مہذب معاشرے

جمعہ 6 جنوری 2017

Hussain Jan

حُسین جان

دُنیا کہ بہت سے رنگ ہے،ہر ملک، صوبے،شہر،محلے یہاں تک کہ ہر گلی کا بھی اپنا ہی انداز ِ زندگی ہوتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں پھیلے بنی نوع انسان جس جس جگہ پر بستے گئے اُس کے حساب سے طرز زندگی اپناتے گئے جن کو بعد میں آنے والے لوگوں نے تہذیب و تمدن کا نام دیا۔ پہلی تہذیب کو پتھر کے دور کی تہذیب کہا جاتا ہے ۔ ویسے پتھر کے زمانے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لوگ مہذب نہیں تھے۔

ہاں بہت سی چیزیں جو اس دور میں دریافت و ایجاد ہوئی وہ پہلے نہیں تھیں بہت سے کام ایسے تھے جو آج کے دور میں آسان پر پہلے ناممکن دیکھائی دیتے تھے۔ لوگ آپس میں مل جل کر رہتے تھے ایک دوسرئے کی ضروریات کا خیال کرتے تھے،مائیں تب بھی بچوں سے اُتنا ہی پیار کرتی تھیں جتنا آج باپ تب بھی گھر کی زمہ داری ایمانداری سے پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

(جاری ہے)

پھر آہستہ آہستہ دُنیا بدلتی گئی ،بہت سے ممالک نے ترقی کی تمام منازل طے کر لی اور کچھ اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔
پھر لوگوں نے دُنیا کو نمبروں میں تقسیم کردیا یعنی پہلی دُنیا کے لوگ دوسری دُنیا کے لوگ اور تیسری دُنیا کے لوگ۔ پہلی دُنیا کے لوگ اُن ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے ترقی کی تقریبا تمام منازل طے کر لیں اور مزید ترقی کی طرف جا رہے ہیں۔

نت نئی ایجادات اور دریافتیں ان ممالک کی مرحون منت ہیں۔ تعلیم میں بھی یہ ممالک اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اپنے شہریوں کی حفاظت ان کا اولین فرض ہے۔ ایسے ممالک میں جب کوئی آفت آتی ہے تو یہ ممالک بڑی جان فشانی سے ان آفات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وسائل کی تقسیم میں میانہ روی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ بے روزگاروں کو الاؤنسنز دیے جاتے ہیں۔ مریضوں کے لیے بہترین ڈاکٹر اور ہسپتال موجود ہیں۔

تعلیم کے بہترین مواقع موجود ہوتے ہیں۔ بے گھر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ رہنے کے ٹھکانے مہیا کیے جاتے ہیں۔ انرجی کی تمام سہولیات موجود ہیں۔ بارش،زلزلہ،سیلاب اور یہاں تک کہ سونامی کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا جاتا ہے اور لوگوں کی زندگیوں کو بروقت بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رشوت،سفارش کے کلچر کو انتہائی برا سمجھا جاتا ہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔

مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند رکھا جاتا ہے۔ لوگوں کی عزت و جان کی زمہ دار حکومت ہوتی ہے۔ مزدور کی اجرت بروقت ادا کی جاتی ہے ۔ وڈیروں کی کوئی نسل ان ممالک میں نہیں پائی جاتی۔ لوگوں کو کتوں کے آگے چھوڑنا یہاں کے رواج میں شامل نہیں۔
اب آتے ہیں دوسری دُنیاکے لوگوں کی طرف۔ ان لوگوں کا اُن ممالک سے تعلق ہوتا ہے جو زرہ کم ترقی یافتہ ہوتے ہیں بلکہ ترقی پذیر کہلاتے ہیں۔

یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ پاکستان ،انڈیا،افغانستان ، جیسے ممالک بھی خود کو ترقی پذیر ممالک میں شمار کرتے ہیں جو کہ درست نہیں۔ ان کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔ خیر بات ہو رہی تھی ترقی پذیر ممالک کی۔ یہ ممالک تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک ہوتے ہیں۔ ان ملکوں نے اپنے اپنے آئیڈیل بنا رکھے ہیں کو ئی امریکہ ،روس کے پیچھے بھاگتا ہے تو کسی نے یورپ کی دم تھام رکھی ہے، کچھ کا قبلہ جاپان کی طرف جاتا ہے۔

یہ ممالک بھی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ وہ تمام سہولیات جن کا اُوپر زکر کیا گیا ہے اپنے شہریوں کو پہم پہنچایں۔ ملک میں امن امان کو بہال رکھیں اور ترقی کی شرع کو کسی صورت بھی کم نہ ہونے دیا جائے۔ ایسے ممالک کا زیادہ فوکس تعلیم کی طرف ہوتا ہے۔ کیونکہ تعلیم یافتہ معاشرہ ہی جلد ترقی کی مناز ل طے کرتا ہے۔ اگرچہ لوگوں کے پاس وہ تمام وسائل موجود نہیں ہوتے جو پہلے نمبر والے ممالک کے شہریوں کو میسر ہوتے ہیں ۔

لیکن اس کے باوجود ان ممالک کے شہری خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ اور نئے نئے راستے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ان ممالک کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ آسمانی آفات کا مقابلہ کیا جائے۔ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع مہیا کیے جائیں۔ صحت کی بہترین سہولتوں سے شہریوں کو خوش رکھا جائے۔ ان ممالک میں سے بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑئے ہو جاتے ہیں۔

کیونکہ ان ممالک کے حکمران، دانشور،بیوروکریٹس،ججز ترقی یافتہ ممالک پر مسلسل تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ لہذا یہ بھی مہذب معاشرے کی طرف اپنا سفر جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔
لیں جی اب باری ہے تیسری دُنیا کے لوگوں کی۔ جن میں زیادہ تر ایشاء اور افریکہ کے ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کے عوام کو کوئی بھی سہولت پوری طرح میسر نہیں ہوتی۔ اگر ہسپتال ہیں تو وہاں ادویات یا ڈاکٹر موجود نہیں ہوں گے۔

صفائی ستھرائی کی سہولتیں ناپید ہوں گی۔ لوگ فرشوں پر مر رہے ہوں گے۔ تعلیم کے مواقع یکساں نہیں ہوں گے۔ اشرافیہ کے بچوں کے لیے الگ نظام تعلیم اور غرباء کے بچوں کے لیے الگ نظام تعلیم ہوگا۔ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر نجی کلینک پر لوگوں کو زیادہ توجہ دیں گے۔ سرکاری سکولوں میں کہیں فرنیچر موجود نہیں ہو گا یا باتھ رومز کی سہولت موجود نہیں ہوگی۔

تمام اداروں میں گھوسٹ ملازمیں بھرتی کیے جائیں گے۔ رشوت،سفارش کا کلچر عام ہوگا۔ مہنگائی زوروں پر ہو گی۔ لوگ ایک دوسرئے کی گردنیں کاٹ کر ترقی کرنے کے مواقع تلاش کرتے پائیں جائیں گے۔ حکمران نااہل اور اپنے اپنے من پسند لوگوں کو نوازنے پر لگے ہوں گے۔ ملک میں بہت سے ایسے مقامات پائے جائیں گے جن میں حکومتی رٹ نہیں ہوگی۔ فرقہ ورانہ خون خرابی معمول ہو گا۔

دہشت گردی عام ہو گی۔ لوگوں کے حقوق کو سلب کیا جاتا ہوگا۔ اگر کوئی آسمانی آفت آجائے تو اُس کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل موجود نہیں ہوں گے۔ سالوں سال تک لوگوں کی بہالی کا م ختم نہیں ہوتا۔ کرپشن اپنے زوروں پر ہوتی ہے۔ قانون امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ ہو گا۔ اگر کچھ سہولتیں موجود ہوں گیں بھی تو اُن میں تسلسل نہیں ہوگا۔ کچھ عرصہ بجلی ،گیس ملیں گی باقی وقت کے لیے نہیں ملے گی۔

اگر گرمی کا موسم ہو گا تو بجلی غائب ہو جائے گی۔ سردیوں میں گیس کی قلت سر اُٹھا لے گی۔ ایسے ممالک کے لوگوں پر وبائی امراض بہت جلد اثر انداز ہوتے ہیں۔ تحقیق و تعلیم ان ممالک کی کبھی بھی ترجیح نہیں ہوتی۔قبائلی اور وڈیرہ نظام ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہوگا۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہو گی۔ ایسے ممالک کو پہلی اور دوسری دُنیا کے لوگ غیر مہذب قرار دیتے ہیں بلکہ دُنیا میں انتشار کے زمہ دار بھی ایسے ممالک کے شہریوں کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔


تو یہ ہے آج کے مہذب معاشرئے۔ بہت سی تہذیبیں آئیں اور چلی گیں ان کا زکر اب صرف کتابوں میں ملتا ہے یا آثار قدیمہ میں۔ جن لوگوں نے خود کو بدلنا تھا اُن نے بدل لیا۔ کچھ آج بھی پرانی روش پر چل رہیں شہریوں کی بجائے اپنی اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ جب تک حکمران اور اشرافیہ اپنے ملک کے شہریوں سے انسانوں جیسا سلوک نہیں کریں گے تب تک کوئی بھی ملک مہذب معاشرہ نہیں بن سکتا۔ جس ملک کے انتہائی پڑھے لکھے لوگ معصوم ملازمیں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے ہوں وہ معاشرے بھلا کیسے مہذب معاشرے بن سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :