اصلی اپوزیشن یا فرینڈلی

اتوار 8 جنوری 2017

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

اِس وقت پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف مسلم لیگ (نون) کی اپوزیشن ہیں۔ دونوں جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ اصلی اپوزیشن اُنہی کی دوکان پر دستیاب ہے اور دوسری اپوزیشن تو بَس ”اَیویں ای“ ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں جماعتیں ہی اپوزیشن کے اندر اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں جس کا براہِ راست فائدہ نوازلیگ کو پہنچ رہا ہے ۔

کپتان تو ببانگِ دہل پیپلز پارٹی کو”فرینڈلی اپوزیشن“ اور قائدِحزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ کو ”ڈَبل شاہ“ کا طعنہ دیتے رہتے ہیں ، اب پیپلز پارٹی نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ عمران خاں پیپلز پارٹی کے خلاف غیرپارلیمانی زبان استعمال کرکے دَراصل نوازلیگ کو فائدہ پہنچا رہے ہیں ۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ ” اصلی تے وَڈی“ اپوزیشن تو پیپلز پارٹی ہی ہے جسے تحریکِ انصاف ماننے کو تیار نہیں۔

(جاری ہے)

شیخ رشید اور اعتزاز احسن جیسے لوگوں نے زور تو بہت مارا کہ کسی نہ کسی صورت دونوں جماعتیں متحد ہو کر نواز لیگ کے خلاف متحد ہو کر سڑکوں پر نکلیں لیکن ایسا ہوتاممکن نظر نہیں آتا۔ وجہ اُس کی یہ ہے کہ دونوں جماعتیں ہی اقتدار کی خواہش مند ہیں اور کوئی ایک جماعت بھی یہ نہیں چاہتی کہ اُس کے مقابلے میں دوسری جماعت ابھر کر سامنے آئے ۔ پیپلز پارٹی کی شدید ترین خواہش ہے کہ اُس کے قدم ایک دفعہ پھر پنجاب میں جَم جائیں جبکہ دوسری طرف کپتان صاحب کا 2013ء کے انتخابات کے بعد سے شور ہی یہی ہے کہ اُس کے ساتھ دھاندلی ہوئی ورنہ پنجاب تو تھا ہی اُسی کا۔

اِن حالات میں بظاہر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کے ہنگام دونوں آپس میں ہی گتھم گتھا رہیں گے اور صورتِ حال یوں بَن جائے گی کہ
لَڑتے لَڑتے ہو گئی گُم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم
اور نواز لیگ بڑے آرام سے 2018ء کا الیکشن جیت جائے گی۔ اب اُڑچن ہے تو صرف ایک یعنی پاناما پیپرز۔ اگرنواز لیگ کو سپریم کورٹ سے پاناما کیس میں کلین چِٹ مل جائے تو پھر ”سَتّے خیراں“ ۔

حقیقت یہی ہے اب پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف ، دونوں کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں ۔ کیس چونکہ سپریم کورٹ میں ہے اِس لیے اِس پر کوئی تبصرہ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن حالات بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن کی طرح اِس بار بھی فیصلہ نوازلیگ کے حق میں ہی آئے گا۔ کپتان نے سپریم کورٹ میں کہا ”اپوزیشن کا کام الزام لگانا ہے ، ثبوت فراہم کرنا نہیں“۔

جس پر کورٹ روم نمبر 2 قہقہوں سے گونج اُٹھا۔معزز جج صاحبان نے فیصلہ ثبوتوں کی بنیاد پر دینا ہے اور ثبوت مدعیان کے پاس ہیں نہیں، اِس لیے فیصلہ صاف ظاہر ہے۔ سیاست کے گھاگ کھلاڑی آصف علی زرداری خوب جانتے ہیں کہ سڑکوں پر نکلنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ وہ یہ تو ضرور چاہیں گے کہ فیصلہ نواز لیگ کے حق میں آنے کی صورت میں تحریکِ انصاف اپنی توانائیاں سڑکوں پر ضائع کرے لیکن وہ خود احتجاجی سیاست سے گریز ہی کریں گے ۔

اسی لیے زرداری صاحب نے اپنے اور بلاول کے لیے پارلیمنٹ کا راستہ چُنا ہے ۔ اب دونوں باپ بیٹا پارلیمنٹ میں نظر آئیں گے اور کپتان کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ پیپلز پارٹی ”فرینڈلی اپوزیشن“ کا کردار ادا کر رہی ہے۔
سیاسی بساط کے ماہرآصف زرداری نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ الیکشن قریب آن لگے ہیں اور پیپلز پارٹی کو سنبھالنا نوجوان بلاول کے بَس کا روگ نہیں اِس لیے وہ اپنی ڈیڑھ سالہ خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان چلے آئے اور آتے ہی ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے انتہائی متوازن خطاب کیا جس سے نہ صرف بلاول کے نعروں کی قلعی کھُل گئی بلکہ پیپلز پارٹی کی سمت کا تعین بھی ہو گیا اور ایک عام فہم شخص کو بھی پتہ چل گیا کہ پیپلز پارٹی اپنی جدوجہد جمہوری انداز میں ہی آگے بڑھائے گی اور اگر وہ احتجاجی جلسے ، جلوس اور ریلیاں نکالتی بھی ہے تو یہ دراصل آمدہ انتخابات کی تیاری ہو گی ۔

اب پیپلز پارٹی اپنے اوپر لگا ”فرینڈلی اپوزیشن “ کا لگا ہوا داغ دھونے کی تو بھرپور کوشش کرے گی لیکن کپتان کی طرح ”سُرخ لکیر“ کبھی نہیں پھلانگے گی۔
آصف زرداری کہتے ہیں ”مجھے پارلیمنٹ میں جانے کا شوق نہیں، میں عوام کی خاطر پارلیمنٹ میں جا رہا ہوں۔ اب عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر خاموش نہیں رہ سکتا“۔ یہ ایسا گھِسا پِٹا نعرہ ہے جو ہمیشہ انتخابات سے پہلے ہی سنائی دیتا ہے ۔

ویسے بھی پیپلز پارٹی کا تو انتخابی نعرہ ہی ”روٹی ، کپڑا اور مکان“ ہے،جس کی بازگَشت بھٹو مرحوم کے دَور سے اب تک متواتر سنائی دیتی رہتی ہے ۔ یہ الگ بات کہ عوام سے روٹی ، کپڑا اور مکان چھیننے میں ہمیشہ موٴثر ترین کردارآصف زرداری کا ہی رہا ہے جنہیں کبھی ”مسٹر ٹین پَرسینٹ“ اور کبھی ”مسٹر سینٹ پَر سینٹ “ جیسے القابات سے نوازا گیا۔

غضب کرپشن کی عجب کہانیاں بھی اُنہی کے دَور میں مشہور ہوئیں۔ جب آصف زرداری قومی دولت سمیٹ کر اپنے غیرملکی خزانے بھریں گے تو پھر اکابرینِ پیپلزپارٹی کا ہاتھ کون روک سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزرائے اعظم سے لے کر ایک عام عہدیدار تک کرپشن کے حمام میں سبھی ننگے نظر آتے ہیں۔ اِس لیے آصف زرداری کی زبان سے غریبوں کی ہمدردی کے بول اچھّے نہیں لگتے۔


کپتان پر کرپشن کا کوئی ایسا الزام تو بہرحال نہیں لیکن وہ احتجاجی سیاست اور بار بار کے یوٹَرنز سے اپنی توانائیوں کو بڑی حد تک ضائع کر چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی جماعت اندرونی طور پر شدید انتشار کا شکار ہے ۔ یہ الگ بات کہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ایک سینئر لکھاری نے لکھا ہے کہ عمران خاں نے وزیرِاعظم کے خلاف نقاب کشائی کی مہم چلا رکھی ہے ۔

وہ لکھتے ہیں ”میں عمران خاں کو ظلم کے خلاف لڑنے والے مجاہدین میں شمار کرتا ہوں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خاں نے کیا حاصل کیا؟۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کِس بے جگری سے طاقت کا مقابلہ کر رہا ہے ۔۔۔۔ وہ کرکٹ میں بھی ہیرو تھا اور سیاسی جدوجہد میں بھی ہیرو ہے۔۔۔۔بھگت سنگھ پھانسی کے پھندے پر جھول کر اَمر ہو گیا ۔ بھٹو صدیوں سے پِسے ہوئے عوام کی زنجیریں توڑنے کے لیے میدان میں اُترا اور پھانسی چڑھ گیا لیکن ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا ۔

اِن دِنوں عمران خاں ڈراوٴنا خواب بَن کر حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رہا ہے ۔ حکمرانوں کے پالتو ”کوّے“ عمران خاں کو ہر چوٹ لگنے پر کائیں کائیں کرتے ہوئے ناچتے ہیں لیکن ابھی تک اُسے شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے “۔ حیرت ہے کہ لکھاری موصوف تو عمران خاں کے مخالفین کی صفِ اوّل میں شمار ہوتے تھے ۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے لکھا تھا ” سونامی گَٹر میں بہہ گئی“ لیکن پھر اچانک یہ کایا کلپ کیسے ہو گئی ؟۔

ویسے یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں کیونکہ موصوف کا ماضی کچھ ایسا ہی ہے ۔وہ کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے ”جیالے“ ہوا کرتے تھے ۔ بھٹو مرحوم کو زوال آیا تو ضیاء الحق مرحوم کے پہلو میں پائے جانے لگے ۔ میاں نوازشریف چونکہ ضیاء الحق کو بہت پسندتھے، اِس لیے موصوف میاں صاحب کے ساتھ نتھی ہو گئے اور 1999ء تک اُن کی ”کائیں کائیں“ اپنے عروج پر رہی۔

اُنہیں میاں صاحب کے ”سپیچ رائٹر“ ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا لیکن جب میاں صاحب جَلاوطن ہوئے تو موصوف نے بہ اندازِ حکیمانہ پرویز مشرف کے گُن گانے شروع کیے ۔ پھر آصف زرداری کی پاکستان آمد پر اُن کے مدح سَرا بنے ۔ اب اگر اُنہوں نے کپتان صاحب کو بھگت سنگھ اور بھٹو مرحوم جیسا قرار دے دیا ہے تو یقیناََ دال میں کچھ کالا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :