ضابطہ اخلاق ، اجتماعی زمہ داری اور پیمرا

جمعہ 13 جنوری 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

نو جنوری کوپیمرا کی جانب سے اسلام آباد میں ضابطہ اخلاق اور اجتماعی ذمہ داری کے موضوع پر ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔ اس ورکشاپ میں تمام میں بہت سے نامور صحافیوں اور اینکرز نے شرکت کی۔ اس ورکشاپ میں باہمی گفتگو کے تین دور چلے۔ جو صحافی اور میدیا ہاوسز کے نمائندے موجود تھے انہوں نے گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس ورکشاپ کا بنیادی مقصد میڈیا ہاوسز سے درخواست کرنا تھا کہ وہ خود ایک ضابطہ اخلاق تجویز کریں اور باہمی گفت و شیند سے ایک ایسا لائحہ عمل تجویز کریں جس بہتری کا راستہ نکلے، جہاں صحافی کا تحفظ بھی ہو اور سچ کہنے کی بھی کوئی روکاوٹ نہ ہو۔

لیکن یہ بھی ضروری ہے کچھ قباحتوں کو چینلز سے دور کیا جائے۔ جھوٹ بولنے پر ممانعت لگائی جائے، خواہشوں کو خبر بنا کر بیچنے پر قدغن لگائی جائے۔

(جاری ہے)

خود ساختہ خبروں کو ایجاد کرنے والوں کی روک تھام کی جائے۔ گھٹیا کرائم شوز جو جرم کی روک تھام کے بجائے جرم کی رغبت پیدا کریں ان کو بند کیا جائے۔ری اینکٹمینٹ پر پابندی لگائی جائے۔ ریٹنگ کی ریس میں اخلاقی قدروں کی پامالی کو روکا جائے۔

سوشل میڈیا کی بے ہنگم یلغار سے الیکٹرانک میڈیا کو محفوظ رکھا جائے۔
اس ورکشاپ کے بنیادی شرکاء میڈیا ہاوسز کے نمائندے تھے۔ انیہی کے لیئے یہ سارا میدان سجا تھا۔ لیکن ورکشاپ میں انکی شمولیت مایوس کن تھی۔ جو اس بات کا ثبوت تھا کی سچ کی طرف راغب کرنے کے لیئے ابھی بہت وقت لگے لگا۔ چینلوں کو ابھی اپنی ذمہ داری کا ادراک ہی نہیں ہے۔ ریٹنگ ہی فیصلہ کن امر رہے گا چاہے اس کے لیئے کچھ بھی کر گزرنا پڑے۔

قبر میں لیٹ کر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنا ہو، یا کسی کھلاڑی پر لعنت بھیجنی ہو، یا انڈین وزیراعظم کے آمد پر توبہ توبہ کی گردان کرنی ہو، ابھی اصلاح احوال میں بہت وقت لگے گا۔
اس ورکشاپ میں شامل فاضل دوستوں نے بہت کام کی باتیں کیں ان میں چند کے اقوال میڈیا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیئے فردا فردا تحریر کر رہاہوں۔
گریبان اپنا اپنا کے نام سے کالم لکھنے والے وقت ٹی وی کے اینکر مطیع اللہ جان نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ جو خواہشیں چینلز پر بیچ رہے ہیں انکا پس منظر اتنا سہل نہیں ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے میں انفارمیشن کی عوام تک رسائی میں بہت سے اور بھی ادارے شامل ہو گئے ہیں۔ مطیع نے ایک اور تجویز بھی دی کی پیمرا ایک ایسی مہم کا آغاز کرے جو عام آدمی کو اپنے حق میں آواز بلندکرنے پر مجبور کرے۔ اس پر سوال کیا گیا کہ لوگوں کو شعور ملنے تک پلوں سے بہت پانی گزر چکا ہوگا ۔ کچھ اقدامات فوری نوعیت کے بھی درکار ہوتے ہیں۔
رانا جواد جو جیو کے ڈائریکٹر نیوز ہیں۔

انہوں نے پیمرا کے موجودہ کرادر کو تو سراہا مگر ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے دباو کا ذکر بھی کیا۔انہون نے بتایا کے حالیہ جہاز کے حادثے میں جہاز کے گرنے سے پیشتر کی ایک وڈیو منظر عام پر آگئی۔ اب ہر چینل کے نیوز روم پر یہ دباو تھا کہ وہ یہ وڈیو چلا دیں۔ لیکن جیو نے یہ وڈیو نہیں چلائی کیونکہ اس کی تصدیق صحافتی اصول کے مطابق کم از کم دو ذرائع سے نہیں ہو رہی تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب سوشل میڈیا الکٹرانک میڈیا سے بہت برق رفتار ہو گیا ہے۔یہ برائی نہیں ہی ایک چیلنج ہے جسے قبول کرنا ہی پڑے گا۔
مائک ھامد میر کے ہاتھ میں آیا تو ہمشہ کی طرح ایک مختلف بات سامنے آئی۔انہوں نے برے دبنگ انداز میں کہا کہ میں وثوق سے کہتا ہوں۔کہ پاکستان میں چہنلز کی ریٹنگ دینے والا نظام بالکل فراڈ ہے۔ سب ریٹنگ کی دوڑ میں شامل ہیں مگر کسی کو پتہ نہیں کسی پروگرام کی ریٹنگ کیوں اور کیسے آتی ہے۔

یہ ناسور ہے جو الیکٹرانک میڈیا کو کھا گیا ہے۔انہوں نے میڈیا کے ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اب وٹس ایپ گروپس بھی ایک باقاعہ ہ میڈیا بن چکے ہیں۔ اس کے ذریعے معلومات کا تبادلہ بھی بہت عام ہو گیا ہے۔۔ کسی شخص، چینل اور ادارے کے خلاف کوئی مہم چلانے کے لیئے اس پر بہت کام ہو رہا ہے۔
سلیم صافی گویا ہوئے تازہ تازہ ایک صاحب سے فون پر بات ہوئی وہ اپنا نقطہ نظر دے رہے تھے اور میرا نقطہ نطر ان سے مختلف تھا اس پر ناہوں نے فون کی آڈیو ریکارڈ کے لوگوں کو وٹس ایپ کرنا شروع کر دی۔

سلیم صافی کے مطابق میڈیا کی توجہ اصل موضوعات سے ہٹ رہی ہے۔کئی خبریں ہیں جو اہم ہیں جن ے اثرات دوررس ہیں مگر روش یہ ہے کہ ہم بھیڑ چال چل رہے ہیں۔نئی بات اور نئے خیال کا کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔
ورکشاپ کا سب سے دلچسپ لمحہ وہ تھا جب ایک جذباتی صاحب نے جاوید چودھری سے سوال کیا کہ یہ ہر وقت ااپ سیاست پر کیوں ٹاک شوز میں بات کرتے رہتے ہیں۔

اس ملک میں اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔وہ کیوں نہیں ٹاک شوز میں دکھاتے۔ جاوید چودھری تو شائد اس سوال کے منتظر بیٹھے تھے۔انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا کہ چینلز پر سیاسی گفتگو کے پروگرام رات آٹھ بجے یا دس بجے ہوتے ہیں اسکے بعد کے بائیس گھنٹے وہی ہوتا جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ مزید یہ بھی فرما دیا کی ٹاک شوز میں بات ہی ہو گی اور کیا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے سوال کرنے والے سے درخواست بھی کی کہ اگر یہ سیاست آپ و پسند نہیں ہے تو یہ پروگرام نہ دیکھا کریں۔ سپورٹس ، کوکنگ، ڈارمے اور کارٹون کچھ بھی دیکھ لیں کوئی منع تھوڑی کرتا ہے۔
چیئر میں پیمرابصارر عالم نے پریزینٹیشن دی اس میں انہوں نے جہاں یہ بتایا کہ پیمرا کے پاس شکایات کی نوعیت کیا ہوتی اور انکی تعداد کتنی ہے ۔ وہاں انہوں نے یہ بھی بتایا کی ایک چینل کو بند کرنا ایک انتہائی اقدام ہیاس اقدام کے اٹھانے سے پہلے وراننگ اور جرمانے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

بتایا گا کہ اب تک مختلف چینلز کو بتیس بار ایڈوائس دی گئی ہے،اکتالیس بار رواننگ دی گئی ہے، پینسٹھ بار شو کاز نوتس دیئے گئے ہیں اور دوکڑوڑ پینسٹھ لاکھ سے زیادہ جرمانے کیئے گئے ہیں
ویسے تو اس ورکشام مین بہت سی اور باتیں کام کی تھیں لیکن ایک ٹرینڈ بہت حیران کن تھا کہ چینلز کی خبر کے معاملے میں من مانیوں کی وجہ سے اب لوگوں کے تاک شوز دیکھنے میں کافی کمی آئی ہے۔ نیوز چینل پر لوگ اب بھی آتے ہیں مگر ہیڈ لائن دیکھ کر چلے جاتے ہیں۔ ٹاک شوز میں دلچسپی میں گرانقدر کمی ہوئی ہے۔یہ لمحہ فکریہ ہے اینکرز کے لیئے جو ہر شام کو انقلاب لا رہے ہوتے ہیں۔ اب انہیں علم ہونا چاہیے کہ ان کے انقلاب کے قافلے میں شامل لوگ اب بہت کم رہ گئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :