نوٹوں والی چڑیا

ہفتہ 31 دسمبر 2016

Rana Muaaz

رانا معاذ ممتاز

بچپن سے یہ ہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان سونے کی چڑیا ہے اللہ پاک نے بے شمار معدنی وسائل ، زرخیز زمین ، انواع اقسام کے پھل ، سبزیاں ، دلکش اور خوبصورتی کے منبع پہاڑی علاقے اور اس طرح کی بہت ساری نعمتیں اس ارض پاک کی جھولی میں ڈالی ہیں اور جہاں پر اللہ کی نعمتوں کی اس قدر فراوانی ہو۔
وہاں پر استفادہ حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی غیر معمولی حد تک زیادہ ہوتی ہے اور سب کی ہمہ تن یہ ہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ان نعمتوں کو سمیٹ سکیں ۔

لیکن بعض اوقات جائز حاصل کی کوشش میں ناجائز طریقے کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے ، اب انسان فطرتاً خود غرض واقع ہوا ہے تو اس کی جبلت میں یہ بات شامل حال ہے کہ اپنا بھرو باقی سب کو چھوڑو بیشک غلط ، حرام رستہ ہی کیوں نہ اختیار کیا جائے ۔

(جاری ہے)

جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں نے ہندوستان سے ہجرت کی اور یہاں پہنچے ، چونکہ وہ سب جان بچاتے بچاتے یہاں پہنچے تھے لہذا اپنی دولت جائیداد سب کچھ وطن پر قربان کرکے آگئے ۔

اب وہ لوگ چونکہ محب وطن تھے اس لیے انہوں نے اپنے ملک کو ہی اپنا سب سے اہم سرمایہ اور اپنی قیمتی ترین جائیداد تسلیم کرلیا۔ان لوگوں کے جانے کے بعد ان کی جو نسلیں آئی اور جب انہوں نے اپنے آباؤاجداد کے ایثار و قربانی کی لازوال داستانوں کو سنا تو ان کے دل میں یہ بات آئی کہ جس ملک کی خاطر ہمارے اسلاف نے اپنی جائیدادیں قربان کی ہم اس ملک میں اپنی جائیدادوں کو کھڑا کریں گے اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے جائز اور ناجائز کا بھی خیال نہیں رکھا جائے گا کیوں کہ یہ تو ان کا جدی پشتی حق ہے کہ وہ ان تمام دولت جائیداد کے مالک دوبارہ بنے جن کے ان کے آباؤاجداد وارث تھے چنانچہ یہاں سے اس ملک کی بربادی کے افسوسناک سفرنامے کا آغاز ہوا۔


میرے ہاتھ لرز رہے ہیں میرے جسم پر کپکپی سی طاری ہے میرے سوچنے سمجھنے کے نظام پر کائی جم گئی ہے اور میری روح میرے جسم سے نکل کر میرے سامنے محو رقص ہے ۔یہ حالت میری آج تک نمازجنازہ کے موقع پر نہیں ہوئی میت کی تدفین کے وقت نہیں ہوئی حالانکہ اس وقت تو ہر وہ شخص جو صاحب العقل ہے عبرت کے گرداب میں اس حد تک پھنس جاتا ہے کہ کئی روز تک باہر نہیں نکلتا ،میں نے پھر ایسا کونسا منظر دیکھ لیا جو میت کی تدفین سے بھی زیادہ خوفناک اور عبرتناک تھا۔

ایک نیوز چینل ہمارے قومی منصوبے پر جو کہ عوامی فلاح بہبود کے لیے تھا اس میں ہونے والی ہوشربا بے ظابطگیوں کو چیخ چیخ کر بتا رہا تھا اول تو میں نے ان باتوں پر غور نہیں کیا لیکن بعد میں جب مجھے معاملے کی سنگینی کا علم ہوا تو میں نے انٹرنیٹ کی مدد حاصل کی اور حقائق تلاش کرنے لگا اور بہت جلد ہی میری حالت ویسی ہوگئی جو میں نے اوپر بیان کی ۔

میں نے نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ منصوبے کی تفصیلات پڑھی جس سے معلوم ہوا کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں شروع ہونے والا منصوبہ جس کی منظوری اس وقت کے وزیراعظم نے دسمبر 2012 میں دی اس کی تکمیل فروری 2013میں ہونی تھی لیکن حوس دھن آڑے آگئی اور یہ عوامی منصوبہ نام نہاد عوامی نمائندوں کے لالچ زر کی بھینٹ چڑھ گیا اور اب موجودہ حکومت جو اس منصوبے کی تکمیل کروارہی ہے تو چار سال گزر جانے کے باعث اس منصوبے کی لاگت جو پہلے 36ملین تھی اب وہ87ملین کی خطیر رقم بن گئی اور ابھی بھی پورے وثوق سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ منصوبہ کب مکمل ہوگا اور مزید اس کی لاگت میں کتنا اضافہ ہوگا۔

مجھے اب یہ کون بتائے گا کہ یہ جو اضافی 51ملین اس منصوبے کی لاگت میں شامل ہوئے ہیں یہ کس کے کھاتے میں سے کاٹے جائیں گے ؟؟ گزشتہ حکومت سے ؟؟؟ عوامی نمائندوں سے ؟؟ جس فرم کو یہ منصوبہ سونپا گیا اس سے ؟؟؟ اس ٹھیکیدار سے جس کی نگرانی میں کام ہوا ؟؟ یہ پیسے ہم غریب پاکستانیوں کے کھاتوں میں سے لیے جائیں گے اور اس کی وصولی مہنگائی میں اضافہ کرکے اور بھاری ٹیکس لگا کر ہوگی۔

اور باقی وہ حضرات جو اس منصوبے کا حصہ ہیں ان سب نے عوامی روپوں سے اپنی تجوریوں کے منہ بھر لیے اور مزید جمع کرنے کی فراغ میں بیٹھے ہیں ۔ان حالات کو دیکھ کر میں تو اپنے قارئین کو ایک ہی مشورہ دوں گا کہ اب سے اپنے ملک کو سونے کی چڑیا کہنے کی بجائے نوٹوں والی چڑیا کہنا شروع کردیں کیوں کہ اس چڑیا کی کھال پر جو سونا لگا ہوا تھا وہ تو بہت پہلے ہی ہڑپ کرلیا گیا ہے اب صرف نوٹ بچ گئے ہیں جن کو ہڑپنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :