مایوسی نہیں ‘امیدکادامن تھامئے

اتوار 8 جنوری 2017

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج بھکر سے کسی ضروری کام کے بعد واپسی ہوئی باہر کھڑے ایک دوست نے فوراً گلے لگالیا اور پھر کالج کے بالکل سامنے کھلے ہوٹل میں لے گئے گپ شپ کے دوران کالج میں بیتے لمحوں کی یادیں تروتازہ ہونے لگیں‘کچھ ہونی انہونیوں کاذکر بھی چل نکلا ‘ بہت سے دوست چہروں کی کہانیاں بھی سنتے ‘سناتے رہے ‘وہ دوست ایک پرائیویٹ ادارہ میں نسبتاً اچھی پوسٹ پر تھا اس لئے خوشحالی واضح جھلک رہی تھی‘ گو کہ وہ اس وقت موٹرسائیکل پر تھا مگر ایک گاڑی گھر پر تھی جسے وہ عام طورپرشہر سے باہر جانے کیلئے استعمال کرتا ہے‘ گپ شپ کے بعد جونہی ہوٹل سے باہر نکلے تو ایک چارپائی پر نوخیز نوجوان بیٹھا دکھائی دیا‘ چونکہ دن بھر مختلف لوگوں سے رابطہ رہتاہے ‘سر راہ ٹکراؤ ہوجاتاہے ‘ کئی جوان بوڑھے‘ بچوں سرراہ نظرآجاتے ہیں اور چونکہ واقفیت نہیں ہوتی اس لئے وہ ہمیں اورہم انہیں نظرانداز کرکے چلتے نظرآتے ہیں لیکن اس نوخیز نوجوان کی آنکھوں میں اتر اپانی عجب کہانی سنارہا تھا۔

(جاری ہے)

ہم شاید آگے بڑھ جاتے مگر ہمارے دوست نے اس نوجوان کے کاندھے پرہاتھ رکھا اور اپنی توجہ متوجہ کرتے ہوئے پوچھا ”یار! خیریت تو ہے ناں“ وہ نوجوان تھوڑا جھجھکا اور پھر بولا ” جی خیر یت ہی ہے بس ذرا طبیعت ٹھیک نہیں ہے“ مگر ہمارے دوست( جنہیں ہم اکثرکریزی کہہ کرچھیڑاکرتے تھے) بھلاکب رکنے والے تھے وہ اس نوجوان کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گئے اوراس سے گپ شپ شروع کردی اپناتعارف کرایا اور پھر اپنے بارے بتایا کہ وہ اس کالج میں پڑھتا رہا کیا آپ بھی اسی کالج کے طالبعلم ہیں؟ وہ نوجوان بولا ” جی! میں اسی کالج میں پڑھتاتھا مگر اب نہیں؟“ پوچھا ”کیا تعلیم مکمل کرلی؟ وہ بولا ” جی نہیں ‘میں ایم بی بی ایس کرناچاہتاہوں اس لئے ایف ایس سی پڑھی مگر نمبربہت کم آنے کی وجہ سے امید نہیں ہے کہ مجھے ایم بی بی ایس میں داخلہ مل سکے‘ میرے والد ین بھی چاہتے ہیں کہ میں ڈاکٹربنوں‘ علاقہ کے لوگ بھی جانتے ہیں کہ ڈاکٹربننا میری خواہش ہے مگر نمبر کم ہونے کی وجہ سے اب میرا داخلہ نہیں ہوسکے گا اوراب تو لوگ بھی میرا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ دیکھو ڈاکٹرآرہا ہے جو ڈاکٹربنتے رہ گیا’“
یہ بات کہتے ہوئے اس نوجوان کاگلہ رندھ گیا‘ ہمارے دوست نے کہا کہ ”یار نمبر بڑھانے کیلئے کم نمبروں والے پیپرز دوبارہ دے دو“ وہ نوجوان بولا ” یہ کوشش کرچکاہوں مگر ․․․․․“ ہمارے دوست نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا ”جانتے میں اسی کالج میں پڑھتا رہا‘ ایف ایس سی نہیں سمپل ایف اے کاطالبعلم تھا مگر فیل ہوگیا پھر․․․․․․․․․“ وہ تھوڑی دیرکورکا اورپھر بولا” میں بہت مایوس تھا ‘میری خواہش تھی کہ بی اے‘ ایم اے کرکے کسی اچھی سرکاری نوکری پہ لگ جاؤنگا مگر پہلی ہی منزل پرناکامی نے دل توڑ دیا ‘مگر جانتے ہو میں مایوس نہیں ہوا ‘ پرائیویٹ ایف اے کرنے کے بعد ایک دوست کے ساتھ دکانداری شیئر کرلی ‘ پھر اسی دوران بی اے کیا اور پھر ایم اے بھی پرائیویٹ کیا ساتھ ساتھ کبھی دکانداری ‘کبھی ٹیوشن کاسلسلہ بھی جاری رکھا اورآج میں ایک پرائیویٹ ادارے میں اہم پوسٹ پرہوں‘ ساتھ ساتھ ایک این جی اوز کا حصہ بھی ہوں ‘ میں جب کبھی فیلڈ میں جاتاہوں تو آپ جیسے ہی نوجوان کو مایوسی کاشکار دیکھ کر مجھے اپنا گزرا وقت یاد آجاتا ہے مگر یاد رکھنا کہ زندگی میں آنیوالی کوئی بھی ناکامی ہمیشہ نہیں رہتی ‘ یہ الگ بات کہ آپ جو چاہتے ہو اگر وہ نہیں ہوپاتا تو دوسری دفعہ کوشش کرو اگر ناکام رہو تو پھر کسی دوسری فیلڈ کارخ کرلو ‘ ہوسکتا ہے کہ آپ کواس میں کامیابی ہو‘ہوسکتا ہے کہ رب کریم نے آپ کیلئے کسی دوسری کامیابی کا انتظام کررکھا ہو‘ لہٰذا کسی ایک ناکامی پر دل ہار دینا مناسب نہیں“ ہمارے دوست کی باتوں کا اس نوجوان پر کچھ نہ کچھ اثرضرور دکھائی دے رہا تھا‘ وہ پھربولا” دیکھو آپ ابھی بہت کم عمر ہو‘ ابھی تو یوں سمجھ لوآپ نے زندگی کو دیکھا ہی نہیں سمجھاہی نہیں ‘اگربناسمجھے ‘بنادیکھے ہی زندگی کے بارے میں قیاس آرائیاں اوراندازے قائم کروگے تو ناکام ہی رہوگے ‘ اب یوں سمجھ لو ‘زندگی کرکٹ کے چھ بالوں پرمشتمل اوور ہے‘ آپ بیٹنگ کررہے ہیں سامنے ایک بہت ہی تیز اوراچھاباؤلر موجود ہے‘ وہ آپ کو پہلی بال کرا تاہے ‘بال اچھی اورتیز رفتار تھی ‘مس ہوگئی ‘ آپ تھوڑامایوس ہوئے دوسری بال آئی مس ہوگئی آپ کی مایوسی میں اضافہ ہوگیا لیکن اگر آپ نے دل ہاردیاتو باقی چاربالیں بھی ضائع چلی جائیں گی لہٰذا آپ نے یہ سوچ کردل اوربلا مضبوطی سے سنبھالا ‘باؤلر پہلی دو بہترین بالوں کے زعم میں تیسری بال پھینکنے آیا مگر وہ اس طرح بال نہیں پھینک سکا جس طرح چاہتاتھا بس آپ کو موقع مل گیا آپ نے آگے بڑھ کر بلا گھمایا‘ بال بیٹ کا ٹکراؤہوا اوربال چھ رنز کیلئے باؤنڈری سے باہر چلی گئی‘ یعنی آپ کی پہلی دوبالوں کی کسر نکل گئی۔

اب آپ نے تین بالیں کھیل کرچھ رنز بنالئے گویا آپ باؤلر پرحاوی ہوگئے اس طرح اگر آپ دل ہارنے کی بجائے مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہوتو باقی تین بالوں پر تین چھکے بھی لگ سکتے ہیں تین چوکے بھی لگ سکتے ہیں لیکن اگر آپ پہلی دونوں بالوں کے ضائع ہونے پر دل ہارجاتے تو باقی چار بالیں بھی ضائع چلی جاتی ہیں۔ یوں سمجھ لو کہ وہ بالیں صرف بالیں نہیں تھی بلکہ زندگی میں آنیوالے مواقع تھے جن میں سے آپ پہلا موقع ضائع کرچکے ہو ‘ کوئی بات نہیں زندگی بہت پڑی ہے باقی پانچ بالوں یا اس کی صورت ملنے والے مواقع ضائع نہ کرو‘ دل اوربیٹ کو مضبوطی سے سنبھالے ‘زندگی کی پچ پرکھڑے رہو‘ ہوسکتاہے کہ اگلی باری آپ کا مدمقابل یعنی زندگی کوئی لوز بال پھینک دے اورآپ کی خوش قسمتی کام آجائے اورآنیوالی چانس بھی آپ حاصل کرکے مزید کامیابیاں سمیٹتے رہو‘ دیکھو ! دنیا میں بڑے بڑے کامیاب افراد کے پیچھے ایک ہی چیز مشترکہ ہے ‘جانتے ہو وہ کونسی ہے ؟؟“ وہ نوجوان ہونکوں سے دیکھے جارہے تھے مگر بول نہیں پایا‘ ہمارادوست پھر بولا” وہ چیز ہے ناکامی‘ ان لوگوں کی ناکامی نے ہی دراصل ان کی کامیابی کی بنیاد رکھ دی مگر وہ مایوس نہیں ہوئے اورہرکامیابی کو پہلی سمجھ کر آگے سے آگے بڑھتے ہی رہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :