عوامی اُمیدیں اور سی پیک

منگل 10 جنوری 2017

Awais Younas

اویس یونس

7 ستمبر 1958کے دن چار سال کے مسلسل مذکرات کے بعدحکومتِ پاکستان نے سلطنت آف عمان سے گوادر کو صرف 30لاکھ ڈالر میں خریدا۔عمان کے 174سالہ دور کے بعد بلاآخر 1958میں گوادر رسمی طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا۔ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کے دوران وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے قوم کو گوادر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خوشخبری سنائی ۔انہوں نے اس موقع پر پاکستانی عوام کو مبارک باد دی اور مستقبل میں گوادر سے حاصل ہونے والے بیش بہا فوائد کا ذکر بھی کیا۔

1958وہ وقت تھا جب دنیاکے نقشے پر بیشتر ممالک جن میں سنگا پور ، دبئی اوربحرین کی بندرگاہیں موجود نہیں تھی ۔اس وقت ہمارے پاس گوادر کی صورت میں ایک گہری بندرگاہ اور اس وقت سے لیکر آج تک محل ِوقوع کے اعتبار سے چائنہ اور سنٹرل ایشیاء کے لیے بہترین سٹرٹیجک اہمیت رکھتی ہے ۔

(جاری ہے)


1958 سے ہی گوادر کے ساحل پر گہرے پانی کی بندرگاہ بنانے کی گنجائش موجود تھی مگر بدقمتی سے گوادر کو ساحل کو استعمال نہ کیا جا سکا۔

گوادر کی موجودہ ترقی کا سہرہ چین کے سر جا تا ہے ، چین اپنے مغربی صوبوں کو ترقی دینا چاہتا ہے اور اسکے لیے گوادر کے ساحل کا انتخاب کیا گیا۔ گوادر بندرگاہ پر تعمیر کا آغاز پرویز مشرف دور میں ہوا تھا اور اسکا کنٹرول سنگاپور کو دیا گیا تھا۔فروری 2013 میں گوادر بندرگاہ چین کے سپرد کر دی گئی۔مئی 2013میں چین نے اقتصادی راہداری کی تعمیر کاآغاز کیا۔

اقتصادی راہداری میں چینی سرمایہ کاری کا حجم46ارب ڈالر ہے جس میں سے2.5ارب ڈالر” ایکیویٹی“ کی بنیاد پر فراہم کیے گئے ہیں اور باقی رقم نرم شرائط پر فراہم کی جائے گی جس کی واپسی کی مدت 20سے 25سال ہے۔
گوادر کا علاقہ 1958سے پاکستان کے پاس موجود ہے۔سوال یہ ہے کہ اس انتہائی اہم علاقے کی اہمیت کو چین نے سمجھا ورنہ اتنے لمبے عرصے تک پاکستان کو یہاں بندرگاہ بنانے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ کیوں ہم آج تک ایک نیشنل پالیسی نہیں بنا سکے ہمیشہ اپنی ملکی ترقی کے لیے غیر ملکی امداد کا سہارا لیتے ہیں۔


یہ بات اکثردیکھنے میں آئی ہے کہ جن اقوام کے ادارے کمزور ہوتے ہیں وہاں کرپشن ایک معمول کی بات ہے اور اپنے وسائل کو اپنے ہی ہاتھوں سے ضائع کر تے ہیں۔ اس طرح کی ایک مثال نائجیریا ہے،نائجیریا کو قدرت نے تیل کے ذخائر سے مالامال کیا ہے لیکن صرف تیل کی مدمیں ہونے والی کرپشن 19ارب ڈالر سے زائد ہے، اسی وجہ سے نائیجیریا دنیا کی کرپٹ اور غریب قوم ہے۔


آپ پاکستان کے اہم اداروں کو دیکھ لیں جو اپنی اقتصادی جدوجہد میں مصروف ہیں اور دوسری طرف نیب کرپشن پر رعایتیں دے رہا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کرپشن کی کہانیوں پر اپنے بچوں کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش میں مصروف ہیں اور یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے ان کی بیان کردہ کہانیوں پر کوئی دو سال کا بچہ بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔کرپشن کرنے کا رجحان پاکستان میں تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے،جہاں امیراور طاقت ور طبقے کے لیے کرپشن کرنے کے لیے نہایت مضبوط اور مربوط نظام موجود ہے جو انکو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔

اگر آپ اتفاق سے کرپشن کے کیس میں پکڑے گئے ہیں تو فکر کی کوئی بات نہیں ہے آپکو بہترین رعایت دے جائے گی جس کے بعد پاکستان میں قابل عزت زندگی گزار سکتے ہیں، اسکے لیے اکاونٹ میں صحیح اعداد اور موبائل میں درست نمبروں کا ہونا ضروری ہے۔
2012 میں چیرمین نیب کی طرف سے دیئے گئے ایک بیان کے مطابق پاکستان میں روزانہ 12ارب روپے کی کرپشن کی جاتی ہے،اگر اس کرپشن کو سالانہ بنیادوں پر دیکھیں تو یہ چار ہزار سے پانچ ہزار روپے ْ سالانہ بنتی ہے۔

کرپشن کے یہ سالانہ اعدادوشمار اقتصادی راہداری کی مد میں دی جانے والی رقم کے برابر ہیں جو چین کی طرف سے فراہم کی جارہی ہے۔
پاکستان کا خود انحصاری پروگرام ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ملکی قرضے23,000ارب ہوچکے ہیں اگر اس میں اِقتصادی راہداری کی مد میں ملنے والا قرض بھی شامل کر لیا جائے تو ہم ایسی قوم میں
شمار ہونگے جو قرض کے بوجھ تلے زندگی گزار رہی ہے اس لیے کسی بھی بڑے منصوبے سے مطلوبہ فوائد حاصل کرنا ممکن نظر نہیںآ تا۔

یہ بات قابل غور ہے پاکستان پہلے سے ہی اپنی آمدن کا2/3قرض کی ادائیگی پرصرف ہے۔ پھر ہم ملکی معیشت کس طرح چلا ئیں گے اگر ہم اپنے ذرائع آمدن قرض کی ادائیگی میں خرچ کر دیں گے تو وہ وقت دور نہیں جب حکمران ملک کو رہن رکھ دیں گے یا پھر ملک کو بیچ ہی ڈالیں گئے ؟ کیا پاکستان کو اس دن کے لیے حاصل کیا گیا تھا کہ یہ صرف چند امیر خاندانوں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔

نہیں نہیں ہم یہ سب نہیں ہونے دیں گے، یہ سب مزید نہیں چلے گا۔ آج کی دنیامیں معاشی جنگ جاری ہے اور ہم ابھی تک مہذب نہیں ہو سکے اور نہ ہی بین الاقومی برادی کی برابری کر سکے۔
آج کل تمام سیاستدان اقتصادی راہداری کو ایک عظیم کامیابی تصور کر رہے ہیں اس پر کوئی شک بھی نہیں کیا جا سکتا،تا ہم پاکستان میں اتنی قوت موجود ہے کو اپنے وسائل کو استعمال کر سکے اور بلکہ ہمسایہ ممالک کو بھی خدمات فراہم کرسکے۔


اب ملک کی معاشی صورت حال کی طرف آتے ہیں ،اگر معاشی صورت حال کا جائزہ لیں تو اصل سوال یہ نہیں کہ اقتصادی راہداری تعمیر ہو رہی ہے بلکہ پاکستان کے اداروں کی ترقی نہایت ضروری ہے۔ چین کی مدد کے ساتھ ملکی تعمیر وترقی تو ہور ہی ہے جو نہایت سودمند بات مگر اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ ادارے کرپشن کو کون روکنے کی کوشش کرے گا۔ کاروبار کے لیے سازگار ماحول اور قانون کی حکمرانی ہی اس کا واحد حل ہے۔ اس بات کو یقینی کیسے بنایا جائے کہ12ارب روپے کی کرپشن اقتصادی راہداری کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد 24ارب کی کرپشن میں تبدیل نہیں ہو جائے گی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :