پاکستانیت کیا ہے

اتوار 1 جنوری 2017

Jahid Ahmad

جاہد احمد

آزادی کے انہتر برسوں بعدآج ریاستِ پاکستان میں شہریوں کے لئے ’پاکستانیت‘ کا تصور کیا ہے یا کیا رہ گیا ہے؟ سڑک کے نکڑ پر واقع نذیر مکینک کی دوکان پر صبح سے رات گئے تک اوزار تھامے، موٹر سائیکلوں کی مرمت کرتے، گریز سے ہاتھ منہ کالا کرنے والے اسلم چھوٹو کے لئے ہر برس چودہ اگست کے دن لال صابن سے چہرہ چمکا کر سبز ہلالی پرچم کا سٹیکر سانوالے پچکے گالوں پر چپکا نااورکشاپ پر کھڑی کسی بھی دستیاب موٹر سائیکل سے سلنسرنکال کر جان کی پرواہ کئے بنا پورے جوش سے پھٹپٹی کوالٹے سیدھے ہو کر بھگانا اسلم چھوٹو کی ’پاکستانیت‘ ہے۔

بیرونِ ملک مقیم اعلی تعلیم یافتہ جمشید’ جِمی‘ اور شگفتہ’ شیگی‘ کے لئے سوشل میڈیا پر پاکستان کے معاشی ، معاشرتی، داخلی، خارجی اور سیاسی حالات پر ہمہ وقت سخت افسوس و ملال کا اظہار کرنا اور کڑھتے رہنے کے باوجود ریاست کو زرِ مبادلہ بینکاری نظام کے ذریعے ترسیل کر کے ملکی وسائل میں اپنا بھر پور حصہ ڈا لنا جمی اور شیگی کی ’پاکستانیت‘ ہے۔

(جاری ہے)

وطنِ عزیز میں بسنے والے بلوندر سنگھ اور ہری شنکر کے لئے ’پاکستانیت‘ نام ہے روز و شب کی اس انتھک تگ و دو کا کہ جس کا واحد مقصد اکثریت کو یہ یقین دلانا ہے کہ اقلیت کے یہ کم حیثیت مشکوک نمائیندے بلوندر اور ہری جو کچھ بھی ہوں لیکن غدار نہیں ہیں، ایجنٹ نہیں ہیں۔ اقلیت کا اکثریت کے تابع رہنا، کم تر حقوق ، نا انصافی ، جبرو تضحیک کے رویے پر مطمئن و شاد نظر آنا اور کسی بھی قسم کی رنجش کا برملا اظہار نہ کرنا اقلیت کی عمومی ’پاکستانیت‘ ہے۔

پرانی زنگ آلود سائیکل کے پچھواڑے موجود ٹوٹے پھوٹے کیئریر میں پھنسائے گئے لاغر، لمبے، لچکیلے بانس کو گلی گلی گھسیٹ کر گھروں کے بند گٹر کھولنے والے پلید ہاتھوں پیروں کے مالک پینسٹھ سالہ مِیدے جمعہ دار کے لئے گند سے بھرے گٹروں والے پاکباز معاشرے کی جانب سے تحقیر آمیز رویے کو پورے سکون سے ماتھے پر شکن لائے بنا اپنا حق جانتے ہوئے ریزگاری سمیت مسکرا کر وصول کرنا اور کہیں دور پرے سے کمزور پڑ چکے کانوں میں قومی ترانے کی آواز پڑتے ہی پوری عقیدت سے سر جھکا لینا مِیدے جمعدار کی ’پاکستانیت‘ ہے۔

کسی ایک گروہ کے لئے ہر دوسرے دن دشمن کی میلی آنکھیں نکال کر اسی کے ہاتھوں پر دھر دینے کا عزم دہراتے رہنا ’پاکستانیت‘ ہے تو دوسرے گروہ کے لئے ’پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہ الالله‘ کے نعرے بلند کرنا ’پاکستانیت‘ ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کی مسلم اقلیت کے آئینی حقوق کا مقدمہ پاکستان کی صورت میں جیتا تھا۔

پاکستان ابتدائی طور پر ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ریاست کا نام تھا۔ پاکستان ایک وفاقی انتظامِ ریاست تھا جس کی اکائیاں ،صوبوں اور الحاق شدہ ریاستوں کی صورت میں، اپنے انتظامی امور چلانے کے لئے سیاسی خود مختاری رکھتی تھیں ۔’پاکستانیت‘ نام تھی ریاستِ پاکستان کے شہریوں کے وفاق پر یقین اور اس سے وفاداری کا جبکہ ’پاکستان‘ نام تھا وفاق کی جانب سے تمام شہریوں کو مساوی آئینی حقوق و سہولیات و آزادی فراہم کیے جانے کے عہد کا۔

کیونکہ ریاست اور شہریت دوطرفہ رجحان یا معاملہ ہے لہذا پاکستانیت کے فروغ کا تصور ریاستِ پاکستان کی جانب سے اپنے شہریوں سے متعلق فرائض کی مکمل عدائیگی کے بنا ممکن ہی نہیں تھا۔کسی بھی ریاست کے فرائض قانون سازی کی بنیاد پر طے پاتے ہیں جبکہ قانون سازی بذاتِ خود اُن متفقہ اصولوں اور مفادات کی ترجمانی کرتی ہے جن کی یقین دہانی پر شہری ریاست کی تخلیق پر اتفاق کرتے ہیں۔

ایک مضبوط اور موثر وفاقی ریاست کی تخلیق کے لئے ریاست اور شہریت کے اس دو طرفہ بنیادی اصول کی اہمیت قائد اعظم جیسے کہنہ مشق قانون و سیاست دان سے بہتر کون جان سکتا تھا!اسی بنا پر قائدِ اعظم نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے 11 اگست 1947 کے خطاب میں ریاست ِ پاکستان کی آئین سازی سے متعلق ایسے رہنما اصول بیان فرمائے جن کے تحت ریاست کی جانب سے تمام شہریوں کو مساوی حقوق فراہم ہونے تھے ، ریاست کسی طور مذہبی یا علاقائی یا ذات پات کی بنیادوں پر کسی شہری سے کوئی امتیاز نہیں برت سکتی تھی اورریاست کا واحد مقصد شہریوں کی فلاح و بہبود قرار دیا گیا تھا۔


قیامِ پاکستان کے وقت’پاکستانیت‘ ایک طرف شہریوں کے وفاق پر یقین اور اِس سے وفاداری کا تصور تھی تو دوسری طرف وفاق کی جانب سے شہریوں کے لئے مساوی حقوق کی امید تھی، جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے خاتمے کا وعدہ تھی، معاشی و معاشرتی و مذہبی آزادی و ہم آہنگی تھی، عوامی نظامِ حکومت اور عوامی مفادات کے تحفظ کا انتظام تھی، تعلیم و ترقی و روزگار کے یکساں مواقعوں کی فراہمی کی نوید تھی! ریاست اور شہریت کے اسی دو طرفہ اصول میں پیدا ہوئے مسلسل عدم توازن نے پاکستانیت کے تصور کو درجہ بہ درجہ دھیرے دھیرے مجروح کیا ہے۔

اسی نازک اصول میں بگاڑ کے باعث ریاستی ڈھانچہ کمزور پڑا،عو ام کا اعتماد ریاست پر سے جاتا رہا اور سقوطِ ڈھاکہ جیسے قومی سانحہ کے لئے زمین ہموار ہوئی۔ اسی پاکستانیت کے تصور کو مفاد پرست ٹولوں سے لے کر مقتدرِ اعلی اور مطلق العنان حکمرانوں نے اپنے مفادات و اقتدار کے حصول و طوالت کی خاطر نئی سے نئی اشکال میں پیش کر کے شہریوں کے لئے ’پاکستانیت‘ کو حقوق کے حصول اور ریاست کے فرائض سے مکمل قطع تعلق کر کے اس کا تار محض ریاست سے وفاداری کے نام پرمخصوص ہیجانی کیفیات اور رجحانات سے جوڑ دیا ہے۔

آج شہریوں کے لئے پاکستانیت کا تصور محض کھوکھلی جذباتی نعرے بازی ، انفرادی طور پر اپنے آپ کو مہا پاکستانی اور ریاست کا آخری وفادار ثابت کرنے کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔
عوامی سطح پر اپنے حقوق کا تحفظ اور ریاست سے اپنے حقوق کے مطالبے کا شعور نا صرف انتہائی محدود ہے بلکہ ریاستی بد انتظامی کی بنیادی وجہ بھی بناہے ۔ جاگیر دار آج بھی جاگیر دار ہے، وڈیرہ وڈیرہ ہی ہے، غلام آزادی کے بعد بھی غلام ہی ہے ، ریاستی ادارے شہریوں پر بالا دست ہیں،اسلم چھوٹو سکول نہیں جاتا کیونکہ ریاست اُسے اُس کا بنیادی آئینی حقِ تعلیم عملی طور پر فراہم کرنے سے قاصر ہے، بلوندر اور ہری سر اٹھا کر سینہ تان کر سڑک پر نہیں چل سکتے کیونکہ ریاستی قوانین مذہبی بنیادوں پر شہریوں سے امتیاز برتتے ہیں، بوڑھے مِیدے جمعدار کو بیماری میں بھی گٹر کھولنے ہوں گے کیونکہ ریاستی اخراجات کی ترجیحات میں مِیدے اور ان جیسے پاکستانیوں کا نمبر نچلی ترین ترجیحات میں بھی کہیں آخر میں منہ چڑاتا ہے، جِمی اور شیگی پاکستان سے محبت کرتے ہیں لیکن اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کر پاتے کیونکہ ریاست انہیں پاکستان سے باہر بیٹھ کر حقِ رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔


ریاستِ پاکستان پر آج انہتر برس بعد بھی اپنے شہریوں کے ان تمام حقوق کو لے کر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جن کا وعدہ ریاستِ پاکستان کی تخلیق کے وقت کیا گیا تھا ۔اسی مقصد سے سوال کیا جانا ضروری ہے! ریاست کو جھنجھوڑنا ہو گا، حقوق کی مکمل فراہمی تک ،ریاست اور شہریت کے اصول میں توازن پیدا ہونے تک۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :