ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

ہفتہ 23 اپریل 2016

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

امریکی صدر بارک اوباما نے ٹی وی چینل فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ لیبیا میں معمر قذافی کو معزول کرنے کے بعد کی صورتحال کی پیش بندی نہ کرنا ان کے عہدہ صدارت کی بدترین غلطی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر قذافی کے قتل کے بعد لیبیا افراتفری کا شکار ہو گیا‘ متحارب دھڑوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی اور دونوں دھڑوں نے متوازی پارلیمان اور حکومتیں قائم کر لیں۔

اس صورتحال میں داعش ( تنظیم دولت اسلامیہ)کے جنگجوؤں کو لیبیا میں قدم جمانے میں مدد ملی اور لیبیا یورپ آنے والے شامی مہاجرین کے لئے گزرگاہ بن گیا۔
اب ذرا یہ دیکھیں کہ یہ واحد گناہ یا غلطی تھی‘ جس کا اوباما نے اعتراف کیا ہے؟ میرے خیال میں تو یہ فہرست بے حد طویل ہے۔

(جاری ہے)

اور میں ہی نہیں خود امریکی عوام کا بھی خیال ہے کہ اوباما نے اپنے ملک‘ عوام اور باقی اقوام عالم کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔

دسمبر2014سے جنوری2016کے درمیانی عرصے میں کرائے گئے 14گیلپ سرویز کے مطابق امریکی قوم کی سوچ یہ ہے کہ اوباما نے گزشتہ سات سالوں میں 11بڑی غلطیاں کیں‘ جن کا خمیازہ امریکی قوم اور باقی دنیا کو بھگتنا پڑے گا اور بعض خطوں میں تو لوگ بھگت بھی رہے ہیں۔(1)اوباما نے موسمیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ (2)50.2فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ اوباما کی بطور صدر کارکردگی اچھی نہیں اور امریکہ غلط سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔

خارجہ پالیسی بھی ٹھیک نہیں (3) اوباما کی جانب سے امریکی معیشت کی بحالی کے اقدامات بھی اطمینان بخش نہیں۔ (4)اوباما نے ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو اقدامات کئے ‘ 55.3فیصد امریکی عوام ان سے خوش نہیں (5) 54فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ کو انٹرنیشنل پیس کیپرنہیں بننا چاہئے۔ (6) 42.5فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ عراق کی جنگ کی وجہ سے امریکہ کو آج جن مسائل کا سامنا ہے‘ اس کے ذمہ دار سابق امریکی صدر بش ہیں۔

جبکہ41.5فیصد اس کی ذمہ داری اوباما پر ڈالتے ہیں۔(7) 55.5فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ اوباما جس طریقے سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کوشاں ہیں‘ وہ ٹھیک نہیں۔ (8) 61.5فیصد امریکی یہ سوچتے ہیں کہ اوباما نے آئی ایس آئی ایس کو قابو میں کرنے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔68فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے خلاف امریکہ کی پالیسی اور اقدامات جارحانہ نہیں تھے۔

اوباما ان معاملات پر امریکی عوام اور عالمی برادری سے معافی کب مانگیں گے؟اور سب سے اہم یہ سوال ہے کہ چودہ برسوں کی کوششوں کے باوجود افغانستان کو جس طرح اس کے حال پر چھوڑنے کی غلطی کی جا رہی ہے‘ مستقبل میں اس کے اثرات کا بھی کسی کو اندازہ ہے یا نہیں؟ یا اس پر بھی آنے والے کسی زمانے میں معافی مانگ لی جائے گی؟
اوباما پہلے امریکی صدر نہیں جنہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا ہے۔

اس سے پہلے صدر بش جونیئر بھی عراق پر حملے کے حوالے سے اپنی غلطی تسلیم کر چکے ہیں۔ 20مارچ 2013 کو عراق پر امریکی حملے کی دسویں سالگرہ تھی۔ اس روز سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ عراق کی جنگ غیر ضروری تھی اور یہ کہ اس پر اتنے اخراجات ہوئے کہ جن کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دور کی اس ”سب سے بڑی غلطی “پر امریکی عوام سے معافی مانگتے ہیں۔

اور یہ پہلا موقع نہ تھا کہ صدر بش نے عراق پر حملے کے اپنے فیصلے کو اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیا۔ اس امر کا اظہار وہ اس سے پہلے بھی کئی بار کر چکے ہیں۔
اس جنگ کی راہ ہموار کرنے میں ان کی سب سے زیادہ معاونت برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کی تھی۔ اس جنگ کے حوالے سے امریکی پالیسی کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں وہ اس قدر سرگرم تھے کہ انہیں ”امریکی پوڈل“ اور ”امریکہ کے گشتی سفیر “ جیسے ہتک آمیز خطابات سے نوازا گیا۔

اس بات تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پوڈل گھنگریالے بالوں والے کتے کو کہتے ہیں۔ اس جنگ کے دس سال بعد ٹونی بلیئر کو بھی احساس ہوا کہ کہ عراق پر حملے کے سلسلے میں موصوف کا کردار مناسب نہیں تھا‘ 25اکتوبر2015کو سی این این کو دئیے گئے ایک انٹرو یو میں انہوں نے کہا کہ عراق پر حملے کے لئے جن معلومات کو بنیاد بنایا گیا‘ وہ درست نہیں تھیں ‘ لہٰذا اس بات پر میں معافی کا طلب گار ہوں۔

انہوں نے اس بات پر بھی معافی مانگی کہ وہ اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکے تھے کہ جب کوئی حکومت طاقت کے زور پر ختم کی جاتی ہے تو اس کے ہولناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
عراق پر 20مارچ2003کو حملہ کیا گیا تھا۔ اس میں کل ایک لاکھ ساٹھ ہزار فوجیوں نے حصہ لیا۔ ایک لاکھ تیس ہزار فوجی صرف امریکہ کے تھے۔ برطانیہ کے اٹھائیس ہزار فوجیوں نے اس کارروائی میں حصہ لیا۔

مختلف رپورٹوں کے مطابق اس جنگ کی وجہ سے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی مچی‘ متعدد تاریخی عمارات صفحہ ہستی سے مٹ گئیں جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ عراق فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق مارچ 2003سے جون2006کے درمیانی عرصے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ اکاون ہزار ہے۔ لینسیٹ سروے کے مطابق کل چھ لاکھ پچپن ہزار ہلاکتوں میں سے چھ لاکھ ایک ہزار تشدد اور گولہ باری سے ہلاک ہوئے۔

اوپینین ریسرچ بزنس سروے نے یہی تعداد دس لاکھ تینتیس ہزار بتائی ہے۔ پی ایل اوایس سروے کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ مارچ 2003سے جون 2011کے درمیانی عرصے میں عراق جنگ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہنگامی حالات میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر ہلاک ہونے والی عراقیوں کی تعداد پانچ لاکھ ہے۔ ان سرویز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملے کی وجہ سے ہلاک ہونے والے عام لوگوں کی تعداد کا کسی کو بھی علم نہیں‘ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔

پھر اس جنگ کے بعد عراق میں اپنائی گئی امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں ہی داعش جیسی انتہا پسند تنظیم وجود میں آئی۔ یہ ایک اضافی غلطی ہے‘ جو صدر بش سے سرزد ہوئی اور صدر اوباما نے بھی جس کو سدھارنے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی۔اس طرح تو داعش کے ہاتھوں جو ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘ ان کی ذمہ داری بھی عراق پر جنگ مسلط کرنے والوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ لاکھوں بے گناہ افراد کی ہلاکت کے ذمہ داران کا بس ایک معافی مانگ لینا ہی کافی ہے۔ کیا ان کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں نہیں کھڑا کرنا چاہئے؟سابق سرب لیڈر رادووان کرازک کو اگر بوسنیا ہرزیگووینیا میں قتل عام کرانے پر انٹرنیشنل ٹریبونل سے سزامل سکتی ہے تو بش‘ ٹونی بلیئر اور اوباما کو اس عدالت میں کیوں نہیں گھسیٹا جا سکتا۔

آج نہیں تو کل‘ اور کل نہیں تو پرسوں ‘ اگلے سال یا اگلی دہائی میں یہ انصاف بھی ضرور ہو گا۔ہونا چاہئے۔ محض معافی مانگ لینے سے گناہ دھل نہیں جاتے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا حملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر1441کے تحت کیا گیا تھا‘ جس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہا ہے اور ایسے ہتھیاروں کی خرید و فرخت میں ملوث ہے‘ جو غیر قانونی ہیں۔

اب جبکہ یہ واضح بلکہ ثابت ہو چکا ہے کہ عراق کے پاس کسی بھی قسم کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں تھے‘ تو اقوام متحدہ خود کو کہاں پاتی ہے؟
اس صورتحال پر تو غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے:
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :