مسئلہ کشمیر بند گلی میں

اتوار 7 اگست 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

آخر کشمیری کیا کریں اور کتنی قربانیاں دیں۔ کیا دنیا آخری کشمیری کے مرنے کا انتظارکر رہی ہے؟ کشمیریوں کا کوئی کوئی پرسان حال نہیں۔ یتیم بچے، بیوی عورتیں، معذور افراد اور وادی میں بہتا ہوا خون بھی عالمی ضمیر کو بیدار نہیں کرسکا ۔ بے حس اور خواب غفلت کا شکار اسلامی ممالک کے کانوں تن آسانی کا شکار ہیں۔ پاکستان اور آزادکشمیر کے سیاستدان کرسی اقتدار کی شرمناک جدجہد میں دست وگریباں ہیں۔

مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ جب وادی کشمیر میں شہادتوں کی داستاں رقم ہورہی تھی تو دوسری جانب مراعات اور کرسی کی جنگ جاری تھی۔ تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ پاکستان کی نام نہاد سول سوسائٹی نے کشمیریوں کی چیخیں سُن کر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ کہاں ہیں حقوق انسانی کے علمبردار جن کی زبانیں گنگ ہوگئی ہیں۔

(جاری ہے)

حقوق انسانی کی جدوجہد کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر جب سویڈن اپنا ایوارڈ لینے آئیں تو انہوں نے سو یڈش انسٹیٹیوٹ برائے امور خارجہ میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان اور دیگر ممالک میں خواتین کے مسائل اور جبر کے حوالے سے اظہار خیال کیا لیکن کشمیری خواتین پر ہونے والے ظلم کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہا ۔

جب وقفہ سوالات میں راقم نے کشمیر میں عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم پر ان کی توجہ مبذول کرائی توپھر بھی انہوں نے خاموشی ہی اختیار کی۔برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں ہونے والے والے مظاہروں میں ان سطور کے لکھنے تکساٹھ سے زائد افراد شہید کردیئے گئے ہیں۔ وادی کشمیر میں پیلٹ گن کا قہر بہت سے نوجوانوں کی بینائی چھین چکا ہے۔

چار ہفتوں سے اب تک نہتے کشمیری کرفیو اور چھ لاکھ فوج کی موجودگی کی باوجود احتجاج کررہے ہیں۔ سینکڑوں تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ محکوم اور مجبور کشمیری جن کی طرف مدد کے لئے دیکھ رہے ہیں وہ خاموش ہیں۔ وہ زبان حال سے فریاد کررہے ہیں کہ ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر۔اگرچہ دنیا کے کئی ممالک میں کشمیریوں نے اس ظلم کے خلاف مظاہرے بھی کئے ہیں لیکن کیایہ اس کا حل ہے۔

کشمیری شہید ہورہے ہیں، معذور ہورہے ہیں اور دنیا میں ہونے والے مظاہرے بھی بھارت کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ کب تک کشمیری قربانیاں دیں۔طویل عرصہ سے جاری جدجہد آزادی میں شہید ہونے والوں کی بیواؤں، یتیم بچوں، بوڑھے ماں باپ اور بے سہاروں سے کبھی کسی نے پوچھا کہ اُن کی پہاڑ جیسی زندگی جس طرح گذر رہی ہے۔ ان کے گھروں کا چولہا کیسے چلتا ہے۔معذور ہونے والے اور اپنی آنکھیں گوانے والوں کے شب و روز کس طرح بسر ہوتے ہیں کیا کبھی کسی نے ان پر غور کیا۔

یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ اور دیگر کشمیری رہنماؤں کا سنجیدگی سے بیٹھ کر اس پر غور کرنا ہوگا کہ وہ اپنی قوم سے مزید کتنی قربانیاں چاہتے ہیں۔ وہ مستقبل کا لائحہ عمل سوچیں کہ مسئلہ کشمیر کیوں بین الاقوامی توجہ نہیں لے سکا۔ وہ اس بات پر بھی غور کریں کہ پاکستان کو کیوں سفارتی کامیابی نہیں مل سکی۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی کوئی ہے بھی یانہیں۔

دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانے مسئلہ کشمیر کو کس حد تک اجاگر کررہے ہیں۔عالمی رائے عامہ کو کیسے ہموار کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھڑمی اور جبر کے خلاف کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔کشمیریوں کے حق میں خود بھارت سے اٹھنے والی آوازوں کو کس طرح اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کشمیری قیادت کی بصیرت کا امتحان ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ باوجود ہزاروں قربانیوں کے مسئلہ کشمیر بین الاقوامی توجہ نہیں لے سکا جس کی براہ راست ذمہ داری حکومت پاکستان کی ناکام سفارتی پالیسی ہے۔

چونکہ پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے اس لیے یہ ذمہ داری خود اس نے اپنے سر لی ہے لیکن پاکستانی حکومتوں کی مسئلہ کشمیر کے ساتھ دلچسپی کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کا صدر اُس شخص کو بنایا ہے جسے نہ کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی وہ اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں، جس کا ثبوت اُن کی آٹھ سالہ کارکردگی ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس عالمی رائے کو بیدار کرنے اور مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں اور نہ سفارت خانوں کو اس ضمن میں ہدایات دی جاتی ہیں۔

دنیا بھر میں پاکستانی سفارت سفارت خانے پانچ فروری کو خانہ پُری اور رسمی کاروائی کرتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی منانے کی تقریبات ہوتی ہیں جن میں آج تک میزبان ملک کے سیاستدانوں، حقوق انسانی کے اداروں، صحافیوں اور مقامی لوگوں کا مدعو نہیں کیا گیا۔ صرف اپنے لوگوں کو بلا کرصدر اور وزیر اعظم کے پیغامات سنا کر اورہائی ٹی پیش کرکے اپنا فرض ادا کیا اور ایک سال کے لیے لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔

کیا اس طرح بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر ہوگا۔ اگر پاکستان عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو متعارف نہیں کراسکتا اور پاکستانی سفارت خانے کچھ مجبوریوں کے باعث ایسا نہیں کرسکتے تو یہ ذمہ داری آزادکشمیر کی حکومت کو کیوں نہیں سونپی جاتی کہ وہ خود عالمی برادری کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرے۔ یہ ایک خوش آئند قدم کہ سابق سفیر مسعود خان کو آزاد جموں کشمیر کا صدر بنایا جارہا ہے۔

وہ چین اور اقوام متحدہ میں سفیر رہے ہیں اور وزارت خارجہ میں طویل عرصہ ملازمت کی وجہ سے بین الاقوامی حالات کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ ایک منجھے ہوئے سفارت کار اور مشکل صورت حال میں بھی کام کرنے اور اپنا نقطہء نظر پیش کرنے کی خوبیوں کے حامل ہیں۔ صدر آزاد جموں کشمیر کی حیثیت سے وہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو بہتر انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔

انہیں مسئلہ کشمیر کو پاک بھارت تنازعہ سے ہٹ کر کشمیری عوام کے غیر مشروط حق خود آرادیت کی بنیاد پر عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔مسعود خان کے صدمنتخب ہونے کے بعد پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو ختم کر دینا چاہیے اور اس کمیٹی کے وسائل اور مینڈیٹ صدر آزاد کشمیر کے سپرد کردینا چاہیے اور انہیں یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ دنیا کو مسئلہ کشمیر سے آگاہ کریں۔

مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں۔
بھارت کو اپنی ملک کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں پر کان دھرنا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ظلم و ستم اور ہر طرح کے حربے اختیار کرنے کے باوجود کشمیری اس کا تسلط قبول نہیں کررہے تو کسی حل کی طرف جانا ہوگا۔ اور نہیں تو اپنی افواج کے سابق سربراہ جنرل سی پی سنگھ کی نصیحت پر ہی توجہ دینی چاہیے کہ کشمیر کا مسئلہ موجود ہے اور یہ طاقت سے حل نہیں ہوسکتا۔

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کی ہی بات غور سے سُن لیں کہ کشمیر پر بھارت پہل کرے ، گولی کا سہارا نہ لے بلکہ کشمیری قیادت سے بات کرے اور بغلیں جھانکنا بند کرے۔ بھارت جتنی جلد اس حقیقت کو سمجھ لے یہ اس کے لیے اچھا ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ آخر کار کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنا ہی ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :