جنرل پرویز مشرف کی رخصتی!!

منگل 29 مارچ 2016

Mubashir Mir

مبشر میر

مارچ 2013ء میں جب جنرل پرویز مشرف دبئی سے کراچی آنے کیلئے تیاری کررہے تھے تو مجھے بھی کئی صحافی خواتین و حضرات کے ہمراہ ان سے وہاں ملنے کا اتفاق ہوا۔ پریس کانفرنس بھی بہت پُرجوش تھی اور ہوٹل میں ہونیوالی تقریب میں بھی ان کے کارکنوں کا جوش ولولہ قابل ذکر تھا۔ لیکن شبہات بہت تھے۔ کیوں جارہے ہیں۔ کس کے کہنے پر ایسا ہورہا ہے کیا کوئی بہت اہم کردار ادا کریں گے۔

یہ سوالات ہر کسی کی زبان پر موجود تھے لیکن جنرل پرویز مشرف نے خود کو بہت پُراعتماد ظاہر کر رکھا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ کراچی ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کیلئے ہزاروں افراد موجود ہوں گے جوان کی سیاسی طاقت کو ظاہر کرے گا۔
کھانے کی میز پر موجود ایک صحافی جو دبئی میں مقیم ہیں سے میں نے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے، اس نے بتایا کہ جنرل صاحب بہت جلد لوگوں پر اعتبار کرلیتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہاں دبئی میں ایک پاکستانی گلوکارہ کا شوہر دھوکے سے جنرل صاحب کے پیسے لے کر غائب ہوگیا ہے، سنا ہے کہ انہوں نے اس کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ اتنے بڑے آدمی کو ایک عام آدمی دھوکہ دے کے غائب ہوگیا، مجھے اس واقعے کی صحت سے کوئی اتفاق نہیں ہوا، لیکن وہ مصر تھے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ دوسرے دن صبح دبئی ایئرپورٹ پر روانگی کا وقت تھا۔

اتنے میں ٹی وی اینکر شاہ زیب خانزادہ سے ملاقات ہوئی، وہ تھوڑی دیر پہلے ہی پہنچے تھے اور اب واپسی میں سب کے ہمراہ تھے۔ چلتے چلتے کہنے لگے کہ یار میں کئی مرتبہ ان سے مل چکا ہوں۔ بہت شریف آدمی ہے۔ خواہ مخواہ پھنس جائے گا۔ پاکستان واپس جاکر بہت بڑی غلطی کررہے ہیں اور جنرل صاحب کراچی ایئرپورٹ پر اُتر آئے۔ تھوڑی ہی دیر میں جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی کرنل شیر علی نے آگے بڑھ کر استقبال کیا۔

حیرانگی اس بات پر تھی کہ جنرل پرویز مشرف ایک طاقتور حکمران کے طور پر پاکستان میں موجود رہے۔ کئی دوستوں پر نوازشات کرتے رہے۔ یاروں کے یار کی حیثیت میں بھی شہرت پائی۔ لیکن کسی کو سرعام آکر ملنے کی ہمت نہ ہوئی۔ سبھی مصلحت کا شکار ہوگئے۔ چند ایک احباب نے اندر ہی اندر خوش آمدید کہا۔
جنرل صاحب کیلئے مایوس کن صورتحال پیدا ہوگئی جب ان کوبتایا گیا کہ لوگوں کی ابھی تک معقول تعددا موجود نہیں، لہٰذا حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ کچھ دیر وی آئی پی لاؤنج (پرانے ٹرمینل پر) انتظار کیاجائے۔

ان کی پارٹی کے چند لوگوں نے بقول شخصے جنہوں نے عوام کا جم غفیر لانے کا وعدہ کیا تھا اور جنرل صاحب نے ان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نان نفقہ کا بندوبست کردیا تھا ان کو مژدہ سنارہے تھے کہ اندرونِ سندھ اور بلوچستان سے قافلے آرہے ہیں۔ آخر ”انتہاء ہوگئی انتظار کی اور آئی نہ کچھ خبر میرے یار کی“ کا معاملہ نظر آنے لگا۔ میڈیا کے انتظار کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا۔

صبح سے آئے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو ان کے پارٹی عہدیدار عوام کے آنے کا دلاسہ دیتے رہے اور شام کے سائے منڈلانے لگے۔ قریبی دوستوں نے باعزت طریقے سے گھر پہنچنے کا مشورہ دیا۔ مختصر خطاب کے بعد جنرل صاحب ہوٹل منتقل ہوگئے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا ہوم ورک کس انداز کا تھا۔
انتہائی باخبر ذرائع سے انکشاف ہوا کہ جنرل صاحب ہوٹل میں چاہنے والوں کے نہ پہنچنے پر بور ہونا شروع ہوگئے۔

حیران بھی تھے، پریشان بھی ہوئے اور برہم بھی۔ چند ایک کو ٹیلیفون کیا اور گلہ شکوہ کردیا۔ اس کے بعد کچھ لوگوں کو گذرے دنوں کی بناء پر شرم آئی اور چپکے چپکے ملاقات کرکے چلتے بنے۔ مجھے صحافی دوستوں کی بات یاد آنے لگی کہ جنرل پرویز مشرف عوامی سیاست کیلئے موزوں نہیں، سیاستدان جیسی چالاکی اور ہوشیاری ان میں نہیں وہ سیدھا سادھا فوجی ہے۔

جن لوگوں نے عوام کا جم غفیر لانے کا وعدہ کیا تھا وہ اپنی جیب گرم کرکے چُونا لگاکر غائب ہوچکے تھے، چند ایک مخلص لوگ جو ان کو اب بھی باس (BOSS) کہہ کر پکارتے ہیں ان کی دل جوئی اور ہمدردی کیلئے موجودتھے۔ یہی لوگ ان کو پاکستان نہ آنے کا مشورے بھی دے چکے تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے متحدہ قومی موؤمنٹ کو ایک سرپرست کی حیثیت سے پھر سے قومی دھارے میں شامل کروایا۔

اقتدار کا حصہ بنایا، ان کی غلطیوں کوتاہیوں اور آج لگنے والے اعتراضات پر بھی لاعلمی کے اظہار کیے، لیکن جب وہ ملک میں 2013ء کے الیکشن میں قسمت آزمانے کیلئے میدان میں اُترے تو متحدہ اپنے ”محسن“ کیلئے دیدہ دل فرش راہ تو کجا روایتی خوش آمدید کہنے سے بھی گھبراگئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بات مشہور کردی گئی تھی کہ جنرل پرویز مشرف بالآخر ایم کیو ایم کی قیادت سنبھالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ بات ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کیلئے انتہائی ناگوار تھی۔ اس بات میں صداقت کس حد تک تھی یہ بات بھی کسی وقت بے نقاب ہوجائے گی۔ لیکن ایم کیو ایم کے تمام اکابرین کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کی دل گیری اور ان کی جنرل صاحب سے عقیدت ڈھکی چھپی نہیں تھی۔
اپنے دورِا قتدار میں کراچی میں قیام کے دوران رات گئے کی محفلیں انہی دوستوں کے ہمراہ سجائی جاتی تھیں یہ شرف بھی انہی دوستوں کو حاصل ہواکہ پرویز مشرف روشنیوں کے شہر میں تنہائیوں کا شکار ہوگئے۔


ڈاکٹر عشرت العباد خان کو یہ کریڈٹ ضرور دیا جانا چاہئے کہ انہوں نے دامے درمے قدمے سخنے کچھ نہ کچھ واپس لوٹانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو الیکشن سے باہر کیا گیا۔ پورے پاکستان سے صرف اور صرف جنرل پرویز مشرف ہی واحد اُمیدوار تھے جو تاحیات نااہل قرار پائے۔ پاکستان کی عدلیہ نے پرانا حساب برابر کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

جنرل صاحب کو بھی اس بات کا اندازہ ہوا ہوگا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا عملی مظاہرہ کس طرح ہوتا ہے۔ اپنی اتنی بے بسی پر حیرانگی بھی ہوئی ہوگی، ان کا خیال ہوگا کہ جو وکلاء تحریک میرے خلاف چلائی گئی تھی اس کے بعد عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوا ہے، اور وہ واقعی ایک آزاد اور خودمختار عدلیہ بن گئی ہوگی۔ فیصلے میرٹ پر ہورہے ہوں گے اور اگر میرے دورِ حکومت میں اندھیر نگری تھی تو اب بہت کچھ بہتر ہوچکا ہوگا، لہٰذا میرے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی، لیکن کیا ہوا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی بادشاہوں والا ہی سلوک کیا گیا۔

اور ان کو زندہ ہی سیاسی دیوار میں چُنوادیا گیا۔ وہ جو دوسروں کی سیاسی زندگی کے فیصلے صادر کرتے تھے اپنے فیصلے پر دم بخود رہ گئے۔ قصہ یہی ختم نہ ہوا اور مقدمات بننے لگے ، قتل اور حتیٰ کہ غداری کا کیس سامنے آگیا۔ مقدمات کی صحت پر بات کرنا اس کالم میں مقصود نہیں اگر کبھی موقع ہوا تو اس پر بات ہوسکتی ہے۔ لیکن ان مقدمات کی سماعتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں ایک مرتبہ پھر دراڑ ڈال دی۔

سیاسی اور عسکری قیادت میں ایک سرد جنگ کا گمان ہونے لگا، بلکہ کچھ ہی عرصے میں یہ گمان یقین میں بدل گیا اور پھر ہم نے کئی جنگیں بھی دیکھیں۔ مجھے مولانا طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنے کو اس سے جوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس صورتحال کو سمجھنے کیلئے سیاست کے ایک طالب علم کو جنرل پرویز مشرف کے آرمی ہسپتال برائے امراضِ قلب میں گزرے ہوئے ”89دن“ کا احوال جاننا کافی ہے۔

جسے کسی لحاظ سے بھی اچھے ماحول سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ جنرل پرویز مشرف کے کراچی منتقل ہونے کے بعد اور پھر یہاں سے روانہ ہونے تک کے ایام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ سول ملٹری قیادت میں اس حوالے سے مکمل طورپر مختلف نقطہ نظر موجود تھا۔ سیز فائر اور مفاہمت کے جتنے بھی مفروضے ہیں ان میں صداقت ہو یا نہ ہو لیکن جنرل صاحب سیاست کے حقیقی گُر سیکھ چکے ہیں۔

اُن کو یقین ہوگیا ہوگا کہ پاکستان میں سیاست کرنے کے اصول کیا ہیں۔ عوام میں مقبولیت یا سوشل میڈیا میں پذیرائی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ سیاست میں اکثر ناگوار موسیقی کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن آپ اس کا مقابلہ تنہا نہیں کرسکتے، طاقت کے کسی نہ کسی ایوان سے آپ کی وابستگی ہی آپ کی جان بخشی کرواسکتی ہے۔ اور انہیں اس بات کا ادراک ہوا ہوگا کہ یونیفارم میں سیاست کرنا بہت آسان ہے، لیکن شیروانی میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔


قومی مفاد اور ذاتی مفاد میں کیا فرق ہے۔ جن کو ذاتی مفادات دئیے جاتے ہیں وہ لوگ بعد میں کسی حد تک آپ کی ذات سے جڑے رہنا پسند کرتے ہیں۔ جنرل صاحب کایہ مزاج بہت سے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ جن کو وہ مخلص سمجھتے ہیں، یا دلی لگاؤ رکھتے ہیں ان کو کسی مشکل میں ڈالنے سے گریز کرتے ہیں۔ مشکل ترین وقت میں بھی انہوں نے اپنی فیملی کو اپنی حمایت میں میدان میں نہیں اُتارا۔

ورنہ ایسی کوئی تحریک شروع کرنا ان کیلئے بھی ممکن تھا۔ ایسا مشورہ لینے سے انہوں نے مکمل گریز کیا۔ پاکستان سے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں والی بات نظر آتی ہے۔ سپریم کورٹ کہتا ہے ہم نہیں روک رہے، حکومت فیصلہ کرے۔ حکومت نے کہا سپریم کورٹ کہتا ہے کہ جانے دو تم ہم کیسے روک سکتے ہیں۔

الغرض روکنے والے دیکھتے رہے اور چاہنے والوں نے جانے دیا۔ ان کے جانے کے بعد اسلام آباد کے اعلیٰ ترین ہاؤس کی دیوار سے کسی نے کان لگاکے سنا تو آواز آئی کہ شکر ہے موصوف روانہ ہوگئے۔ ہماری بھی جان عذاب ہوچکی تھی۔ آج ہم نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی روانگی کے بعد ان کے سیاسی مستقبل پر اب بھی بہت سی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔

ان کے ایک حالیہ انٹرویو سے ظاہر ہوا ہے کہ وہ سیز فائر کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ یقینا 2018ء کے الیکشن تک خود کو سیاست سے دور رکھیں گے اگر مقدمات ختم ہوگئے جس کے امکانات موجود ہیں توپھر پاکستان کے عوام اور خاص طور پر کراچی کے شہریوں کی سیاسی خدمت کرنے کا جذبہ ایک مرتبہ پھر جوان ہوسکتا ہے۔ اگر مقدمات ختم نہ ہوسکے تو پھر غریب الوطنی ہی مقدر ٹھہرے گی۔


جنرل پرویز مشرف کیلئے مشکل ترین صورتحال والدہ محترمہ سے دوری اور ان کی صحت کے معاملات ہیں۔ جنرل صاحب نے آج تک کسی بھی صورت حال پر اپنی کمزوری کو غالب آنے نہیں دی، لیکن والدہ کا رشتہ بہت اہم ہے، ان کی شدید خواہش ہوگی کہ کسی طرح والدہ محترمہ کو بھی اپنے ہمراہ رہنے پر قائل کرلیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے آئندہ کم از کم دو سال خود کیلئے سیاست کو شجرممنوعہ کے طور پر قبول کرلیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :