طرف انگلیاں تو اٹھا رہے ہیں لیکن اپنے گریبان میں ذرہ بھی نہیں جھانکتے ۔۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی چوری تو ہمیں نظر آرہی ہے لیکن دودھ میں پانی ۔۔ چائے میں مٹی ۔۔ شہد میں چینی ۔۔ ڈالڈے میں چربی ۔

۔ کباب میں اوجڑی ۔۔ بیسن میں آٹا اور آٹے میں چوکر ملاتے ہوئے ہمیں ذرہ بھی ہوش اور خدا کا خوف نہیں ہوتا ۔۔۔ دس کلو دودھ میں پانچ کلو پانی ڈالنا کیا یہ چوری نہیں ۔۔ آج اس ملک میں عام سے خواص تک جس کا جتنا بھی بس چلتا ہے وہ اتنا ہی ہاتھ مارتا ہے ۔۔ 50 کلو دودھ میں 20 سے 30 کلو پانی ڈالنے والا اگر نواز شریف اور آصف علی زرداری کی جگہ پر ہو تو کیا وہ ایماندار اور امانت دار بن جائے گا ۔

۔؟ نہیں ہر گز نہیں ۔۔ وہ تو پورا خزانہ چند دنوں میں ہی پانی پانی کر دے گا ۔۔ جو شخص چند ٹکوں کیلئے ایمان اور ضمیر بیچنے سے دریغ نہیں کر رہا ۔۔وہ کروڑوں اور اربوں کے سامنے پھر ایمان کو کیسے بچا پائے گا ۔۔؟ جب تک ہم دس روپے کی چوری سے ہاتھ پیچھے نہیں کھینچتے ۔۔ اس وقت تک کروڑوں اور اربوں کی چوری کا راستہ نہیں روکا جا سکتا ۔۔ چور حکمرانوں سے جان چھڑانے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود ان چوریوں اور چکاریوں سے باز آجائیں ۔

۔ جب تک ہم خود چوروں کا جبہ و دستار اپنے بدن سے اتار نہیں پھینکتے ۔۔اس وقت تک ایک کے بعد ایک چور سے ہمارا واسطہ پڑے گا ۔۔ جس دن ہم نے دودھ میں پانی ۔۔ شہد میں چینی ۔۔ چائے میں مٹی ۔۔ ڈالڈے میں چربی ۔۔ کباب میں اوجڑی ۔۔ بیسن میں آٹا اور آٹے میں چوکر کی ملاوٹ کو چوری اور گناہ سمجھا۔۔آپ یقین کریں اسی دن ہی ہماری ان چور حکمرانوں سے جان بھی چھوٹ جائے گی ورنہ دودھ میں پانی ڈالتے ہوئے اگر ہم ایک نہیں لاکھ باربھی یہ کہتے رہیں کہ ان چور حکمرانوں سے کب ہماری جان چھوٹے گی تواللہ کی قسم اس طرح قیامت تک بھی چوروں اورلٹیروں سے ہماری جان کبھی نہیں چھوٹے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :