الحمد اللہ ۔ صرف94 بچے اغوا ہوئے ہیں

اتوار 7 اگست 2016

Ammar Masood

عمار مسعود

صوبہ پنجاب میں گذشتہ سات ماہ میں چھ سو اکاسی بچے لاپتہ ہوئے ہوئے ان میں سے پانچ سو ستاسی بچوں کو بازیاب کر لیا گیا جب کہ چورانوے بچے اب تک لاپتہ ہیں۔ یہ ہوائی کس دشمن نے نہیں اڑائی، نہ ہی یہ اطلاع کسی غیر ملک سے آئی ہے، نہ اس کا الزام اپوزیشن کی کسی جماعت نے لگایا ہے، نہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی چال ہے، یہ خوشخبری حکومت پنجاب نے ایک قیمتی اشتہار کے ذریعے عوام تک پہنچائی ہے۔

اس اشتہار میں واشگاف الفاظ میں لکھا ہے کہ بچوں کو تحفظ سب کی ذمہ داری سب کا فرض ۔ جس سے معنی یہی نکلتا ہے کہ حکومت اب اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتی ہے۔ اپنے بچوں کو خود اغوا کاروں سے بچائیں ۔ ہم کو نہ اس معاملے میں الجھائیں۔ اشتہار میں ایک ماں کی بچے کے ساتھ تصویر بھی ہے جس سے یہ معنی نکالنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ مائیں اگر بچوں کو پیار کریں تو انہیں اغوا کاروں سے بچا سکتی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ سب تو چلو پنجاب حکومت کے میڈیا سیل سے متوقع ہی تھا لیکن جس چیز نے سب سے دکھ دیا وہ اس اشتہار کے دائیں جانب وزیر اعلی کی فاتحانہ مسکراہٹ والی تصویر تھی۔ تصویر کے تاثرات تو یہ بتاتے تھے جیسے پنجاب میں چورانوے بچوں نے پی ایچ ڈی کر لی ہے یا پھر ان چورانوے بچوں نے پنجاب حکومت کے تعاون سے کوئی بڑا کارنامہ کر لیا ہے ، شائد ، اولمپکس میں ان چورانوے بچوں گولڈ میڈل جیت لیئے ہیں، یا مقابلے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا ہے، یا پھر دنیا فتح کر لی۔


وزیر اعلی کی تصویر میں جو فاتحانہ مسکراہٹ ہے اس تو لگتا ہے ، کشمیر فتح ہو گیا ہے، آئی ایم کا قرضہ اتر گیا ہے،پنجاب میں لوڈ شیدنگ ختم ہو گئی ہے، بھوک مٹ گئی ہے، امن ہو گیا، پولیس قاعدے اور قانون میں آگئی ہے، ترقی کا ثمر عام آدمی تک پہنچ گیا ہے، زندگیاں روشن ہو گئی ہیں، امن کا دور دورہ ہو گیا ہے۔ چورانوے بچوں کے لاپتہ ہونے کا تاسف، شرمندگی، خوف اور حجاب اس تصویر میں ذرا بھی کھائی نہیں دیتا ۔

بس ایک مسکراہٹ سے اہلیان پاکستان کو یہ اطلاع دی جاتی ہے۔ وزیر اعلی کا یہ لازوال کارنامہ سنایا جاتا ہے۔ فتح کا اعلان کیا جاتا ہے۔ایسی فاتحانہ مسکراہٹ تو نیلسن منڈیلا کے چہرے پر اس وقت ہو گی جب انہوں نے افریقہ کو آ ذاد کروایا ہو گا، ایسی مسکراہٹ بھٹوکے چہرے پر اس وقت ہو گی جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا ہو گا۔ایسی مسکراہٹ تو یاسر عرفات کے چہرے پر اس وقت ہو گی جب انہوں نے فلسطین کی ریاست کا اعلان کیا ہوگا۔

دنیا کا کوئی سربراہ چوارنوے بچوں کے اغوا کی خبر کے ساتھ ایسی مسکراہٹ کا حقدار نہیں ہوا یہ سعادت صرف وزیر اعلی پنجاب کو نصیب ہوئی ہے۔ یہ انہی کا حصہ ہے ، انہی کا خاصہ ہے جو انہوں نے سارے پاکستان میں ایک اشتہار کی صورت میں بانٹ دیا ہے۔
جب یہ اشتہار چھپا تو چند دن پہلے وزیر اعلی چین میں برق رفتا ر وزیر اعلی کا خطاب لے چکے تھے۔ اپنی کارکردگی کی داد بیرون ملک سمیٹ چکے تھے۔

چین کے لوگ اردو سے نابلد ہیں۔ خدا نخواستہ ملک چین میں کوئی وزیر اعلی سے دریافت کر بیٹھتا کہ حضور یہ اشتہار آپ کے کس کارنامے کی نشاندہی کرتا ہے تو ہمارے وزیر اعلی کس منہ سے جواب دیتے کہ یہ چورانوے بچوں کے اغوا کی روح فرسا خبر ہے۔ یہ
چورانوے خاندانوں کی تباہی کی اطلاع ہے۔ یہ چورانوے ماوں کے آنسوں کی کہانی ہے، یہ چورانے محلوں میں خوف کی داستان ہے۔

یہ ایک انسانی المیئے کی نشاندہی ہے۔ یہ جو میں ایک فاتحانہ مسکراہٹ سے مسکرا رہا ہوں یہ دراصل پورے پنجاب پولیس کی ناکامی کی خبر اپنے میڈیا سیل کے تعاون سے پورے ملک کو سنا رہا ہوں۔ بچھڑے بچوں کی ماوں کے ماتم کا جشن منا رہا ہوں۔
طرفہ تماشا یہ کہ حکومت کے وزیر بھی اس مہم میں پنجاب حکومت کے دفاع پر اتر آئے ۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمیں باور کروایا جا رہا ہو کہ یہ بچوں کا قصور ہے کہ وہ غواا ہو گئے ہیں۔

یہ ماوں کا قصور ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو گلیوں میں آذاد سانس لینے کے لیئے بھیج دیا ہے۔ جیسے یہ میڈیا کا قصور ہے جو بات کا بتنگڑ بنا رہا ہو۔ جیسے یہ اپوزیشن کی چال ہے ، جیسے یہ کسی دشمن کا کمال ہے۔ جیسے کسی او ملک کے کسی اور صوبے کی مثال ہے۔
جس ماں کا بچہ اغوا ہوا ہے ایک دفعہ اس سے پوچھیں کہ اس پر کیا گزرتی ہے۔کیسے وہ لمحہ لمحہ جیتی ہے ، کیسے وہ لمحہ لمخہ مرتی ہے۔

کیسے ہر آہٹ پر دروازے کی جانب لپکتی ہے، کیسی راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتی ہے۔ کیسے گھر کی دہلیز پر جم جاتی ہے، کیسے ڈوپٹے کے کونے سے آنسو چھپاتی ہے۔کیسی روٹی اس کے حلق سے اترتی ہے۔کیسے وہ ماتم کرتی ہے۔ اسکا وقت کیسے کٹتا ہے ، اسکا سینہ کیسے پھٹتا ہے۔ اس کی آہیں عرش پر کیسے جاتی ہیں۔ اس دعائیں کیسے بے ثمر ہو، ہو جاتی ہیں۔
بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس خبر کو اہمیت نہ دیں، ایسا تو ہوتا رہتا ہے، یہ کون سے بڑی بات ہے۔

دنیا میں اور بہت سے بکھیڑے ہیں۔ کرنے کو بہت سے کام ہیں ۔ ہماری توجہ بٹائی جا رہی ہے۔ اس خبر کو ہوا دے کر ہماری ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں۔ہمیں ترقی سے روکا جا رہاہے۔ ہمارے کاموں میں چورانوے بچے حائل نہیں ہو سکتے۔ سڑکوں ، پلوں کے افتتاح سے یہ بچے ہمیں نہیں روک سکتے ۔ ہمارے مقاصد عظیم ہیں۔ ہمارا منصب اعلی ہے۔ہمیں ان کاموں کی فرصت کہاں۔

ابھی تو بہت سی تقریبات میں فیتے کاٹنے ہیں۔ابھی تو بہت سے جلسوں میں حبیب جالب کی روح کا خاک میں ملانا ہے۔ ابھی تو بہت سے اجلاسوں میں تالیاں بجنی ہیں۔ ابھی تو ہمارے حق میں نعرے لگنے ہیں۔ ابھی تو دنیا کے سب سے اعلی وزیر اعلی کا خطاب ملنا ہے۔ابھی تو اگلے انتخابات میں ہمارے کارناموں کا حساب ملنا ہے۔
میری وزیر اعلی سے صرف یہ استدعا ہے کہ یہ مرحلہ غم کا ہے، گہرے الم کا ہے۔ اس سانحے کو سیاسی تماشہ نہ بنائیں۔ بچھڑے بچوں کی ماوں کا مذاق نہ اڑائیں۔چوارنوے بچوں کے اغوا کی خبر والے اشتہار پر اپنی مسکراتی تصویر نہ لگائیں۔ ہمیں اور نہ رولائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :