معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری چیلنجز !

اتوار 8 جنوری 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ہم اپنی بات کا آغاز سترھویں صدی سے کرتے ہیں ،سترھویں صدی میں مغربی فکر اور فلسفہ عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی کا قائل ہو چکا تھا ، راجر بیکن نے مطالعہ فطرت اور تسخیر کائنات کا فلسفہ پیش کیا تو سوال اٹھا کہ تسخیر کائنات کے لیئے کون سی چیز سب سے ذیادہ اہم ہو سکتی ہے ؟ انسانی عقل کو اس سوال کے جواب کے طور پر پیش کیا گیا ۔ ڈیکارت نے آگے بڑھ کر روح اور جسم کے حقیقی ہونے کا فلسفہ پیش کر دیا۔

بعد میں مغربی فکرنے روح کو چھوڑ کرصرف جسم کو حقیقت قرار دے دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب روح کے معنیٰ کو بھلا کر صرف جسم پرستی کی راہ پر چل نکلا ۔ نیوٹن نے عقلیت پرستی کے فروغ میں بڑا اہم کر دار ادا کیا ،ا س کا سب سے اہم کارنامہ کشش ثقل کے قانون کی دریافت تھی اوریہ قانون معلوم کر کے اس نے دعویٰ کر ڈالا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے تحت چل رہا ہے ۔

(جاری ہے)

اگر وہ قوانین دریافت کر لیئے جائیں تو فطرت اور کائنات پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ انیسویں صدی میں بعض مفکریں نے ثابت کیا کہ انسان کی طرح کائنات اور فطرت بھی جاندار ہیں اور ان میں بھی زندگی اور موت کا پورا نظام موجود ہے ، ان کے نزدیک فطرت اور کائنات اپنی ذاتی توانائی سے زندہ ہیں، اس نظریئے کو ”نامیت “ کا نام دیا گیا ۔ جان لاک نے سترھویں صدی کے دوسرے نصف میں نفسیات کو فلسفے سے الگ کیا ۔

نیوٹن نے کائنات اور فطرت کو ایک مشین قراد دیا تھا مگر ہارٹلے نے انسانی ذہن کو بھی مشین قرار دے دیا ۔اٹھارویں صدی میں ہیوم نے کہا کہ ہر وہ لفظ جو کسی غیر حسی اور غیر مدرک لفظ پر دلالت کرتا ہو اس کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہیئے اور جس چیز کو چھوا نہیں جاسکتا اور جس چیز پر حسی تجربہ اور مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا اس کا وجود ہی ناممکن ہے ۔اس نے خدا ، مذہب، انبیاء ، معجزات اور آخرت کا انکا ر کر دیا ۔

اسی نظریئے کو آگے چل کر فرانسیسی مفکر کومٹ نے اختیار کیااور اس نظریئے کو positivism(ثبوتیت) کا نام دے کر باقاعدہ فلسفے کا حصے بنا دیا ۔ اسی عرصے میں ایک نیا نظریہ وجود میں آیا جسے دہریت کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ اس نظریئے کا نام deism(خدا شناسی)رکھا گیا۔ اس فلسفے کے پیرو کاروں کا دعویٰ تھا کہ عقل انسان کا خاص جوہر ہے اور یہ ہر زمانے میں ایک جیسی رہی ہے اور ہر میں ایک طرح کام کرتی ہے لہذا ہمیں عقل کی بنیاد پر خدا کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

کہا گیا کہ عقل کی موجودگی میں خدا اور مذہب کی چنداں ضرورت نہیں رہتی ۔عقل کی بنیاد پر چند ایسے قوانین معلوم کیئے جا سکتے ہیں جو تمام مذاہب میں مشترک ہیں اوران معلوم شدہ اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہے ۔ اٹھا رویں او ر انیسویں صد ی میں اس مذہب کا اس قدر غلبہ تھا کہ انگریز جب ہندوستان آیا تو اپنے ساتھ یہ نظریہ بھی لایا ۔ 1857کی جنگ آذادی کے بعد انگریز سر کار کی طرف سے خداشناسی کے جو میلے لگتے تھے وہ اسی فلسفے کے زیر اثر تھے ۔

ہند ومذہب اس نظریئے سے بہت متاثر ہوا اور مسلمانوں میں بھی اس کے کافی اثرات پھیلے اردو شاعری خصوصا غالب کی شاعری میں بھی اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اس ساری مغربی فکر میں ہمیں ایک بات ضرور نظر آتی ہے کہ پوری مغربی فکر میں ”انسانیت پرستی “ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ یہ انسانیت پرستی کبھی بلا واسطہ ہوتی تھی اور کبھی معاشرے کو فوقیت دے کر اس کے ضمن میں اس کا ارتکاب کیا جاتا تھا ۔

اس دور کے فلسفیانہ افکار میں ہمیں روح اور مادے ، فرد اور معاشرے کی کشمکش جا بجا دکھائی دیتی ہے ۔ افکا رجو بھی ہوں اور کشمکش جس کے درمیان بھی ہو ایک بات طے ہے کہ انہوں نے مذہب کا دیس نکالا دیا تھا ۔ وہ مذہب کو کسی صورت قبول کرنے کے لیئے تیار نہیں تھے ۔ عقل انسانی کو تمام مسائل کا حل اور ایک برتر قوت مانتے تھے ۔ عقل کی بنیادپر معاشی ، معاشرتی اور مذہبی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔

وہ لوگ یہ بھول گئے تھے کہ وحی کے مقابلے میں انسانی عقل کی بساط ہی کیا ہے ، وحی کے بغیر انسانی عقل ناتمام ہے اور محض انسانی عقل کی بنیادپر کیئے جانے والے فیصلے کبھی غلطیوں سے پاک نہیں ہوسکتے۔ اٹھارویں صدی کے بعد جتنے بھی فلسفے پیش کیئے گئے ان سب میں انسانیت پرستی کو اعلیٰ مقام دیا گیا اور آج کا جدید مغربی فلسفہ و فکر بھی اسی بات کی تلقین کرتی ہے ۔

عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی کی جو روش اس دور میں شروع ہوئی تھی وہ اس قدر مقبول ہوئی کہ تین صدیاں گزرجانے کے باوجود آج بھی اسی طرح موجود ہے ۔ سولہویں صدی سے شروع ہونے والی یہ روش بیسویں صدی تک ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی تھی ،لوگ مذہب سے بیزار ہوچکے تھے اور مذ ہب کی جگہ آذاد خیالی ، عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی نے لے لی تھی۔اس ساری فکر کا بنیادی نکتہ عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی تھی باقی جتنے بھی نظریات ہیں خواہ وہ سیکولرزم کا نظریہ ہو یا لبرلزم کا ، ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہو یا کومٹ کا ثبوتیت کا نظریہ ، یہ سب اسی بنیادی اصول کو سامنے رکھ کر اپنائے گئے تھے ۔


معاصر اسلامی معاشروں کواس وقت اس پوری مغربی فکر اور فلسفے کا سامنا ہے ،اکیسویں صدی میں گلوبل ویلج ، انٹرنیٹ اور ذرائع ابلاغ کے تیز ترین ذرائع کی وجہ سے مسلم معاشرے خاص طور پر اس فکراور فلسفے کی زد میں ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ معاصر مسلم معاشروں کو داخلی سطح پر بھی کئی خطرناک چیلنجز کا سامنا ہے جس میں داعش، دہشت گردی، ارتداد، لادینیت ، حکمرانوں کی نااہلی ، اتحاد کا فقدان ، سیاسی جماعتوں کی اقرباء پروری، آمریت اور کشتی جمہوریت کا نت نئے طوفانوں سے ٹکراوٴ جیسے چیلنجز شامل ہیں ۔

ایسے فکری مسائل کے حل کے لیے باہمی افہام و تفہیم، اہل علم سے گفتگو، کانفرنسز اور مکالمہ بہت ضروری ہے جس کی روایت بدقسمتی سے ہمارے ہاں مفقود ہے ۔ مستشرقین آج بھی سالانہ کانفرنسوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں بہت سے فکری مسائل کو زیر بحث لایا ۔ معاصر مسلم معاشروں کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں اس طرح کی فکری سرگرمیوں ،کانفرنسز اور مکالمے کااہتمام انتہائی ضروری ہے تا کہ جدید مغربی فکر، معاصر مسلم معاشروں کے زندہ اور پیش آمدہ فکری مسائل کا کوئی متفقہ اور قابل عمل حل نکالا جا سکے ۔

اسی طرح کی ایک دو روزہ قومی کانفرنس 30اور31دسمبر کو گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں منعقد ہوئی جس میں ملک بھر سے ممتاز اہل علم نے شرکت کی ۔ کانفرنس کی نشستوں میں مختلف اہل علم نے اپنے مقالہ جات پیش کیئے ۔ ”معاصر مسلم معاشروں کو درپیش فکری تحدیات “ کے نام سے منعقد اس کانفرنس میں ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء،ڈاکٹر ضیاء الحق، ڈاکٹر حافظ محمود اختر، ڈاکٹر مستفیض احمد علوی، ڈاکٹرمحمد سعد صدیقی، ڈاکٹر محمد حماد لکھوی ،ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ، ڈاکٹر محمد ریاض محمود، ڈاکٹر محمد اکرم ورک اور حافظ عمار خان ناصر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔

گفٹ یونیورسٹی کا شعبہ اسلامیات اس حوالے سے کافی متحرک ہے، ڈاکٹر حافظ محمودا ختر نے یہاں ریسرچ اور تحقیقی کلچر کو فروغ دیا ہے ۔ڈاکٹر مستفیض احمد علوی جو سوشل سائنسز کے ڈین ہیں ،کانفرنس کے انعقاد میں ان کا کلیدی کردار بھی قابل تحسین ہے۔ان سطور میں کانفرنس میں ہونے والی گفتگو اور موضوعات کا احاطہ ممکن نہیں، کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر چیئرمین گفٹ یونیورسٹی جناب انور ڈار، ریکٹر قیصر شہریار درانی اور گفٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے جس نے پرائیویٹ سکیٹر میں ایک اچھی روایت کا آغاز کیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :