چوہے برائے فروخت

ہفتہ 9 اپریل 2016

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

میرتقی میردَس گیارہ سال کے تھے جب اُن کے والد میر متقی نے اُنہیں اپنے پاس بلاکر کہا ”بیکار مباش ،کچھ کیاکر“۔ ہمارے کپتان صاحب نے بھی اسی پر عمل پیراہوتے ہوئے جب یہ دیکھاکہ سونامیے ”ویہلے“ ہیں اور آجکل کوئی ”رَولا“بھی نہیں تو اُنہوں نے ہمارے پختون بھائیوں کو یہ پیغام دے دیاکہ ”بیکار مباش ،چوہے ماراکر“۔

پہلے کنٹونمنٹ بورڈ پشاورنے اعلان کیاکہ کسی بھی چوہے کوزندہ یامردہ گرفتار کرنے پر300 روپے نقد سِکّہ رائج الوقت اداکیے جائیں گے لیکن جب صرف دو دِن میں ہی معاملہ ہزاروں سے نکل کرلاکھوں روپے تک پہنچ گیاتو پھریہ اعلان کرناپڑا کہ کنٹونمنٹ بورڈ انتظامیہ نے چوہے پرانعامی رقم واپس لے لی ہے ۔وائس چیئرمین کنٹونمنٹ بورڈ نے کہا کہ سوشل میڈیاپر مذاق بننے کے بعدیہ فیصلہ واپس لیاگیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ صرف 2 افرادکوہی انعامی رقم دینے کے بعد کرلیا گیا کیونکہ دونوں پختون بھائی بوریاں بھربھر کے چوہے لے آئے جن کودیکھ کر کنٹونمنٹ بورڈ کے غبارے سے ہوانکل گئی ۔

(جاری ہے)

دراصل کنٹونمنٹ بورڈ والے کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے اوروائس چیئرمین صاحب نے 300 روپے فی چوہے کااعلان کردیا ۔ یقیناََ اِنعام کی واپسی کے اعلان پرہمارے پختون بھائیوں کو غُصّہ توبہت آیاہوگا کیونکہ دروغ بَرگردنِ راوی پختون بھائی تھوک کے حساب سے چوہے مارکرنہ صرف حساب کتاب میں مصروف تھے بلکہ اُنہوں نے تواِس انعامی رقم سے اگلی خریداری کے پروگرام بھی ترتیب دے دیئے تھے ۔

پشاورکی ضلعی انتظامیہ تیزنکلی اوراُس نے یہ اعلان کردیا کہ انعامی رقم کے لیے کچھ دِن مزید انتظار کرناپڑے گاکیونکہ ضلعی انتظامیہ انعامی رقم کی تقسیم کا طریقِ کار وضع نہیں کر پائی ۔ بہرحال پختون بھائیوں کی کچھ تسلی ہوگئی کہ پشاور گورنمنٹ نے زندہ یامُردہ چوہے کی گرفتاری پر 25 روپے ہی سہی لیکن انعام تو رکھ دیا ۔پختون بھائیوں نے بھی یہ سوچ کرکہ ”بھاگتے چورکی لنگوٹی ہی سہی “ صبرشکر کرلیا ۔

اب چوہے مار مہم زوروشور سے جاری ہے لیکن پشاورکے چوہوں کا یہ عالم کہ اُنہوں نے بھی یہ چیلنج کررکھا ہے کہ ”تُم کتنے چوہے ماروگے ،ہرگھر سے چوہے نکلیں گے“۔ اِس لیے اُمیدِ واثق یہی ہے کہ یہ اعلان بھی واپس لیناپڑے گا کیونکہ اگرایسا نہ کیاگیا توکے پی کے کاسارا بجٹ توچوہے کھاجائیں گے اورحکومت ہاتھ ملتی رہ جائے گی ۔
کے پی کے کے سابق وزیرِاعلیٰ امیرحیدر خاں ہوتی نے فرمایاہے کہ تحریکِ انصاف نے پختونوں کو چوہے مارنے پرلگا دیاہے ۔

مراد اُن کی یہ کہ اتنی دلیرقوم اورکام چوہے مارنا ۔ہمارے وزیرِاطلاعات پرویزرشید صاحب بھی آجکل بہت” مخولیے“ ہوئے پڑے ہیں وہ تحریکِ انصاف کے لَتّے لینے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔اُنہوں نے چوہے مارمہم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ہماری حکومت دہشت گردوں کو ماررہی ہے جبکہ تحریکِ انصاف چوہوں کو ،فرق صاف ظاہرہے ۔ اِس سے پہلے کپتان صاحب نے درخت اُگاوٴ مہم بھی بڑے زوروشور سے جاری کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھاکہ خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگائے جائیں گے ۔

آخری خبریںآ نے تک یہ ”درخت اگاوٴ مہم“ مفقودالخبرہے ۔اگرکسی کوپتہ چلے تووزیرِاعلیٰ خیبرپختونخواکو اطلاع دے کر ثوابِ دارین حاصل کرے۔
چوہوں کو نویدہو کہ اب اُن کی شامتِ اعمال ٹلتی ہوئی نظرآ رہی ہے ۔اُنہیں ”پانامہ یکس“ کا شکرگزار ہوناچاہیے جس کی وجہ سے تحریکِ انصاف کی ”میڈم سونامی “ کارُخِ روشن ”آف شور کمپنیز“ کی طرف ہوگیا ہے ۔

اب چونکہ تحریکِ انصاف کو ایک تڑپتا ،پھڑکتا ،بھڑکتا موضوع مِل گیاہے اِس لیے ”چوہے مارمہم“ کاخاتمہ ہی سمجھیں۔پاناما لیکس نے چونکہ میاں نواز شریف صاحب کے صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نواز کانام لیا اور اُن کی بیٹی مریم نوازکو بھی آف شور کمپنیز میں حصّے دار قراردیا اِس لیے یہ توہو ہی نہیں سکتا تھاکہ تحریکِ انصاف ”لنگوٹ کَس کر“ میدان میں نہ اترتی ۔

اب تحریکِ انصاف کا ہر کِہ ومِہ اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو ارسطوئے دَوراں ثابت کرنے کی کوشش کر رہاہے۔ عمران خاں نے کہا” پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد دنیاکے کئی ممالک نے تحقیقات کاآغاز کردیاہے لیکن پاکستان میں ملک کاپیسہ باہر بھجوانے والوں کا احتساب کون کرے گا؟“ ۔ویسے ہم سمجھتے ہیں کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ اگرایسا نہ ہوتا توہمارے وزیرِاعظم افراتفری میں قوم سے خطاب نہ کرتے ۔

ہمیں نہیں معلوم کہ سچ کیاہے اورجھوٹ کیاکیونکہ اِس کافیصلہ توآنے والاوقت ہی کرے گالیکن میاں صاحب کے خطاب میں درد کی لہریں صاف دکھائی دے رہی تھیں ۔
منگل کی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا ”میں اپنی پوری سیاسی زندگی میںآ ج پہلی بارذاتی حوالے سے کچھ کہنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔مجھے اِن گزارشات کی ضرورت اِس لیے محسوس ہوئی کہ ایک بارپھر کچھ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مجھے اورمیرے خاندان کونشانہ بنارہے ہیں ۔

پچیس سال سے دہرائے جانے والے الزامات کوپھر اچھالاجا رہاہے ۔میرے پاس اتناوقت نہیں کہ ہرروز وضاحتیں پیش کروں ۔میرے بچے الزامات کی زَدمیں ہیں ۔خاندان کے کسی فردنے رَتی بھرخیانت نہیں کی ،ایک پیسہ بھی معاف نہیں کروایا ۔ہم نے تووہ قرض بھی اتارے جو واجب نہیں تھے“۔ وزیرِاعظم صاحب نے تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کے قیام کااعلان کرتے ہوئے کہا ”میں چاہتا ہوں حقائق قوم کے سامنے آئیں ،گھِسے پٹے الزامات دہرانے اورروز تماشالگانے والے کمیشن کے سامنے جائیں اور الزامات ثابت کریں“۔

توقعات کے عین مطابق تحریکِ انصاف، پیپلزپارٹی اوردیگر سیاسی جماعتوں نے عدالتی کمیشن کااعلان مستردکر تے ہوئے یہ کہاکہ ایک غیرجانبدار تحقیقاتی کمیشن قائم کرکے سارے معاملے کافرانزک آڈٹ کروایا جائے ۔ہمیں سب سے مزیداربیان بلاول زرداری کالگا جس نے کمیشن کے قیام کومحض ایک ڈرامہ قراردیا ۔نوجوان بلاول کے لیے ہمارے پاس صرف ایک ہی جواب ہے کہ ”نَو سوچوہے کھاکے بِلّی حج کوچلی“۔

تحریک ِ انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے کہا کہ وزیرِاعظم کی تقریر سیاسی داستان گوئی پرمشتمل تھی ۔ اسدعمر نے کہا کہ وزیرِاعظم نے اپنی تقریرمیں پانامہ لیکس کے کسی سوال کاجواب نہیں دیا ۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ آئس لینڈکے وزیرِاعظم نے غیرت کاثبوت دیتے ہوئے استعفٰی دے دیا،میاں صاحب بھی اُس کی تقلید کریں ۔ریٹائرڈجج پرمبنی کمیشن کاقیام محض دھوکہ اورڈرامہ ہے ۔

امیرِجماعت اسلامی سراج الحق نے تویہ کہہ کربات ہی ختم کردی ”اِس حمام میں سبھی ننگے ہیں “ جبکہ سیّدخورشید شاہ نے انتہائی بھولپن سے یہ فرمایاکہ اُنہیں تو اتنابھی نہیں پتہ کہ آف شورکمپنی کَس بلا کانام ہے ۔مختصریہ کہ اگلے چند روزتک خوب ہلّا گُلا اوردھوم دھڑکا ہوگااور پھرقوم اُسی تنخواہ پرگزارہ کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :