کوئٹہ دھماکہ ،اتحاد برقرار رکھئے

ہفتہ 13 اگست 2016

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

خبر کی صداقت یا دلیل نہیں ،بڑے صحا فی کی پہچان اب یہ ہے کہ وہ حکومت پر کتنا کیچڑ اچھالتا ہے اور خفیہ ایجنسیوں کو کتنا رگیدتا ہے۔ سازشی تھیوریاں بنانے کے لئے بھی اب کسی میرٹ کی ضرورت نہیں ، فیس بک،ٹوئٹر اورسماجی رابطے کی بہت سی ویب سائٹس دستیاب ہیں ۔جوجی میں آئے لکھئے اور شائع کر دیجئے ،کوئی قاعدہ قانون تو ہے نہیں !پوچھے گا کون؟اخلاقیات کس بلا کا نام ہے بھائی؟اخلاق اقدار کاپاس جن معاشروں میں رکھا جاتا ہے ان میں یہ دھماچوکڑی مچائی ہی نہیں جا سکتی۔

سیاست میں ایک فیشن بن گیا ہے،ایک ایسا طبقہ وجود پاچکا ہے جس کے نامہ اعمال میں قوم کی کوئی خدمت موجو د نہیں لیکن فوج پر تنقید وہ ایسے خشوع خضوع سے کرتاہے جیسے پیغمبر ان کرام اللہ کی مخلوق کو برائی سے بچانے کے لئے تبلیغ کیا کرتے تھے۔

(جاری ہے)


لگا م دیجئے محترم چادر پوش!اپنے گھوڑوں کو لگام دیجئے ۔ایسا بالکل نہیں کہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ،حکومت اور قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے بھی جوابدہ ہیں لیکن ذاتی اورسیاسی مقاصد کے حصول یا ہیڈ لائنز میں جگہ پانے کے لئے کسی کی پگڑی اچھالنے کی اوچھی حرکتیں آپ کو زیب نہیں دیتیں ۔

کسی بھی پالیسی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دلیل کے ساتھ،ایک اندھے کو بھی نظرآرہا ہے کہ موجودہ حکومت کے دورمیں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے ۔ پینتیس برس کا گند ایک ہی رات میں صاف کرنے کا چمتکار کیسے ہو سکتا ہے؟ ضیا ء الحق اور پرویز مشرف کی پالیسیوں پر جی بھر کر تنقید کیجئے،آپ کی اخلاقی تربیت اجازت دے تو گالی دینے سے بھی کون آپ کو روک سکتا ہے؟خاکسار لیکن آپ سے یہ پوچھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہے کہ ملک بھر میں پھیلے تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجروں کو واپس بھیجنے اور افغانستان کے ساتھ سرحد پر نگرانی کے انتظامات کا فیصلہ فوجی قیادت نے کرنا ہے؟تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین !جن میں سے صرف پندرہ لاکھ کے کوائف ریاست پاکستان کے پاس موجود ہیں لیکن بلوچستان کا چادر پوش یہ فرماتا ہے کہ ان کو پاکستان سے کوئی نہیں نکال سکتا!کیوں؟کیا پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر ہے؟پاکستان ایک خود مختار ریاست ہے اور جن کو ”خودمختار“ پر اعتراض ہے وہ جان لیں کہ ان کے مطابق خودمختار کے جو معنی ہیں ان پر تو امریکہ بھی پورا نہیں اترتا،بعض حوالوں سے اسے بھی دوسری ریاستوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

دوسرے ملکوں کی طرح پاکستانی ریاست بھی یہ اختیار رکھتی ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے باشندے کو اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت دے یا نہ دے ،دنیا کا کوئی قانون ریاست کے اس حق پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ کسی افغانی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ چوروں کی طرح پاکستان میں گھسے اور پھر یہاں جو چاہے کرتا پھرے ۔افغان مہاجرین ہی کے پردے میں پاکستان میں آنے والے بعض انتہا پسند عناصر جب دہشتگردی میں ملوث پائے جاتے ہیں تو چادر پوش افغان مہاجرین کو واپس ان کے ملک بجھوانے کا سب سے بڑا مخالف ہوتا ہے ۔

کوئی اٹھے اورسیاست کی دھوپ میں بال سفید کرنے والے اس چادر پوش کو سمجھائے کہ اٹھارہ سو اسی اور دوہزار سولہ میں کیا فرق ہے۔یہ اٹھارویں یا انیسویں صدی کی دنیا نہیں کہ جس کا جدھر جی چاہے منہ اٹھائے چلاجائے اور کوئی روک ٹو ک نہ ہو۔ پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہی نہیں اگر سرحدوں پرآزادانہ آمد و رفت کو روکا نہ جائے ۔اورپھرکیا گارنٹی ہے کہ افغانستان سے آنے والے صرف افغان ہی ہوتے ہیں؟افغانستان ایک ریاست کے طور پرسرحدی نظم قائم کرنے سے انکارکیسے کر سکتا ہے ؟ صاف صاف بتا دینا چاہیے کہ پاکستانی ریاست اب افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ۔


کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش دھماکہ انتہائی المناک ہے،لیکن یہ بات کوئی کیوں نہیں سمجھتا کہ سرسوں کو ہتھیلی پر جمانا ممکن نہیں۔سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں ٹی وی چینلز کے پروڈیوسرز اور رپورٹرز صبح ہوتے ہی انتظار شروع کردیتے تھے کہ آج دھماکہ کب اور کہاں ہو گا۔ہڈیاں جما دینے والی سردی میں کھلے آسمان تلے برستی بارش میں ہزارہ برادری کا دھرناکیا آپ بھول گئے ؟ایک ہفتے تک جب وہ کھانا پینا بھول کر بچوں اور خواتین سمیت اپنے پیاروں کی لاشیں لئے سڑکوں پر رلتے رہے لیکن گوجر خان کے راجہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی،وفاقی وزیرقمرزمان کائرہ کے کہنے پر جب ہزارہ برادری نے دھرنا ختم کرنے سے انکارکیا ، نامرادوہ دارلحکومت واپس آئے اور پھر وزیراعظم کو ساتھ لے کر کوئٹہ پہنچے ۔

مجھے نہیں یاد کہ چادر پوش اس وقت کہاں تھے۔ہاں یہ معلوم ہے کہ صدر آصف علی زرداری کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ہی جماعت کے وزیر اعلیٰ کو گھر بھیجنا پڑا تھا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا حالات آج بھی ویسے ہی ہیں ؟حالات میں جو بہتری آئی ہے اسے تسلیم نہ کرنا پرلے درجے کی بددیانتی ہے۔دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے فوجی اہلکار اور افسرہوں یاکوئٹہ کے حالیہ دھماکے اور کسی بھی دہشتگردی کے واقعے میں شہید ہونے والے پاکستانی،سب کا خون ایک ہی درجے میں مقدس ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ تین برس میں سیاسی قیادت کے فیصلوں اور فوج کے آپریشنز کے نتیجے میں حالات بہت بہتر ہوئے ہیں ۔
خورشید شاہ صاحب کی تنقید سر آنکھوں پر،لیکن پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر تنقید اگر کرناہے تو بہتری کا کوئی راستہ بھی تو بتائیے ؟چودھری نثاراگرقومی سلامتی کے اداروں پر انگلی اٹھانے والے چادرپوش کی مذمت کرتا ہے تو آپ پارلیمنٹ سے واک آوٴٹ کر جاتے ہیں،ریاست کا وزیراعظم آپ کو منانے جاتا ہے لیکن آپ کے تحفظات کا پرنالہ پھروہیں کا وہیں ہے ۔

اس پر بھی آپ کا جی نہیں بھرتا اورآپ کوئٹہ میں شہیدوں کی قبر پر کھڑے ہوکر حکمران جماعت کے وزرا پر سیاسی حملے کرتے ہیں۔
صرف کہنے کی بات نہیں صاحب !قوم کو حقیقی معنوں میں اتحاد برقراررکھنا ہوگا۔تزویراتی گہرائی کا بت ٹوٹ چکا اور خاکسار کی رائے میں فوج کو بھی اس کا ادراک ہے لیکن بکھرے برتن سمیٹنے میں وقت لگے گا۔ قوم کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور دہشتگردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ہاتھ کی پانچ انگلیاں کی طرح متحد رہنا ہوگا اس وقت تک جب تک آخری دہشتگرد اپنے انجام کو نہ پہنچ جائے اور اس کے بعد بھی کہ یہ قوم اور ملک دوبارہ اس لعنت کا شکار نہ ہو۔

غیر ضروری تنقید اور انتشار سے بچئے، ماضی کی غلطیوں کو نظر انداز کیجئے لیکن ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک دوسرے پر اعتماد کیجئے ،اپنے زہریلے بیانات سے قومی فضا میں زہر مت گھولئے بلکہ ہر اس ادارے کے ہاتھ مضبوط کیجئے جو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی سطح پرصف آرا ء ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :