ماسکو میں چند روز

پیر 16 جنوری 2017

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

نہ صرف یہ روس کے دارالحکومت ماسکو کا میرا پہلا وزٹ تھا بلکہ منفی سات ، آٹھ درجہ حرارت اور برف باری کے باوجود سوا کروڑ سے زیادہ آبادی کے وسیع و عریض شہر میں زندگی کو رواں دواں دیکھنے کا بھی پہلا اتفاق تھا۔ جب بھی آپ پہلی بار کسی نئے شہر یا ملک جاتے ہیں تو ماضی میں سنی ہوئی باتوں اور پڑھے ہوئے قصے کہانیوں کی بنیاد پر آپ کے ذہن میں اُس شہر یا ملک کے بارے میں ایک تصور بنا ہوا ہوتا ہے۔

پر اسرار یت، سرد مہری اور خوف جیسے الفاظ میرے روس کے بارے میں تصور کا حصہ تھے۔ امیگریشن کاوٴنٹر پر کم از کم پندرہ منٹ اُس لیڈی افسر نے میرے پاسپورٹ اور اُس پر لگے ہوئے روسی ویزے کی جانچ پڑتال میں صرف کئے۔ پشاور کے کارخانو بازار میں بکنے والی ” اعلیٰ“ کوالٹی کی روسی مصنوعات کی نسل سے تعلق رکھنے والے موٹے شیشے والے آلے سے پاسپورٹ اور ویزے کے جانچ پڑتال سے ایسا لگ رہا تھا موصوفہ کوئی گھڑی ساز ہے اور اسکے ہاتھ میں پاسپورٹ کے بجائے کوئی میڈ ان رشیا گھڑی ہے۔

(جاری ہے)

اس دوران موصوفہ وقفے وقفے سے اپنے سر کے عین اوپر لگے ہوئے ایک چھوٹے سے مانیٹر پر بھی نظر ڈال لیتی تھی۔ بہرحال محترمہ اپنے سامنے رکھے ہوئے پرنٹر سے دو عدد فارم پرنٹ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔میرے دستخط کروانے کے بعد فارم کی ایک کاپی مجھے دے دی اور دوسری اپنے پاس رکھ لی۔ میں نے شکر کیا کہ مرحلہ مکمل ہوا، مگر کہاں جناب۔ موصوفہ نے فون پر کسی سے بات کی اور ایک اور وردی والی عفیفہ نمودار ہوگئی اور مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔

رُخ سامان کلیکشن والے ہال کے بجائے واپس پیچھے کی طرف تھا۔اُس نے امیگریشن کی قطاروں کے پیچھے بنے ہوئے ویٹنگ ایریا میں انتظار کرنے کو کہا۔ یہاں میری طرح بہت سے دیگر ”مشکوک“ افراد بھی موجود تھے۔ ان مشکوک افراد میں، واحد پاکستانی میں تھا۔ تین بنگلہ دیشی طالب علم جو کسی روسی تعلیمی ادارے میں داخلے کے بعد پہلی بار ملک سے باہر نکلے تھے، سات آٹھ مصری اور اردنی، چند ترک، چند وسطی ایشیائی ریاستوں اور چند افریقی خواتین و حضرات یہاں موجود تھے۔

سپاٹ چہروں والی دو نوجوان خواتین افسران اور ایک سادہ لباس میں ملبوس مرد افسر ہاتھوں میں امتحانی گتے پکڑے باری باری ان ” مشکوک“ افراد کا امتحان یعنی انٹرویو کر رہے تھے۔ پروازوں کی آمد کی ساتھ مزید ” مشکوک“ افراد کی آمد کا سلسہ بھی جاری تھا اور یہاں جگہ کم پڑ رہی تھی، لہذا ہم پرانی” مشکوکوں“ کو ساتھ ہی موجود لفٹ کے ذریعے اوپر کی منزل پر ایک بڑے ہال میں پہنچادیا گیا۔

ہال میں رکھے ہوئے بورڈ پر ٹرانزٹ لاوٴنج لکھا ہوا تھااور ذرا دور مسافروں کی قطاریں لگی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ میں نے سوچا آج شاید زندگی میں پہلی بار کسی ناکردہ جرم کی بناء پر ڈی پورٹ ہونے کا مزہ بھی چکھنا پڑے گا۔ اسی اثناء میں ایئرپورٹ کے باہر انتظار کرتے میرے میزبان کا فون آگیا اسے میں نے صورتحال سے آگاہ کیا۔ بنگلہ دیشی طالب علموں کی حالت تھکن اور اندیشوں سے غیر تھی وہ وہاں کئی گھنٹوں سے بیٹھے ہوئے تھے اور امیگریشن افسر، ان کا انٹرویو بھی کرچکے تھے، اوپر سے بیچاروں کے موبائل فون رومنگ پر کام نہیں کر رہے تھے۔

میرے فون سے انہوں نے بنگلہ دیش فون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی اور شاید درپیش صورتحال بھی بتائی اس کا اندازہ مجھے ایسے ہوا کہ وہ بار بار ” جھمیلا“ اور ” شمشیا“ کے الفاظ استعمال کر رہا تھا۔ اسی اثناء میں میرے میزبان کا فون آگیا ، اس نے بتا یا کہ وہ پتا کر چُکا ہے کوئی سیریس مسئلہ نہیں ہے ، یہ روٹین کی ویریفیکیشن ہے۔ بہرحال ایک عفیفہ میرے پاس بھی امتحانی گتہ لے کر آگئی اور وہی سوال پوچھنے لگی جن کے جوابات میں کئی دن پہلے ویزہ درخواست فارم پر پہلے ہی لکھ چکا تھا۔

تین چار منٹ کے اِس انٹرویو کے دوران عفیفہ کا رویہ دوستانہ تھا اور لگ رہا تھا کہ جیسے کارروائی ہی ڈال رہی ہے۔ انٹرویو کے چندمنٹ بعد سادہ لباس میں ملبوس ایک افسر نے مجھے سامنے لگی ہوئی لمبی قطاروں کی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ میں نے سوچا ایک اور قطار ، مگر اچھی بات ہوئی کہ اس نے قطار کے بجائے سیدھا کاوٴنٹر پر پہنچادیا اور امیگریشن افسر نے انٹری اسٹیمپ لگا کر پاسپورٹ میرے حوالے کر دیا۔

اور یوں روس میں داخلے کی اجازت ملی۔دیگر ” مشکوک“ لوگ بھی اسی طرح روس میں داخل ہوتے رہے۔ اس ساری صورتحال کو دیکھیں اور تصویر کا ایک اور رُخ دیکھیں۔ جب میں ویزہ درخواست بمع انوٹیشن لیٹر لے کر روسی سفارتخانے پہنچا تو ویزا قونصل نے مجھے انتظار کے لئے کہا اور آدھے گھنٹے میں ویزہ لگا کرپاسپورٹ واپس کر دیا۔ یہ میرا پہلا اتفاق تھا کہ کسی سفارتخانے نے اتنی جلدی ویزہ لگا کر پاسپورٹ واپس کر دیا ہو۔

اس سے پہلے ایسا اتفاق ان دنوں ہوا تھا جب اسلام آباد میں ترکی کا سفارتخانہ اتاترک روڈ پر ہوا کرتا تھا، صبح دس بجے جمع کروایا ہوا پاسپورٹ دوپہر دو بجے ترکی کا ویزہ اسٹیمپ ہو کے واپس مل گیا تھا۔اس کو ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ جانچ پڑتال یا انٹرویو کا جو کام ویزہ درخواست کے وقت کر نا چاہئے تھا وہ ماسکو ایئر پورٹ پر ہوا۔آپ بھی سمجھ ہی گئے ہونگے ، روس ایسے ہی تو امریکہ اور مغرب سے پیچھے نہیں رہ گیا۔


ماسکو شہر، ڈوموڈیڈووو انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے تقریباً بیالیس کلومیٹر دور ہے۔ شہر سے ملانے والی ہائی وے کے دونوں اطراف برف سے ڈھکے ہوئے میدان اور درختوں کے جھنڈ نظر آتے ہیں۔ ماسکو شہر کی مرکزی شاہراہیں بلا شبہ فٹبال گراوٴنڈ جتنی چوڑی ہیں، اس کے باوجود اکثر اوقات ٹریفک جام کا منظر رہتا ہے۔ ماسکو کی سڑکوں پر میڈ ان رشیا کار ڈھونڈنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا پاکستان میں کوئی ایماندار پولیس افسر ۔

دنیا بھر کے لگژری برانڈز کی کاریں ماسکو کی چوڑی سڑکوں پر حکمران ہیں۔ پوری کوشش کے بعد اپنے قیام کے چوتھے روز ایک لاڈا کار نظر آئی۔ سوویت دور کی نشانیوں کی جگہ لگژری برانڈز اور جدید شاپنگ سنٹرز لے چکے ہیں۔ معیشت کی آزادی کے بعد کروڑ پتیوں اور لکھ پتیوں کی بڑی تعداد وجود میں آچکی ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کی طرح برانڈز کی محبت میں بھی گرفتار ہے۔

ماسکو کی زیر زمین میٹرو ٹرین بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ٹرینوں کی کھڑ کھڑاتی بوگیاں فوجی گاڑیوں کی طرح کھردری ہیں۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا وسیع نیٹ ورک ہے۔ مختلف آن لائن اور آن روڈ ٹیکسی سروسز بھی دستیاب ہیں۔ ریڈ اسکوائر، کریملن، آسمان کو چھوتی عمارتیں، کشادہ اور وسیع رہائشی علاقے، لگشری ہوٹلز ، پارکس، شہر کے بیچوں بیچ بہتا ماسکوا دریا اور ا سپارو ہلز ( لینن ہلز) نے ماسکو کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔

اسپارو ہلز سے اسلام آباد کے دامن کوہ کی طرح ماسکو شہر کا خوبصورت نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ ماسکو کی لومونوسوف اسٹیٹ یونیورسٹی کا وسیع و عریض کیمپس بھی اسپارو ہلز پر ہی واقع ہے۔ یہ یونیورسٹی دو سو چھپن سال پہلے تعمیر کی گئی تھی تاہم اس کی تعمیر اور توسیع کا سلسلہ مختلف ادوار میں جاری رہا۔ یونیورسٹی کی مین بلڈنگ بیالیس منزلہ ہے اسکی کل بلندی دوسو چالیس میٹر ہے۔

یونیورسٹی کی وسعتوں اور کشادگی کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ریاست کیسے اتنے برسوں تک اذہان کو قید کرنے میں کامیاب رہی۔
ترکی کے شہر استنبول کے بعد غیر مسلم یورپ میں ماسکو مسلم آبادی کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ اندازوں کے مطابق پچیس لاکھ کے قریب مسلمان اس شہر میں مقیم ہیں۔ ماسکو کی کل آبادی تقریباً سوا کروڑ ہے۔ روس بحیثیت مجموعی یورپ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہے۔

روس میں دو کروڑ سے زائد مسلمان مقیم ہیں۔ زیادہ تر روسی مسلمان تاتار، چیچن اور داغستانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم ماسکو میں دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں کے مسلمان بھی مقیم ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت سُنی ہے اور فقہ حنفیہ کی پیروکار ہے، اندازوں کے مطابق دس فیصد کے قریب مسلمان شیعہ ہیں جو زیادہ تر آذری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔شہر میں چار مسجدیں ہیں۔

شہر کی مرکزی مسجد مشہور اولمپک اسٹیڈیم کے قریب واقع ہے۔ اس مسجد کو ۲۰۰۵ میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ مسجد کی دوبارہ تعمیر پر سترہ کروڑ ڈالر ( تقریباً سترہ ارب پاکستانی روپے) سے زائد لاگت آئی۔ مسجد کی تعمیر کے لیے مسلمان روسی بزنس مین سینیٹر سلیمان کریموف نے دس کروڑ ڈالر ( تقریباً دس ارب پاکستانی روپے) کی رقم عطیہ کی۔ مسجد کی افتتاحی تقریب میں روس کے صدر ولاڈیمیر پوٹن، ترکی کے صدر رجب طیب اوردگان اور فلسطین کے صدر محمود عباس نے بھی شرکت کی۔

اس خوبصورت مسجد کمپلیکس میں اسلامک ایسوسی ایشن کے دفاتر، حلال کھانوں کا ریستوران ، حلال کھانوں کی ایک کینٹین اور حلال گوشت اور دیگر کھانے پینے کی اشیا ء کی فروخت کی ایک سپر مارکیٹ بھی ہے۔ مسجد کا نام کیتھیڈرل مسجد ہے ، اسے سنٹرل مسجد بھی کہتے ہیں۔کئی دیگر یورپی ممالک کی طرح یہاں بھی مسجد کے ساتھ حلال کھانوں کے ریستوران کا رواج ہے۔

بولشایا تاتارسکایا اسٹریٹ پر واقع ہسٹاریکل مسجد میں بھی ریستوران اور دوکانیں بنی ہوئی ہیں۔ پونے نو بجے سورج طلوع ہورہا تھا اور شام چار بجے غروب ہو رہا تھا، یعنی فجر کی نماز صبح ساڑھے سات ، آٹھ بجے پڑھی جاسکتی تھی اور عشاء شام چھ بجے کے قریب جبکہ ظہر دوپہر بارہ بجے، عصر دو بجے اور مغرب چار بجے۔ ماسکو میں کھانے کی ایک منفرد روایت چائے (قہوہ) سے آغاز ہے۔

کھانے کا آرڈر دیتے ہوئے قہوہ منگوا لیا جاتا ہے اور کھانے سے پہلے، کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد قہوے سے شغل جاری رہتا ہے۔ ان دنوں میں، میں نے نوٹس کیا کہ اس دوران پانی منگوانے والا میں واحد فرد ہوتا تھا، تمام مقامی لوگ پانی کے بجائے قہوے کی چسکیاں لیتے رہتے رہتے تھے۔ ووڈکا روسیوں کی زندگی کا لازمی جز ہے، مگر مسلمان عام طور پر محفلوں میں اسے پینے سے پر ہیز کرتے ہیں۔

ماسکو میں عجائب گھروں، پلانیٹیرین، تاریخی عمارتوں، گرجا گھروں سمیت بے شمار تفریحی مقامات ہیں۔ ہر طرح کی سستی اور مہنگی تفریح میسر ہے۔ مغربی یورپی ممالک کے برعکس اشیاء اور خدمات کی قیمتیں کم ہیں۔ اسی نسبت سے ہوٹلوں کے کرائے اور ریستوران میں کھانوں کی قیمتیں بھی کم ہیں۔ دیگر یورپی اور اکثر خلیجی ممالک کی طرح ماسکو میں بھی پولیس بہت کم نظر آتی ہے جو امن و امان کی مجموعی صورتحال کے بہتر ہونے کی علامت ہے۔

مجھے شہر کی سیر کروانے والے ڈرائیور کم گائیڈ ولادیمیر نے جو ” وووا“ کہلاتا تھا روس کے ماضی اور حال کے خوب قصے سُنائے۔ جب میں اپنی جنرل نالج جھاڑتے ہوئے روس سے متعلق کوئی بات کر تا تو وووا بڑے جوش سے روسی زبان میں دادادادا (ہاں ہاں یا انگریزی میں یس یس) کہتا اور ساتھ ہی گاڑی کی رفتار اور تیز ہوجاتی۔ گاڑی کے میوزک پلیئر پر کِسی بے سُرے رُوسی گلوکار کی آواز گونج رہی تھی۔

اُسکی آواز سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی شخص غرارے کر رہا ہو اور درد سے کراہ رہا ہو اور وقفے وقفے سے چیخیں بھی مار رہا ہو۔ میں نے وووا سے پوچھا یہ کون گویا ہے، اُس نے بڑے فخر سے کہا یہ روس کا مشہور و معروف لیجنڈری گلوکار ولادیمیر ویسوٹسکی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ آج تک تو میرا گلوکاری کا فہم ترنم، سر اور تال سے متعلق تھا ، گلوکاری کے نام پر اس قسم کی غر غراہٹ تو میں نے پہلی بار سنی ہے، اس پر میرے میزبان اور وووا کے فلک شگاف قہقہے ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔

وووا کی گاڑی میں سامنے سے آنے والی ٹریفک اور سڑک کو مانیٹر کرنے کے لیے فرنٹ یا ڈیش بورڈ کیمرہ بھی لگا ہوا تھا، اس نے بتایا کہ ایکسیڈنٹ وغیرہ کی صورت میں خود کو بے قصور ثابت کرنے میں یہ کیمرہ بڑا کام آتا ہے۔ اگرچہ روسی شہری ماضی میں کافی سخت زندگی گذارتے رہے ہیں لیکن عام تاثر کے برعکس عام روسی شہری بھی دیگر مغربی اقوام کی طرح اپنے کام سے کام رکھنے والے امن پسند شہری ہیں۔ بات بات پر یہاں بھی شکریہ ادا کرنے کا رواج ہے، اسپاسی با (شکریہ) کا لفظ اکثر سماعتوں سے ٹکراتا رہتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :