اوم پوری ۔ایک سچا آدمی

پیر 23 جنوری 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

اس میں کوئی شک نہیں کہ آنجہانی اوم پوری بہت عظیم انسان تھے۔ ان کی دلیری بلاشبہ قابل رشک تھی۔ ان کی سوچ قابل فخر تھی۔ وہ ظلم اور استبداد کے خلاف ایک روشن مثال بنے۔ انہوں نے ہمیشہ حق بات کہی۔ سچ کا بول بالا کیا۔ جبر کے خلاف آواز بلند کی۔بھارتی مظالم کا پول کھول دیا۔ اس نام نہاد سیکولر جمہوریت کی بیچ چوراہے میں ہانڈی پھوڑ دی۔ انکی عظمت کا اندازہ انکے آخری انٹرویوز سے لگایا جا سکتا ہے۔

انکی ذہانت انکی گفتار سے عیاں تھی۔ بے شک وہ ایک لازوال شخصیت کے مالک تھے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ایک اچھے اداکار بھی تھے۔ بے شک انبالہ میں ایک چھوٹے سے کھوکے پرچائے بیچنے سے انہوں نے زندگی کا آغاز کیا اور شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر تھیٹر میں چھوٹے موٹے کردار بھی ادا کئے۔

(جاری ہے)

یہ بھی کوئی اہم بات نہیں کہ پنجابی تھیٹر کی مہان ڈائریکٹر نیلم مان سنگھ کی ان پر نگاہ پڑ گئی اور انہوں نے نوجوان اوم پوری کو فلم اور تھیٹر کی تعلیم کی جانب لگا دیا۔

اور انیس سو تہتر میں نیشل سکول آف ڈرامہ میں داخلہ کروا دیا۔ یہ بھی کوئی اہم بات نہیں کہ کہ اسی سکول میں اس وقت ایک اور ادکار نصیر الدین شاہ بھی زیر تعلیم تھے۔یہ بات بھی یقیناقارئین کی دلچسپی کی نہیں ہو گی کہ اوم پوری نے اپنے فلمی کرئیر میں بالی وڈ کی ستر فلموں میں کام کیا۔اس کے علاوہ بہت سے ٹی وی سیریل، اور ڈراموں میں بھی کام کیا۔

انہوں نے ہالی وڈ کی سات بڑی انگریزی فلموں میں کام کیا۔ٹھیک ہے وہ اپنی آواز اور چہرے کے تاثرات پر ایسا کنٹرول رکھتے تھے کہ بڑے بڑے ایکٹر ان کے سامنے پانی بھرتے تھے۔
لیکن اہم بات یہ کہ انہوں نے ایک پاکستانی فلم ایکٹر ان لاء میں کام کرنا قبول کیا۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پاکستان سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ انہوں نے پاکستانی ایکٹروں کے خلاف انڈیا میں چلنے والی مہم پر کھل کر بات کی۔

اپنے اداروں اور مودی حکومت کو توم کر رکھ دیا ۔ حتی کہ ایک انٹرویو میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مودی سرکار کے پاس جائیے اور بھرتی کیجئے بیس ، پچیس خود کش بمبار اور انہیں بھیج دیجئے پاکستان۔انہوں نے پاکستان کے ساتھ اپنے ملک کے تاریخی تعلقات پر بات کرتے ہو ئے یہ بھی کہا کہ وہ بھی ہمارے جیسے لوگ ہیں۔ ہمارے وہاں بھی رشتے ہیں۔اس گفتگو کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھارتی میڈیا کو بھی دونوں ملکوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا مورد الزام ٹھہرایا۔

وہ اکثر یہ کہتے تھے کہ نفرت پھیلانے میں شیوسنا جیسے درندوں کا ہاتھ ہے۔ فنکار اور فن کو ان وحشی درندوں سے پاک کرنا بہت ضروری ہے۔
اوم پوری اگر چہ ایک بھارتی فوجی کے بیٹے تھے۔ لیکن انہوں نے پاکستان میں شر انگیزی پھیلانے پر بھارتی فوج کے قبیح کردار پر بارہا بات کی۔ جب بھارت میں شیو سنا کے غنڈوں نے پاکستانی اداکاروں کے خلاف بھارتی میڈیا کے تعاون سے ایک غلیظ مہم شروع کی تو اس پر بھی اوم پوری سیخ پا ہو گئے اور انہوں نے ہر فورم پر ان غنڈوں کو بے نقاب کیا اور اپنا احتجاج جگہ جگہ ریکارڈ کروایا۔

ہندو انتہا پسندی اور مریضانہ ذہنیت پر انہوں نے کھل کر بات کی۔ ان سب باتوں کا ان کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ ہندو فلم کی لابی ان کے خلاف سر گرم ہو گئی۔ شیو سنا کے غنڈے ان کے تعاقب میں رہنے لگے۔ان کو زدوکوب کرنے کی مجرمانہ کوششیں بھی کی گئیں۔ ان کی فلموں کے خلاف پابندی لگانے کی مہم بھی چلی۔ان کا سوشل بائیکاٹ بھی کیا۔ لیکن آنجہانی اپنی دھن کے پکے رہے۔

ہمیشہ سچ بات کی اور اپنے لازوال اصولوں پر قائم رہے۔
مرحوم بہت ہی سادہ لوح طبیعت کے آدمی تھے۔ ہنس مکھ اور ملنسار ۔ لباس کے معاملے میں بھی بے پرواہ تھے۔ کھانے پینے کے معاملے میں بہت زیادہ تکلفات کے عادی نہیں تھے۔ جہاں بیٹھ گئے سو بیٹھ گئے۔ دوستوں کی محفل جم گئی۔ مشروبات کے استعمال میں البتہ کچھ وسیع القلب تھے۔ لیکن یہ انکی ذات کا معاملہ ہے۔

انکے دھرم کا مسئلہ ہے ۔ ہمیں اس معاملے کچھ نہیں لینا دینا ہے۔
اصل بات اس قصے میں یہ ہے کہ اوم پوری پاکستان کے دوست تھے۔ وہ اپنے ملک کی حکومت پر یہاں آکر تنقید کرتے تھے۔ظلم اور جبر کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔اپنے انٹرویوز کے باعث وہ جلد ہی پاکستان میں ایک ہیرو بن گئے تھے۔ان کی شخصیت ہمارے لئے باعث رحمت ہو گئی تھی۔ ہم ان کو تمغے کی طرح سینے پر سجا کر رکھتے تھے۔

ان کے انتقال کے بعد پورے پاکستان میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی۔ انکی موت کا شہر شہر ماتم کیا گیا۔ انکو بہادری کے ایوارڈ پیش کئے گئے۔ انکے حوصلے ، جرات اور صداقت کو جگہ جگہ سلام پیش کیا گیا۔ انکی یاد میں پروگرام کئے گئے۔ انکے تعزیتی ریفرنس منعقد کئے گئے۔ چینلوں پر انکی تدفین بریکنگ نیوز بن کر چلی۔انکی وفات کی خبر ہم پر بجلی بن کر گری۔

بے شک وہ ایک عظیم آدمی تھے۔ سچ بولتے تھے۔ حق بات کرتے تھے۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ ہم اوم پوری کی عزت اس لیے کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے ملک کے دفاع کے لئے اپنے ملک کی برائی کی، اپنی حکومت پر تنقید کی، اپنے ا داروں کی کمزوریوں پر روشنی ڈالی۔ اپنے میڈیا کی خامیوں کی نشاندہی کی۔ اپنی شدت پسند جنتا کو خوب برا بھلا کہا۔ فرض کریں اور صرف ایک لمحے کے لیئے فرض کریں کہ یہ عمل کسی پاکستانی سے سرزد ہوتا ۔

وہ ہماری رگ رگ میں بسی شدت پسندی کے بارے میں ملکوں ملکوں بات کرتاتو ہم اس کے ساتھ کیا کرتے۔مجھے علم ہے کہ ایسا شخص چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہیرو کیوں نہ ہوتا ہم اس کو ذلیل و رسوا کرتے ، اس کو کم از کم غدا،ر غدار ضرور کہتے۔ اس کی جان کے درپے ہو جاتے۔ اس پر جانے کتنے ہی قاتلانہ حملے ہو جاتے۔ میڈیا بھی اسکا بائیکاٹ کر چکا ہوتا۔ اس پر جانے کتنی ہی ایف آئی آرز درج ہو چکی ہوتیں۔ اس کی ذاتی زندگی کے کتنے سکینڈل سرعام ہو چکے ہوتے۔ لیکن شکر ہے ایسا نہیں ہوا ۔ اس لیئے نہیں کہ ہم بہت اچھے لوگ ہیں بلکہ اس لیے کہ ہم میں اب تک ویسا ایک بھی سچا آدمی موجود نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :