جمعہ خان صوفی کا پوراسچ مگر دیر سے۔ قسط نمبر2

جمعہ 13 جنوری 2017

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

جمعہ خان صوفی صاحب کی کتاب ”فریبِ ناتمام“ مطلب وہ فریب جو ابھی تک جاری ہے ختم نہیں ہوا۔ اس کے کچھ مندرجات پر ہم اپنے پہلے دو کالموں میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھ چکے ہیں کہ سابقہ صوبہ سرحد میں سرحدی گاندھی عبدالغفار خان صاحب (مرحوم) کی سوچ کو قائد  نے ریفرنڈم کے ذریعے شکست دی تھی اور کہا تھا کہ اس کے بعد سب پاکستان کی ترقی کے لیے کام کریں۔

مگر ولی خان کی پارٹی پاکستان کی سا لمیت کی خلاف سازشیں کرنے سے باز نہیں آئی۔ اب تو بیگم نعیم ولی خان بھی اسفند یار ولی پر الزام لگا چکی ہے کہ اس نے امریکا سے پیسے لیکر پٹھان قوم کا سودہ کیا ہے۔جمعہ خان نے اپنی کتاب میں جو کچھ تحریر کیا ہے، وہ خود بھی اس میں شامل بھی رہے ہیں۔ہم اس کالم میں اس پر تجزیہ کریں گے۔

(جاری ہے)

جمعہ خان نے افغانستان میں بیس سال گزارے۔

بنیادی طور پر مارکسی کمیونسٹ ہیں۔اجمل خان کے حکم پر خفیہ طور پر دریائے آمو کے راستے سویت یونین جا کر مارکس ازم کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اجمل خان کی تحریک پر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر پاکستان دشمنی میں افغانستان چلے گئے۔ ولی خان دو قومی نظریہ کے ازلی دشمن بھارت، قوم پرست افغانستان اور پاکستان کے نظریاتی دشمن سویت یونین کی مدد سے پاکستان توڑنے کے منصوبے بناتے رہے۔

جس میں اللہ کی کرنی کہ کامیاب نہیں ہوئے۔ آج پھر ان کے فرزند اسفند یار ولی خان صاحب اسی ڈگر پر چل کر افغانستان اور بھارت کی بولی بول رہے ہیں۔ولی خان نے پاکستان توڑنے کی مہم میں اپنے ساتھ سندھ کے علیحدگی پسندوں اور بھٹو کے نکالے ہوئے غلام مصطفٰے کھر سابق گورنر پنجاب تک کو بھی ساتھ ملا لیا۔جمعہ خان لکھتے ہیں کہ ولی خان صاحب(مرحوم )کی بھٹو اور پاکستان کے خلاف شدت پسندی کی وجہ سے سندھ کے علیحدگی پسند غلام مصطفٰے شاہ صاحب المعروف( جی ایم سیدمرحوم) نے شہ پکڑی اور ہمارے پاس افغانستان آئے۔

ان کی خواہش تھی کہ ولی خان کے ذریعے سندھ کی علیحدگی کے لیے بھارت کے علاوہ افغانستان سے بھی مدد مانگیں۔۱۹۷۴ء میں جی ایم سید نے شاہ محمد، اسماعیل وسان اور ایک بزرگ سندھی کو ہمارے گھر کابل افغانستان بھیجا جوایک برس ہمارے پاس اس کام کے لیے رکے رہے۔لکھتے ہیں ہندوستان حکومت اور اس کے سفارت خانے سے ہمارا تعلق تھا جس کا جی ایم سید کو بھی فاہدہ ہوا۔

جی ایم سید کی انگلش میں لکھی کتاب” سندھو دیش زنجیروں میں“ہمارے توسط سے بھارت میں شائع ہوئی تھی۔جی ایم سید کے نائب قاضی فیض محمد کو بھی ہم نے بھارت بھیجوایا تھا۔شاہ محمد شاہ اور قمرالزمان افغانستان آئے۔ اجمل خان اوربھارتی سفارت خانے میں اسٹاف سے ملے ۔ وہ لکھتے ہیں غلام مصطفی کھر نے بھی ولی خان کے ذریعہ ہم سے رابطہ کیا۔ کھر نے بیگ نامی ریٹائرڈ کرنل کو اجمل خان کے پاس بھیجا تا کہ کابل میں ایک دفترکھولے۔

مگر قوم پرست داؤد خان نے پنجابی کہہ کر اس کو دفتر کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے عزیز اللہ، رؤف وارثی اور میاں شاہین شاہ کمیونسٹ پارٹی کے کسان ونگ کے انچارج ہمارے پاس آئے۔اجمل خان اور ببر ک کارمل سے ملے۔ طے ہوا ہر حال میں پاکستان توڑنا ہے۔ہر اُس بات کی حمایت کرنی ہے جس سے پاکستان ٹوٹے۔میاں شاہین شاہ دوبارا کابل آئے اور نجیب کے گھر قیام کیا۔

پرچم والوں سے ملاقاتیں کی۔ ان حضرات کو اِس نے خرچہ کے لیے رقم بھی ادا کی۔ اِن کا پاکستان ،بھارت اور سویت یونین کی کمیونسٹ پارٹیوں سے رابطہ تھا۔ایک کمیونسٹ نازش کو پختونستان، بلوچستان اور افغانستان کے بارے رپورٹ دیتے ہیں جو شاید اس نے سویٹ یونین کو پیش کرنی تھی۔ اس رپورٹ میں یہ شامل ہے کہ ہمارے گھر کون کون آتا رہاہے۔بلوچستان میں گوریلاؤں کی کیاحالت ہے۔

پاکستان کی فوج کیا کر رہی ہے۔پاکستان میں اخوانیوں کی تربیت تو نہیں ہو رہی۔ایران بلوچستان میں پاکستان کی کیا مدد کر رہا ہے۔پختونستان اور بلوچستان میں ہماری تحریک کی کتنی قوت ہے۔ لکھتے ہیں ہم بھارت اور عراق کے سفارت خانے جاتے ہیں اور وہ ہمارے گھر آتے رہے ہیں۔ہمارے پاس بلوچ محاذکے خیر جان بلوچ،مراد بزنجو،مہر اللہ مینگل،میر سفر خان،اسلم گچکی،میر گوہر خان ،شکاری،میر اکرم،میر ہزار خان،محمد بھا بھا، منظوربلوچ، اور آغا سلیمان وغیرہ آتے ہیں۔

یہ ہیں تخریبی کاروائیاں جو پاکستان کے خلاف یہ حضرات کرتے رہے ہیں۔ ان پر اب جمعہ خان نالان ہیں۔جمعہ خان نے پورا سچ بیان کر دیا ہے مگر دیر سے۔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں پارٹی کی صوبائی کمیٹی میں،افراسیاب،اجمل سید مختیار اور میں تھا۔سید مختیار نے ،مجھے تین سال بعد کابل میں بتایا کہ تمہیں صوبائی کمیٹی سے معطل کر دیا گیا جب کہ میں ان تین سالوں میں پارٹی کے عہدے کی بنیاد پر کرتا رہا۔

ان حالات میں مایوسی کا شکار ہو گئے۔وہ لکھتے ہیں”اب جب میں پیچھے پلٹ کر سوچتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کی بھٹو کی حکومت کیخلاف ولی خان کی پارٹی اور خصوصاً ولی خان کی فعال جنگ کے بے تکا اور غیر سنجیدہ اقدام سارے منطقے اور خاص طور پر افغانستان اور بڑی حد تک پاکستان کے لیے انتہائی مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنا“۔صاحبو! جمعہ خان کی کتاب ”فریبِ ناتمام“ میں بیان کردہ تحریر وں کا تجزیہ کرتے ہوئے جو بات حکومتِ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے اہم ہے وہ یہ ہے۔

اول۔ بھارت پہلے کی طرح اب بھی پاکستان توڑنے کی سازش میں لگا ہوا ہے۔ اس کے سہولت کار اسفند یار ولی ہیں اور ان کی پارٹی، پاکستان کے قوم پرست محمود خان اچکزئی ہیں، جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں اٹک تک افخانیہ صوبہ بننا چاہیے۔ دوم۔قوم پرست افغانستان جو کبھی بھی پاکستان کا دوست نہیں رہا ہے۔صرف افغان طالبان کے دور میں افغانستان پاکستان کا دوست تھا۔

اس اثاثے کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ امریکا کے دباؤ پر ان کے خلاف کسی بھی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔چین، روس،ایران اور افغانستان کے ساتھ مل کر امن کی کوشش کرنی چاہیے۔ سوم۔ جیسے ولی خان کے وقت افغانستان میں بھارت کے ایجنٹ پاکستان توڑنے کے لیے جمع ہوتے تھے اب بھی وہاں موجود ہیں۔بھارت کے درجنوں کونسل خانے پاکستان کی سرحد کے قریب موجودہیں جہاں پاکستان مخالفوں کو دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔

جیسے اُس وقت پختون زلمے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریبی کاروائیاں کرتے تھے۔ اب ملا فضل اللہ اور اس کے ساتھی پاکستان میں تخریبی کاروائیاں کر رہے ہیں۔ جیسے بلوچستان سے لوگ افغانستان جا کر دہشت گردی کی ٹریننگ لیتے تھے اب بھی وہ افغانستان اور بھارت میں موجود ہیں ۔بھارت تو بلوچوں کو شہرت بھی دے رہا ہے۔بھارت کے مقامی ایجنٹوں نے کراچی پاکستان کے معاشی حب کو ڈسٹرب کیے رکھا۔

چہارم۔ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے پاکستان میں گریٹ گیم کے تحت امریکا، بھارت اور اسرائیل مل کر تباہی پھیلا رہے ہیں۔ امریکا نے تو پاکستان توڑنے کے نقشے تک جاری کیے ہوئے ہیں۔ صاحبو! ان حالات میں حکومت پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟پاکستان بھارت کو اپنے ازلی دشمن سمجھے۔ اس کے ساتھ آلو پیاز کی تجارت اور معذرتانہ رویہ کے بجائے جارحانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

اس وقت پاکستان ایٹمی وقت ہے اسے اس بات کا برملا اعلان کر دینا چاہیے کہ اگر پاکستان نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی قوت کو بغیر کسی سے دباؤ کے بڑھانا چاہیے۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ امریکا پاکستان کا دوست نہیں۔ ہر ممکن طریقے سے اس سے جان چھڑانا چاہیے۔جیسے بھارت نے امریکا سے دفاعی معاہدہ کیا ہے پاکستان کو بھی چین سے ایسا ہی معاہدہ کرنا چاہیے۔

روس کے ساتھ بھی تعلوقات شروع کرنے چاہییں تاکہ امریکا پر پریشر پڑے۔ اللہ کا شکر ہے فاٹا میں جاری ضرب عضب اور کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن سے ملک میں نوے فی صد امن قائم ہو گیا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ اندرونی حالات کو مستحکم صحیح سمت پر لانے کے لیے ملک میں اسلام کی قوت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بچے کچے اسلامی عسکریت پسندوں کے مزاکرات شروع کرنے چاہیے، ملک میں فوراً اسلامی نظام حکومت کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ پوری قوم پاکستان کی پشت پر کھڑی ہو جائے۔ اللہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا محافظ ہو۔ جمعہ خان کی کتاب” فریبِ ناتمام“ کے باقی مندرجات پر تجزیہ آیندہ آخری کالم میں۔ ان شا ء اللہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :