طبقاتی نظام کے دُھرے معیار!

جمعرات 16 جون 2016

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن تحریک انصاف ،مسلم لیگ سے برسرپیکار تھی۔اس دن جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ کا’ نظریاتی ‘ اور سیاسی جھگڑا اتنی ہی شدت سے موجود تھا۔اے این پی اور جمیعت علما اسلام،تحریک انصاف اور جمیعت علما اسلام کے تنازعات چل رہے تھے۔پیپلز پارٹی اور دیگر تمام
اپوزیشن پارٹیاں پانامہ لیکس کے مسئلے پر پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کے سربراہ نوازشریف اور دیگران کا ’محاسبہ‘ کرنے کے لئے پورے زور وشور سے ٹرم آف ریفرنس کے گرد شوروغوغا جاری رکھے ہوئے تھے۔

غرض کہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں اس طرح باہم دست وگریبان تھیں کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا گرینڈ دنگل نظر آتا تھا۔اسی دن یکایک اراکین اسمبلی اور ان اسمبلیوں کو چلانے والے سپیکرز،چیئرمین وغیرہ کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافے کی تحریک پیش کی گئی۔

(جاری ہے)

چڑھی ہوئی تیوریاں اور آستینیں واپس اپنی جگہ پر آگئیں۔منہ سے بہنے والی کف کو دوبارہ نگل لیا گیا۔

گریبانوں سے ہاتھ واپس ہوگئے۔گالم گلوچ اور تبرہ بازی نے خوش گفتاری کا روپ دھار لیا ۔تمام متحارب قوتیں دل وجان سے شیر وشکر ہوگئیں اور پوری یکسوئی سے دو سو فی صد تنخواہوں اور مراعات کی تجویز کو قانون بنانے میں جُت گئیں اور بنوا کر دوسرا سانس لیا۔ موجودہ منڈی کی معیشت اور ملکیت کے سرمایہ دارانہ رشتوں کے بنیادی اتفاق کے باوجود پاکستان کے پارلیمان میں موجود مختلف قسم کی سیاسی جماعتوں میں بہت سے فرقہ ورانہ،لسانی،تنگ نظر قوم پرستانہ ،کالے اورسفید دھن پر قبضے ،اقتدارپرستی اورلوٹ کھسوٹ کی حصہ داری کے سنجیدہ اختلافات موجودہیں،مگر جب مسئلہ انکے یکساں مالیاتی مفادات کاہو تو انکے مندرجہ بالا تمام اختلافات ثانوی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں اور وہ پھر جم کر ،پوری یکسوئی سے اپنے ’طبقے کے مفاد‘ کی جدوجہد کرتے ہیں اور سوفی صد کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

بالکل معمولی سے فرق سے اسمبلیوں میں موجود’عوام کے نمائندے‘ طبقہ خاص سے تعلق رکھتے ہیں۔اگر کہا جائے کہ ان کا ایک طبقہ ہے تو کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ہوگی۔اپنی تنخواہوں اور مراعات کو کئی سوگنا بڑھوانے والے یہ اراکین عام طور پر کروڑ سے ارب پتی کی مالی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔تمام تر قانون سازی اور انتخابی اخراجات کے گوشواروں کی ’فلم‘ کے‘ حقیقی طور پر صوبائی اسمبلی کے انتخاب کا خرچہ پانچ سے دس کروڑ روپے اور قومی اسمبلی کا خرچہ دوسے تین گنا اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

جب کہ حالیہ لاہور اور لودھران کے ضمنی انتخابات میں خرچ اربوں روپے تک پہنچادیاگیا ہے۔اسی طرح سینٹ کا رکن بننے کے لئے کتنی بڑی مالیاتی سرگرمی ہوتی ہے ‘اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ماضی میں سینٹ کے رکن بننے کے لئے براہ راست ووٹ خریدنے پڑتے تھے اب پارٹیوں(کے مالکان ) نے وہ بھاری رقم خود اپنی تجوریوں کو مزید بھرنے کے لئے براہ راست حاصل کرنا شروع کردی ہے۔

اس صورتحال سے واضع ہوتاہے کہ مالدار ہونے اور باہمی اختلافات کا شکار ہونے کے باوجود مالیاتی مراعات اور تنخواہوں کے مسئلہ پرارکین اسمبلی یک جان ہوکر اپنی لڑائی لڑتے ہیں ۔ سپیکر فہمیدہ مرزا کی اسمبلی میں مراعات میں کئی سوگنا اضافہ کروایا گیااور اب 2016ء میں پھر اسی پیرائے میں اضافہ کروایا گیا۔سماج کے مراعات یافتہ حصوں کے برعکس محنت کش طبقے کی اجرتوں میں معمولی اضافے کی تگ ودوکتنی مشکلات کا شکار ہوتی ہیں۔

سب سے پہلے تو مزدوروں کے تنخواہوں کے مطالبے کو طبقہ امراء بشمول ان ”عوامی نمائندگان“کے تعصب اوربیزاری کے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حکمران ،سرمایہ دار اور تاجر حضرات کی ملی بھگت سے مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے،جبکہ تنخواہیں عملی طور پر منجمد ہیں۔جب تک تنخواہوں کو مہنگائی اور افراط زر کے ساتح منسلک نہیں کیا جاتا اس وقت تک تنخواہوں میں معمولی قسم کا اضافہ بے معنے، بے وقعت اور بے ثمر ہی ثابت ہوتا ہے ۔

مگر تنخواہوں میں اضافوں،سروس سٹرکچرز کے قیام،مختلف قسم کے الاونسز کے مطالبات کو حکمران طبقہ ایک طرح سے مزدوروں کی ”جارحیت“تصورکرتا ہے۔ان کے لئے مزدورکی حیثیت غلام جیسی ہے ،جس کو ہروقت تسلیم ورضا کا پیکر اور صابرشاکر رہنا چاہئے۔تحریک انصاف خود ہر وقت احتجاج اور دھرنوں کی سیاست کی رسیا ہے ۔سڑکوں کو بلاک کرنا،ٹریفک میں خلل ڈالنا،پولیس کے ساتھ تصادم اور مارپیٹ جیسے اقدامات اس سیاسی پارٹی کامعمول ہیں۔

عام انتخابات میں تحریک انصاف کسی قسم کی سونامی نہ برپا کرسکی اور نہ ہی (بقول عمران خاں) 1970 ء کی پیپلز پارٹی جیسی مقبولیت حاصل کرسکی ،اور شکست فاش سے ہمکنارہوئی۔جس نظام میں وہ الیکشن لڑرہی تھی اسکی شفافیت پراگرعمران خان نے یقین کیا تھا تو وہ اسکی کوتاہ بینی ،سیاسی بصیرت میں کمی اور خوش فہمیوں کی دنیا میں آنکھیں بند کرکے رہنے کی خواہش تھی۔

الیکشن ہارنے کے بعد عمران خان کے پاس سونامی برپا نہ کرنے کی شرمندگی کو مٹانے کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ انتخابی نتائج نا مان کر’ واویلے‘ کی سیاست شروع کردے۔وہ مسلسل واویلہ،جلسے جلوس،ریلیاں،احتجاج،دھرنوں کے ”آکسیجن ٹینٹ“ میں خود کو مقید کئے ہوئے ہے اور اپنے اس عمل کو وہ اور اسکی پارٹی جائیز قراردیتی ہے۔جبکہ دوسری طرف جب نرسوں نے خیبر پختون خواہ میں اپنے جائیزمطالبات کے لئے احتجاج کیا‘ جو انکا بنیادی حق تھا‘ تو انکے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا۔

تحریک انصاف کے نام نہاد اصول پسندوں نے نرسز پر تشدد کیا ، گرفتار کیا،زبردستی زودوکوب کرتے ہوئے ہاسٹلز سے بے دخل کیاا ور انکے خلاف محکمانہ کاروائیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہوا ہے۔نرسز کو تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بناتے ہوئے ایک لمحہ کے لئے انکے ’عورت‘ ہونیکا احترام نہیں کیا گیا۔نہ ہی انکے تقدس یا احترام کا لحاظ نہیں کیا گیا۔

اسلام آبادکا ریڈ زون تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے ایک سو چوبیس دن تک ’محاصرے‘ میں لئے رکھا،اس پر پاکستان مسلم لیگ نوازحکومت نے کوئی خاص اعتراض نہیں کیااور انکے محاصرے،دنگے فساد،شوروغوغا اور اپنے پیچھے چھوڑ جانے والی غلاظت پر زیادہ ناگواری ظاہر نہیں کی۔اسی طرح‘ پنجاب کے گورنرسلمان تاثیر کو قتل کرنے والے مجرم ممتاز قادری کی پھانسی پر ہونے یا کرائے جانے والے ردعمل پر سینکڑوں ملاؤں نے اسلام آباد پر عملاََ قبضہ کرلیا، میٹرو بسیں اور انکے اسٹیشن جلادئے،دیگر تنصیبات کو توڑ پھوڑدیا۔

یہ عمل بھی کئی دن جاری رہا،نون لیگ حکومت کا ردعمل ’شفیق ماں‘ جیسا تھا۔میڈیا اور لوگوں کی چیخ پکار پر چند لوگوں کوعارضی طورپر ’حفاظتی تحویل‘میں لیا گیا جبکہ گھیراؤ جلاؤ اور سرکاری املاک کو جلانے پر انکے خلاف نہ دھشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا اور نہ ہی اسلام آبادپر قبضے جیسے کیفیت پیدا کرنے کے جرم سے مطابقت رکھنے والا سلوک کیا گیا ۔

مگر جب آئل اور گیس کے مزدوروں نے نجکاری کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کیا تو نہ صرف انکو بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ فوراََ گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔اسی طرح پیپلز پارٹی حکومت کے دوران ہونے والی لوڈ شیڈنگ کے خلاف مینار پاکستان پر شہباز شریف خود تو ’نوٹنکی ‘کرتا رہا،ہاتھ والے پنکھے جلتا رہا اور جلوس نکالتا رہا ۔

مگر جب وفاق میں بھی ن لیگ کی حکومت بننے کے بعد اور زیادہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا توفیصل آبادمیں لوڈ شیڈنگ سے تنگ آکر احتجاج کرنے والے محنت کشوں کو نشان عبرت بنادیا گیا۔ شہباز شریف کے حکم پر احتجاج کرنے والے محنت کشوں کے خلاف چادر اور چاردیواری کے تقدس کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ،انکے گھروں میں پولیس دیواریں پھلانگ کر داخل ہوئی اور انکے کمروں کے دروازے توڑ کراہل خانہ کے سامنے ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کیا گیا ۔

ایک ہی جیسے اقدامات پر ردعمل مختلف ہونے کی وجہ‘ اولذکرحکمران طبقے سے تعلق رکھنے والا اور وزیر اعلی تھا، جبکہ ثانی الذکر مزدورتھے ۔قبل ازیں فیصل آباد میں ہی پاورلومز کے مزدوروں کے جلوس کے دوران مبینہ طور پر مالکان کی طرف سے ”جلاؤ گھیراؤ“کرائے جانے کی پاداش میں مزدوروں کو گرفتار کیا گیا،انکے خلاف گواہیاں پیدا کرکے عدالتوں سے ڈھائی ڈھائی سو سال کی سزائیں سنوائی گئیں۔

لاہور میں نرسوں کے دھرنوں کے دوران وزیرقانون رانا ثنا اللہ کی اخلاق سے گری ہوئی گفتگوہو یا سیکریٹری ہیلتھ پنجاب کا رویہ واضع طور پر محنت کش طبقے سے تعصب اور نفرت جھلکتی نظر آتی ہے۔1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل ملز،ملتان کے مزدوروں کو تنخواہوں کے مطالبات کی پاداش میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے براہ راست حکم پر گولیوں سے بھون کر شہید کردیاگیا تھا ،مگر نہ اسکے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوااور نہ ہی کسی قانون نے اسکو سزادی جبکہ اسی شخص نے ملک کا آئین توڑتے ہوئے منتخب حکومت ختم کرکے اسکے وزیر اعظم کو محمد احمد قصوری(کو قتل کرنے نہیں بلکہ اسکے قتل کی اعانت کرنے کے جرم کے) مقدمے میں ذوالفقارعلی بھٹو کے ذاتی دشمن جج مولوی مشتاق سے سز ائے موت سنوا کر سپریم کورٹ میں تین اور چارکے فرق سے رائے کے باوجود اس سزا پر عمل درآمد کروادیاگیا تھا۔

دیگر وجوہات کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کا ایک ناقابل معافی جرم اس ملک میں غریب ،مزدور اور کسان کے مفادات اور حق میں آواز بلند کرنا تھا۔عام طور پر پست شعور کے حاملین آج بھی انگریزکے دور(کالونیل سسٹم) کے انصاف کے بڑے معترف ہیں،حالانکہ اس نام نہاد زریں دور میں مقامی آبادی کے کسی بھی شخص سے قتل سرزد ہونے کی صورت میں اسکو موت کی سزادی جاتی تھی جبکہ کسی گورے کے ہاتھوں مقامی باشندے کے قتل کی سزا صرف چارآنے جرمانہ ہوا کرتی تھی۔

اسی طرح موجودہ نظام میں بھی دھری ترجیحات ہیں ۔محنت کشوں اور حکمران طبقے کے لئے علیحدہ علیحدہ معیار اور ضابطے ہیں۔ اگر ایک رکن اسمبلی کو تمام تر وسائل اور مال ودولت ہونے کے باوجود دولاکھ روپے ماہانہ تنخواہ(اجرت) کی ضرورت ہے تو پھر یہی ضرورت مزدورکا ذکرکرتے ہوئے کیسے کم ترین نوعیت کی ہوجاتی ہے۔روٹی ،کپڑا،علاج معالجہ،تعلیم،سفری اخراجات ، غم اور خوشی پر اخراجات میں فرق روا رکھا جانا ہی طبقاتی نظام اور دھرے معیاروں کا کھلا اظہار ہے۔

نکمے اور غیر پیداواری حکمران طبقے کو ترجیح دیکر تمام وسائل‘ دان کرنے والے اور زمین پرساری نعمتوں کو خلق کرنے والے محنت کش طبقے کو خوداسکی پیدوار سے محروم رکھنے والے اس غیر منصفانہ ،استحصالی اور ظالمانہ نظام کا جب تک وجود رہے گا‘ناانصافی عدم برابری ،اونچ نیچ ،غریب اور امیر کا یہ نظام پھلتا پھولتا رہے گا۔اس نظام کا وجود صرف اسی سبب سے خود کو برقراررکھے ہوئے ہے کہ اسکو ختم کرنے کی بجائے اسی میں بہتری تلاش کرنے کے سیراب کے پیچھے دوڑا جارہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :