”ٹرخالو گوشت “

جمعہ 6 جنوری 2017

Muhammad Nawaz Tahir

محمد نواز طاہر

سبزیوں کا بادشاہ آلو شائد کسی ملک میں سلطانِ سبزیات نہیں ہوگا ۔۔۔ کسی اور کیلئے ہونہ ہو ، ہم پینڈؤوں (دیہاتیوں )کیلئے تو ہے ۔ مٹی سے جڑے ہم لوگ اس کی بہن شکر قندی بھلے بھول جائیں لیکن بھائی کو کبھی نہیں بھولتے ، بھولیں بھی کیسے ؟ ہرے ہرے آل سے لیکر سرخ اور پھر سفید ہونے تک اسے بھانبڑ(الاؤ) میں ایسے پھینکتے تھے کہ بر صغیر کی بھلی چنگی پندٹ رنگت بھی لمحوں میں حبشی بن جاتی تھی ، اسے پیار سے مختلف انداز میں مزے اڑاتے ہوئے ہاتھ اور منہ دونوں ہی حبشی بن جایا کرتے تھے ۔


آلو ہنڈیا میں مرچ مصالحوں کے’ میک اپ ‘ سے بہت سی سبزیوں کا دلہا بنتا ہے ۔۔۔ سب کا سواد ( ذائقہ ) الگ الگ ہے جس میں آلو صاحب کی شناخت اور شان و شوکت اپنی ہی ہوتی ہے ۔۔۔۔ گوشت میں اس کا الگ ہی مزا ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔ شہر والے اس ذائقے کو کیسے جانتے ہیں اس کا تو معلوم نہیں لیکن ہمارے علاقے میں سائبریا ہجرت کرکے آنے والے مرغابی کبھی اپنی ماڑی (کمزور) جسامت کی وجہ سے ہتھے چڑھ جاتی تو زیادہ حصے دار ہونے کی وجہ سے ہم ہفتہ وار اورآوارگی کے سزاوار چرواہے سالن پورا کرنے کیلئے اس میں بھی آلو شامل کرلیا کرتے تھے ، ہر بار نبرداری نہیں چلتی تھی ، کبھی کبھی بوٹی کے بجائے صرف آلو ہی حصے میں آیا کرتے تھے ۔

۔۔ اب چالیس برس بیت گئے ہیں ، نہ چراگاہ رہی ، نہ چرواہے اور نہ ہی ہفتہ وارا ٓوارگی کے سزا وار ٹھہرانے اور سزا دینے والے ، و ہ بڈھ دریا بھی اپنے آثار مٹا چکا ہے جہاں مرغابی آیا کرتی تھی ۔۔۔۔آلو البتہ موجود ہے ، یہ الگ بات ہے کہ مقامی پیداوار بڑھنے، آڑھتیوں کے سٹوروں میں غائب ہونے پھر درآمدی آلو بھی سونے کے بھاؤ ملتا ہے لیکن نظروں سے اوجھل ہوتا ہے نہ ہونے دیتا ہے ۔

۔۔۔
آلو گوشت کا اپنا ہی کمبی نیشن ہے لیکن اس پر ایک بہت بڑا ظلم سٹیج پر ایک خاص انداز اور نشان بناکر کی جانے والی ہائے ہائے ،، ، نے ڈھادیا ہے ۔۔۔ اس ڈش کو میراثیوں ( کسی کی ممکنہ دل آزاری پر پیشگی معذرت) خصوصی ڈش قراردیا گیا ہے جس سے اس پر زوال یہ آیا ہے کہ غیر میراثی بیچے ہوگئے ہیں اور کھلے عام آلو گوشت کہنے سے کم و بیش ایڈز جیسی احتیاط برتنے لگے ہیں ۔

۔۔۔
لائئوسٹاک کی پرورش، بڑھوتری ، کم ہوتی پیداوار اور بڑھتی ہوئی آبادی پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے گوشت عام ادمی کی پہنچ سے ناپید ہونے کی حد تک دور ہوچکا ہے ، اس کی جگہ ولائتی مرغی ( برائلر) لے چلی ہے ۔ کسی زمانے میں ککڑ ( مرغ ) بری شا ن والی ڈش ہوتی تھی اور عام طور پر مہمان ہی اس نعمت سے فیض یاب ہوتے تھے ، بیمار ہونے ، شوق جوش مارنے یا مناسب پیداور کی صورت میں ککڑ زبح ہوتا تھا اور اس میں بھی آلو شریف رونق افرا ہوجایا کرتے تھے ۔

۔۔ مرغبانی بھی زول پذیر اور برائلر کو فروغ ملنے سے اس کی پرورش کیلئے خوراک بھی ادویات میں بدل گئی ہے جس سے ذائقے پر بھی خاصا فرق پڑا ہے اور اب اس کی پسندیدگی اور کھانے کی شرح میں بتدریج کمی واع ہورہی ہے ، ہم دیہاتی لوگوں نے برائلر گوشت کو ویسے ہی ٹرخالو گوشت کا نام دیدیا ہے کہ یہ گوشت ووشت نہیں بلکہ گوشت کے نام پر خود کو فریب دینے والے یا دوسرے کو ٹرخانے کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے تاکہ بس مہمان کو بوٹی بھی مل جائے اور عزت بھی رہ جائے ورنہ مٹن ، بیف تو وارے میں نہیں ہے باقی کسر گدھا اور گھوڑا گوشت نے پوری کردی ہے ، اسلئے ٹرخالو گوشت ہی مجبوری بن گیا ہے ، مچھلی ایک الگ مسئلہ ہے ، مچھلی فارموں میں بھی برائلر فش کی تیاری شروع ہوگئی ، ان فارموں میں بھی پونگ سے لیکر’ دانا ‘ بننے اور پھر قابلِ استعمال مچھلی بننے تک کے عمل میں دی جانیوالی خوراک میں ویسی ہی ادویات شامل ہونا شروع ہوگئی ہیں جو برائلر مرغی کو دی جارہی ہیں جس سے لگتا ہے کہ مچھلی فارموں کی پیداوار بھی آئندہ کچھ سالوں میں ٹرخالو گوشت کی طرح بے ذائقہ ہوکر رہ جائے گی۔

اندیشہ ہے کہ جس طرح آبادی میں اضافے اور لائیو سٹاک کی پیداوار میں تیزی سے کمی پر توجہ نہیں دی گئی اسی طرح پانی کی بڑھتی ہوئی کمی اور ذخائر نہ ہونے سے دریائی مچھلی کی جگہ بھی یہی ٹرخالو مچھلی لے لے گی ، دودھ ویسے ہی بالصفا پاؤڈر سمیت دیگر کیمکلز کی مددسے لوہے بھینسیں دے رہی ہیں ۔۔۔ اگلے دنوں میں ہم کھائیں گے کیا پیئیں گے ؟ ٹرخالوگوشت،،،، ٹرخالو مچھلی اور ٹرخالو دودھ ۔۔۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :