جج صاحب ۔میں اقرار کرتا ہوں

اتوار 8 جنوری 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

آپ گزشتہ کچھ عرصے کے ٹاک شوز نکال کر دیکھ لیں۔ جس جس نے پانامہ پر بحث کی حتمی فیصلہ سنا دیا۔ خود ہی وکیل بنے، خود ہی جرح کی، وکیل استغاثہ بھی خود رہے ، وکیل صفائی کے فرائض بھی خود انجام دئیے۔اپنے ثبوت سامنے لے کر آئے، ان شواہد کو خود ہی مسترد کیا اور فیصلہ بھی سنا دیا۔سپریم کورٹ کی اس قدر تضحیک علی اعلان ہو رہی ہے کہ ہمیں اب اس کا احساس بھی ختم ہو تا جا رہا ہے۔

دنیا بھر میں ایسا نہیں ہوتا ۔ جو دروغ گوئی کارخانہ ہمارے ہاں شام سات سے رات گیارہ بجے تک چلتا ہے اس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔
ایک اہم کیس سپریم کورٹ میں ہے۔ الزام اس ملک کے منتخب وزیر اعظم پر لگا ہے۔ معاملات انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ لیکن اس ملک کے چند ٹاک شوز اس کیس کو لاہور کا سٹیج ڈرامہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

تمسخر اڑیا جا رہا ہے، جگتیں چل رہی ہیں، طعنے دیئے جا رہے ہیں، من گھڑت قصے سنائے جا رہے ہیں، خواہشوں کو خبر بنایا جا رہا ہے۔

آرزوں کو ثبوت کہا جا رہا ہے، خوابوں کو جرح کا نام دیا جا رہا ہے۔ کسی کو احساس نہیں ہے کہ اس طرح اپنی اپنی مرضی کے روز فیصلے سنانے توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اپنے اپنے فیصلے معزز عدلیہ پر عدم اعتماد کہلاتے ہیں۔
عجب روش چل پڑی ہے۔ جہاز کا حادثہ ہوتا ہے سب ماتم کناں دانشور ایروناٹیکل انجینئر بن جاتے ہیں، کہیں دھماکہ ہوتا ہے سب دہشت گردی کے اسباب کے امور کے ماہر ین میں تبدیل ہو جاتے ہیں، بھارت سے مذاکرات ہوتے ہیں اچانک ہی یہ سارا قبیلہ خارجہ امور کا سرخیل بن جاتا ہے۔

یوم اقبال پر چھٹی کا مسئلہ ہوتا ہے یہ احباب اقبالیات پر انتہائی مدلل بحث کرنے لگ جاتے ہیں۔ وہ جو کبھی اقبال کا ایک شعر درست نہیں پڑھ سکے وہ فلسفہ خودی پر اس بے طرح اور بے دھڑک بحث کر تے ہیں کہ بڑے بڑے ماہرین اقبالیات بھی شرما جاتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے برتنوں میں زیادہ پانی ڈل گیا ہے اب پانی کی مقدار بڑھنے سے برتن چھوٹا پڑ رہا ہے اورسارا علم و فضل چھلک چھلک کر باہر گر رہا ہے جس سے سارے معاشرے میں تعفن پھیل رہا ہے۔

اس دور میں کتنے اینکر ہیں جنہیں معاملات کی خود کوئی سدھ بدھ ہوتی ہے۔تین مخالف لوگوں کو سامنے بٹھا کر، انکو لڑوا کر، ایک دوسرے کے ہاتھوں بے عزت کروا کر، اپنی مرضی کا نتیجہ نکالنا کتنا ہی مشکل ہے؟سب لوگ اینکر کے سوال کو اہمیت دیتے ہیں کبھی کسی نے سوال نہیں کیا کہ اینکر صاحب جس موضوع پر آپ چیخ چیخ کر اس سوئی ہوئی قوم کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں اس موضوع پر آپ کا اپناعلم کتنا ہے، کون سے ڈگری آپ نے اس موضوع میں کی ہے؟ کتنی کتابیں پڑھیں ہیں، کتنا تحقیقی مواد نظر سے گزرا ہے؟کون سے بین الاقوامی اخبارت اس موضوع پر جناب کی نگاہ ناز سے گزرے ہیں؟ کون سے پی ایچ ڈاکٹر آپ کے پروگرام کی تیاری میں آپ کے ممد و معاون رہے ہیں؟ کوئی نہیں یہ سوال پوچھتا ؟ کوئی یہ جرات نہیں کرتا۔

بس ٹی وی پر اپنی شکل دکھانے کی خاطر، اپنے مخالف کو رزیل ثابت کرنے کی خاطر، چیخ چیخ کر بولنے کی خاطرسب کچھ داو پر لگا دیتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ سب ٹاک شوز ہی شعبدہ بازی کر رہے ہیں۔ ابھی بھی کچھ ہیں جو موضوع پر محنت کرتے ہیں۔ تحقیق سے پروگرام کو سنوارتے ہیں لیکن یہ سب آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
بات کا آغاز پاناما کیس سے ہوا تھا۔ اس کیس پر جو کچھ میڈیا کی سکرینوں پر ہو رہا وہ ناقابل بیان اور ناقابل یقین ہے۔

کچھ بعید نہیں کہ کچھ عرصے تک اگر لوگ اسی طرح پروگرام کرتے رہے تو کسی ایک نے عدلیہ کا ترازو بھی اپنے شو کے سیٹ کی زینت بنا لینا ہے۔ کسی نے جج کی ہتھوڑی جس کو بجا کر آڈر آڈر کہا جاتا ہے وہ بھی اپنے پاس رکھ لینی ہے اور کسی منچلے نے عدالتوں کو اپنے دائرہ اختیار میں لینے کا حکم بھی اپنے پروگرام میں دے دینا ہے۔پاناماکیس کے ان گنت ماہرین کے علم و فضل پر مزید کیا کہا جا سکتا ہے۔

لیکن پیمرا سے درخواست ضرور کی جا سکتی ہے کہ اس صورت حال کا نوٹس لے۔ ہر شام کو لگنے والی عدالت کو کم از کم توہین عدالت تو قرار دے۔اس روش کی روک تھام ہونی چاہیے۔ اس چلن کو ختم ہونا چاہیے، اس حماقت کو قرار آجانا چاہیے۔
اس ضمن میں پہل میں کرتا ہوں ۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ مجھے آف شور کمپنیوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں، میں اقرار کرتا ہوں کہ کمپنیوں کی بین الاقوامی ادائیگیوں اور ٹیکس کے معاملات بھی میری حد علم سے باہر ہیں۔

وراثت کے قانون اور اسکی تفصیلات سے بھی جھے کوئی واقفیت نہیں۔مالی بے ضابطگیوں پر بحث بھی میرے اختیار میں نہیں۔ عدالت کی کارروائی کے قانونی پہلووں سے بھی میں ناواقف ہوں، انٹرنیشنل مالیاتی امور بھی میری دسترس میں نہیں۔ میں بڑے یقین سے اقرار کرتا ہوں کہ میں ان معاملات میں بے علم ہوں۔ مجھے ان مسائل پر اپنا علم بھگارنے کا کوئی شوق ہے نہ کوئی زعم۔

میں ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے صرف اس بات کا ادراک رکھتا ہوں کہ یہ معاملہ ملکی تاریخ کا ایک اہم معاملہ ہے۔ یہ کیس ملک کی اعلی ترین عدالت میں زیر سماعت ہے۔ ملک کے قابل ترین منصف اس مقدمے کو دیکھ رہے ہیں۔ ملک کے ذہین ترین وکلاء اس پر دلائل دے رہے ہیں ، قابل ترین لوگ اس پر عدالت عالیہ میں بحث کر رہے ہیں۔بس میرا علم یہیں تک ہے۔ میں اپنے ملک کی عدالتوں پر اعتبار کرتا ہوں ۔ انکے فیصلوں کو قبول کرتا ہوں۔ انکے احکامات کا منتظر رہتا ہوں۔ یہ میری بساط ہے، یہی میری اوقات ہے یہی میرا اقرارہے۔جج صاحب ۔میں اقرار کرتا ہوں کہ میں تجزیہ کر سکتا ہوں فیصلہ نہیں سنا سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :