جمعہ خان صوفی کا پوراسچ مگر دیر سے۔ قسط نمبر 4

پیر 23 جنوری 2017

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

محترم قارائین جمعہ خان صوفی کی کتاب” فریب ِ ناتمام“ پر بات شروع کرنے سے پہلے اُس تاریخی بیان کو پاکستان کے عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں جو بھارت کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی نے ٹھیک اُس وقت جب تحریکِ پاکستان قائد  کی زیرِ کمان زوروں پر تھی تو فرمایا تھا” مجھے پاکستان بننے پر ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ بلکہ مجھے خوف تو اُس دن سے ہے جب پاکستان بن جائے گا اور مسلمانوں کے سمندر میں مل جائے گا“ یہ مسلمانوں کا سمندر کیا ہے؟آپ دنیا کے نقشے پر نظر ماریں تو پاکستان کے مشرق میں مسلمان حکومتیں، انڈونیشیا ، ملیشیا ،برونئی اور بنگال، مغرب میں عرب ممالک، شمال میں وسط ایشیاء کے ممالک اور جنوب میں براعظم افریقہ،یہ ہے مسلمانوں کا سمندر۔

بنیے نے پاکستان بننے سے بہت پہلے سرحدی گاندھی کے خاندان کو اپنا ہم نوا بنا چکا تھا ۔

(جاری ہے)

سرحدی گاندھی کو افغانستان اور صوبہ سرحد کے پشتونوں پر مشتمل پشتونستان ریاست بنانے کا سبز باغ دکھایا تھا۔ اس خاندان کے لوگ ہندوؤں کی ودھیا اسکیم کے تحت مندروں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے۔ ڈاکٹر خان کی سکھوں سے رشتہ داری تھی۔ اسی لیے توکانگریسی خان عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی کہتے تھے۔

اُدھر افغانستان والے پختونستان کی لالچ میں ان کو بابائےِ پختونستان کہتے تھے۔کانگریسی ہونے اور گاندھی جی کے نظریاتی شاگرد کی بدولت گاندھی جی نے افغانستان کو پاکستان کا مخالف بنانے کے لیے سرحدھی گاندھی، عبدالغفارخان کو لگایا تھا۔ بنیا اس خاندان پرپہلے ہی سے سرمایا کاری کرتا رہا تھا۔ صوبہ سرحد میں ولی خان کے بھائی ڈاکٹر خان کی حکومت بنانے میں اس خاندان کی مدد بھی کی تھی۔

اس سرمایا کاری کا فائدہ بھارت پہلے بھی اُٹھاتا رہا ہے اور اب بھی اُٹھا رہا ہے۔ جمعہ خان کی کتاب فریب ِ ناتمام اسی بہرام خان کے خاندان کے ا رد گرد گھومتی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے المیے کی ابتدا نیشنل عوامی پارٹی،خصوصاً ولی خان کا۱۹۷۳ء میں بھٹو کیخلاف جنگ شروع کرنے سے پیدا کردا ہے۔ پاک افغان تنازہ میں بھٹو کا فسطائی ذہن بھی شامل ہے۔

جنگ ہارنے کے بعدآخرمیں ولی خان عدم تشدد کا راگ الاپنے لگتے ہیں ۔ تقسیم ہند وپاک سے کچھ عرصہ پہلے ولی خان کے بڑے بھائی غنی خان کی سرکردگی میں” پختون زلمے“نامی تنظیم قائم ہوئی تھی۔ ۱۹۷۰ء میں اس کامرکزی دفتر یونیورسٹی روڈ پر بنایا گیا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت سرحدی گاندھی کی وجہ سے افغانستان نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

قوم پرست سردارداؤد نے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ ۱۹۷۳ء میں الٹ دیا۔ سردار داؤدپختونستان کے حامی تھے۔ریڈیو کابل سے پاکستان کے خلاف اور آزاد پختونستان اور گرایٹربلوچستان کے نام پروپگنڈا ہو تارہا تھا۔اجمل خٹک کابل میں موجود تھے۔ داؤد حکومتی اہلکاروں کی اجمل خٹک سے مسلسل ملاقاتوں سے لگتا تھا کی اجمل خٹک داؤد حکومت کے حصے دار ہیں۔

سردار داؤد نیپ کی عملی مدد کر رہا تھا۔ اسی دوران جمعہ خان صوفی سردار داؤد کا پیغام لے کر پاکستان میں ولی خان کے گھر، ولی باغ آیا اور پیغام پہنچایا کہ داؤد خان نے پختون زلمے کے نوجوانوں کو افغانستان میں ٹریننگ دینے کی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ولی خان نے مجھے کہا کہ واپس افغانستان جاؤ اور داؤد کو بتاؤ کہ پاکستان ایئر فورس کے کچھ پختون پائلٹ اپنے جیٹ طیارے اغوا کر کے افغانستان اتر جائیں گے تو وہ انہیں کہیں پاکستان واپس نہ کردے۔

۱۹۷۴ء مارچ میں پختون اور بلوچ ٹریننگ لینے کابل آنا شروع ہوئے۔ ان کو جلا ل آباد، کابل اور دیگان کیمپ میں ٹریننگ دی جاتی تھی۔و لی خان آنکھ کے علاج کے بہانے لندن جانے سے پہلے کابل آئے اور تمام تخریبی اور تربیتی پرگرامات کا خود معائنہ کیا اور آخری شکل بھی دی۔ پاکستان سے آئے نوجوانوں کی ٹریننگ لینے کے بعد پاسنگ آوٹ پریڈ میں ولی خان نے حصہ لیا۔

ولی خان قصر صدارت میں رہائش پذیر تھے۔ ولی خان نے سردار داؤد کو بتایا کہ پختون اور بلوچ نیپ کے ساتھ ہیں اورپاکستان کے خلاف بھر پور جنگ کے لیے تیارہیں۔ پاکستانی فوج مشرقی پاکستان میں بھارت سے شکست کے بعد کمزور ہ گئی ہے۔ ولی خان نے پاکستان کے مخالف ملکوں، بھارت، عراق اور سویت یونین کے سفراء سے ملاقاتیں بھی کیں۔ ٹریننگ لینے کے بعد تربیت یافتہ جوان پاکستان گئے اور تخریبی کاروائیاں شروع کی۔

شیر پاؤ کو قتل کیا گیا۔ لاہور واپڈا ہاؤس پر بم مارا گیا جس مین درجنوں بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ اس کے بعد فوج سے جھڑپیں شروع ہو گئیں فوج نے بھرپور کاروائی شروع کی۔ بھٹو حکومت نے نیب پر پابندی لگادی۔پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس پابندی کو جائز قرار دیا۔نیپ کے لیڈر جیل میں ڈال دیے گئے۔ان پر حیدر آباد ٹریبیونل میں غداری کامقدمہ بنایا گیا۔

اس سے قبل ایک پمفلٹ ”قومی جمہوری انقلاب“ کے عنوان سے اردو میں اجمل خٹک نے بھارت کے تعاون سے ایک کتابچہ شائع کیا تھا۔ اس کا جمعہ خان صوفی نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور مختصر دیباچہ بنام ”گولی کا جواب گولی“ لکھا اور اس کے ساتھ پختون زلمے کی کاروائیوں کی لسٹ بھی لگا دی جس میں حیات محمد شیر پاؤ کا قتل بھی شامل تھا۔ یہ پمپلٹ حکومت کے ہاتھ لگا اور اسی کو عدالت میں بھی پیش کیا تھا۔

بعد میں اجمل خان نے شیر پاؤ والے حصے کو قینچی سے کٹوا دیا اور مشہور کر دیا کہ بھٹو نے خود شیر پاؤ کو قتل کرایا ہے۔ اجمل خٹک بھارتی سفیر کے گھر جاکر ساری تفصیل بتاتے رہتے تھے۔ جمعہ خان صوفی لکھتے ہیں نیپ پرپابندی لگنے اور غداری مقدمہ کے بعد ولی خان کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور فوج سے معاملات طے کرنا شروع کیے۔ جنرل ضیاء نے بھٹو دشمنی کی وجہ سے نیب کے رہنماؤں کو جیل سے رہا کر دیا۔

غداری کا مقدمہ ختم کر دیا اسی دوران بیگم نسیم ولی نے اپنے کوڈ نام ”زڑہ ور خان“ کے نام سے سردار داؤد کو خط لکھا۔ یہ خط سردار داؤد کو پہنچایا گیا جس میں تحریر تھا کہ”ہم نے اپنا تیس سالہ پرانا راستہ ترک کر دیا ہے کیونکہ اب کوئی چارا نہیں۔وردی والوں کے ساتھ میرارابطہ ہے۔پنڈی مذاکرات میں جلال آبادکے طوطیوں(پختون زلمے) اور حیدر آباد کے شیروں( حیدر آبادجیل میں بند نیب کے رہنما) کے ذکر تک نہ ہوا۔

تین چار دن بعد نئی خوش خبری( بھٹو کا تختہ الٹنے کی) سے باخبر ہو جاؤ گے“یہ خط سردار داؤد کے سینے پر ایک اور وار تھا۔ سردار داؤد کو اپنے سارے اقدامات بیہودہ نظرآنے لگے۔ باچا خان، ولی خان اوربیگم نسیم ولی خان ضیاء الحق کے حکومت پر قبضے کے بعد اس سے ملتے رہتے تھے۔ پاکستان حکومت کے معافی کے عام اعلان کے ساتھ ہی پختون اور بلوچ جنگجو واپس پاکستان جانے لگے ۔

واپسی پر اسلحہ ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ اس پر کمانڈروں میں اختلاف پید ہو ئے۔ جمعہ خان اس بات پر لکھتے ہیں کہ میری نظرمیں پختون کی تمام تاریخ گھوم گئی ۔ جنگ کی صورت میں اکٹھے ہوتے ہیں فتح حاصل کرتے ہیں۔ لیکن مال غنیمت بٹورنے کے معاملہ میں فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتے ہے۔ جمعہ خان نے صحیح کہا ہے کہ یہ فریب ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔ گو کہ جمعہ خان صوفی پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں شریک رہا ہے اور پورا سچ بہت دیر بعد تحریر کیا مگر پھر بھی پاکستان کی تاریخ میں جمعہ خان صوفی کی کتاب” فریبِِ ناتمام“ ایک تاریخی دستا ویز کی حثیت رکھتی ہے۔

صاحبو! دکھ اس بات کا ہے کہ اس وقت بھی اسی گروپ کے لوگ پاکستان پر افغانستان میں دخل اندازی کا الزام لگاتے ہیں جبکہ کہ انہوں نے بھارت کی شہہ پر افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان توڑنے کی خودسازشیں کرتے رہے ہیں۔ پاکستان نے ان کی ساری پاکستان مخالف کاروائیوں کے باوجود ان کو معاف کر دیا۔ اے کاش! کہ پاکستان توڑنے کی ناکام کوشش کے بعد یہ لوگ پاکستان میں رہتے ہوئے پٹھان اور بلوچ قوم کی خوشحالی اور ترقی کے لیے کام کریں اسی میں ان کا اور ان کی قوموں کا فائدہ ہے۔ ایٹمی پاکستان ایک حقیقت ہے۔ اللہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :