سڑکوں پر گھسیٹنے سے گھٹنے پکڑنے تک

پیر 20 جون 2016

Zaheer Ahmed

ظہیر احمد

محترم پرویز رشید کو قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے دیکھ کر خیال آیا کہ وزیر اطلاعات صاحب کس قدرعاجز انسان ہیں اپنے سیاسی حریف کے گھر جا کر اتنی عاجزی و انکساری سے ملنے کی اعلیِ مثال قائم کی ہے جن خورشید شاہ صاحب پر حکومتی پارٹی کے باقی ممبران بشمول چوہدری نثار کرپشن کے بڑے بڑے الزامات لگاتے ہیں کبھی میٹر ریڈر کے لقب سے نواز تے ہیں ان شاہ جی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانا یقینا دل و جگررکھنے والے انسان کا کام ہی ہو سکتا ہے بلاول بھٹو کو بھی بیان دینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ کسی کے خلوص پر شک نہیں کرنا چاہیے تھا یہ کیا بات ہوئی کہ مشکل میں تو پاوں پکڑتے ہیں اور مشکل نکل جاتی ہے تو گلے پکڑتے ہیں ذہن اس معاملے میں کسی نتجیے پر پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ شہباز شریف صاحب کی وہ معزرت یاد آگئی جو انھوں نے آصف زرداری صاحب سے کی تھی کہ وہ سڑکوں پر گھسٹینے والے بیانات وہ کرپشن سے لوٹا ہوا مال واپس لینے کی بات اور چور اور ڈاکو جیسے القابات دینے پر معذرت کرتا ہوں خیال آیا کہ شہباز شریف بھی بڑے دل والے انسان ہیں جنھوں نے اپنی غلطیوں کا ازالہ معذرت کر کے کیا اور پھرمحترم وزیراعظم کی وہ تقریر جو انھوں نے آصف زرداری صاحب کی الوادعی تقریب سے کی تھی جب وہ صدارت کے عہدے کو چھوڑرہے تھے میاں صاحب نے زرداری صاحب کی تعریفیں کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہمیں بھی انھیں کے طرز پر حکومت کرنی چاہیے دل و دماغ کومعذرت اور معافی والی بات تو سمجھ میں آگئی مگر ان کے طرز حکومت کی تعریف اس ناقص عقل میں نہ آئی پھر سوچا کہ میاں صاحب کہہ رہےیقینا ٹھیک ہی کہہ رہے ہونگے مگر شہباز شریف صاحب کے دو دن پہلے دیئے گئے بیان پر دل و دماغ نے جواب دے دیا کہ معذرت اور معافی تلافی کے بعد یہ ساٹھ ملین ڈالروالا معاملہ کہاں سے آگیا چھوٹے میاں صاحب نے یہ کیوں کہا کہ سوئٹزرلینڈ میں رکھے گئے ساٹھ ملین ڈالر کا بھی حساب لیا جائے گا اس کو لوٹنے والے بچ نہیں پائیں گے وغیرہ وغیرہ یعنی معذرت اس لیے کی تھی کہ چھوٹے میاں صاحب بادشاہ آدمی ہیں ترنگ میں کچھ بھی کہہ جاتے ہیں یہاں بھی جذبات کی رو میں بہہ گئِے ہونگے اصل تو بڑے میاں صاحب ہیں جو صلہ رحمی بھی کرتے ہیں اور غلطیوں کا اعتراف بھی کرلیتے ہیں مگر یاد آیا کہ انھوں نے بھی اپریل میں قوم سے خطاب اور مئی میں پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے نوے کی دہائی میں کک بیکس لینے والوں کو معاف نہ کرنے کی نوید سنائی تھی جن کا اشارہ پیپلزپارٹی کی حکومت اور اس زمانے میں آصف زرداری جن پر مسٹر ٹین پرسنٹ اور پھر مسٹر ۱۰۰ پرسنٹ کا الزام لگایا تھا ان کی طرف تھا پھر دماغ نے سوال اٹھایا کہ الوادعی ظہرانے میں تو آصف زرداری کے طرز پر چلنے کی بات کر رہے تھے پھر یہ کیا ہوا دل و دماغ سوالات سے گڈ مڈ تھا کہ اچانک پانامہ والا معاملہ ذہن میں آیا اور گزشتہ دو ماہ کی کہانی جھلکیوں کی صورت سامنے آنے لگی تو معاملہ کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا اور اخلاقیات کا پیکر اس جماعت کے رہنماوں کے بیانات اور لب و لہجے جو عمران خان کے بارے استعمال کرتے ہیں وہ بھی ذہن میں آئےعفودرگزر کے دعوے داروں کا ایک نیا روپ سامنے آنے لگا اور عین اسی لمحے دماغ میں بلاول کی پاوں اور گلے پکڑنے والی بات یاد آگئی اور اس لمحے اعتزاز احسن کی وہ تقریر جو دھرنے کے وقت پارلیمنٹ میں کی تھی یاد آگئی کہ ابھی یہ وزراء منت سماجت والے انداز میں بیٹھے ہیں جب یہ دھرنے والا معاملہ ٹل جائے گا تورعونت ان کی پہچان ہو گی اور پھر اعتزاز احسن کی کل والی بات کر ابھی گھٹنے ٹیکے ہیں جلد ہی پاوں بھی پکڑیں گے خیر ہو سکتا ہے آصف زرداری صاحب پاوں پکڑنے کی نوبت نہ آنے دیں مگر دل و دماغ کو مزید سوالات سے روکنے کے لئے سمجھایا کیوں سسٹم کے خلاف سوچتے ہو کیوں غیر جمہوری سوچ کو پروان چڑھا رہے ہو؟ کیوں احتساب کی بات کرکے جمہوریت کو کمزور کر رہے ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :