کچھ ہم نے بھی دیکھا، جانا اور بتایا۔۔۔

پیر 21 مارچ 2016

Muhammad Nawaz Tahir

محمد نواز طاہر

کارکن صحافیوں کیلئے ”ویک اینڈ“ ایک خواب سے زیادہ نہیں بلکہ تصور ِمحض ہے ۔۔لیکن ۔۔جب ۔۔جہاں۔۔ کہیں دلچسپی کا پہلو دستیاب ہو ، دل لگا لیتے ہیں اور اسے ہی ”ویک اینڈ“ سمجھ لیتے ہیں ۔ ایسا ہی ویک اینڈ لاہور کے ایکسپو سنٹر میں پاک، چائنا نمائش اور یہاں منعقدہ قومی میوزیم ڈائریکٹرز اینڈ کیوریٹرز کانفرنس میں منایا گیا۔

یہ کانفرنس تاریخ ،تحقیق و ترقی اور علم سے پاک رہنے والوں کیلئے بوریت کا خاصا میٹریل رکھتی تھی۔ جہاں ثقافتی، تاریخی ،حربی اورسائنسی عجائب گھروں میں دستیاب تاریخ نوادرات ، انہیں محفوظ بنانے اور اگلی نسل تک اسکی تمام ثمرات سمیت منتقلی کے منصوبے پر گفتگو جاری تھی ۔ پاکستام میوزیم ایسو سی ایشن کے سیرٹری جنرل میاں عتیق احمد اور دوسرے مقررین کی طرف سے بتایا جا رہا تھا کہ مستقبل قریب میں ہر شہر یاکم از کم ہر بڑے شہر میں میوزیم ضرور ہو گا، ہر میوزیم میں موجود نواردات و ایجادات کے بارے میں مکمل آن لائن تفصیل دستیاب ہو گی ،وغیرہ وغیرہ ۔

(جاری ہے)

۔۔لاہور کے عجائب گھر سے گلزار مشہدی کی ٹرانسفر کے بعد خیال یہ تھا کہ یہاں بیٹھے افسر بھی محض مجسمے ہی ہوتے ہیں لیکن آج میاں عتیق ،کامران لاشاری پروفیسر وحید او ردوسروںکو بولتے سن و دیکھ کر اپنے خیال کو موٹے موٹے حروف سے غلط قرار دیناہی مناسب تھا۔۔۔
موبائل ٹیلی فون بھی بڑی خطر ناک چیز ہے ، بار بار ڈسٹرب کر رہا تھا یوں سمجھیں’ ویک اینڈ ‘مناتے ہوئے لطف خراب کررہا تھا اور کباب میں ہڈی ثابت ہو رہا تھا۔

۔۔چارونا چار اٹھنا پڑا۔۔۔
ایکسپو سنٹر کے بڑے بڑے ہال شہریوں کی توجہ کا مرکز تھے۔چینی لوگوں کے بارے میں ہمارے یہاں عمومی تاثرہے کہ وہ صرف اپنی زبان بولتے ہیں مگر فر فر انگریزی اور چند ایک اٹک اٹک کر گلابی اردو بھی بول رہے تھے۔ ایسی اردو جو مافی الضمیر سمجھانے کیلئے کافی تھی۔۔۔ زیادہ رش خواتین کے گرد نظر آیا حالانکہ ان میں سے 99.09 فیصد خالص لباس میں تھی اسی(80) کی دہائی میں سی این این کی تصویروں پر ڈاٹس ختم کرنے کیلئے آنکھیں بھینچ کر .... باریک پردے کی مدد سے تصویر کے اصل رنگ دیکھنے کی کوشش جیساکوئی ماحول نہیں تھا ۔

۔۔ البتہ بعض کا لباس ایسا تھا جس سے زیادہ ٹائٹ لباس ہمیں اپنے ارگرد کثرت سے دکھائی دیتا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ان میں سے کالی رنگت کسی کی نظر نہیں آئی یا اس کا خاص اہتمام کیا گیا تھا اور ان خواتین کے قد بھی ہماری روایتی سوچ کے مطابق پستہ ہی نہیں تھے بلکہ کئی لوگوں کیلئے شائد نئی بات تھی کہ چینی خواتین سرو قد بھی ہوتی ہیں ۔۔۔
ہر ہال میںسٹال دیکھتا گیا۔

۔۔گئی دلچسپی بڑھتی گئی ۔پھر ایک کے بعد دوسرا ........ یوں ان گنت سٹال دیکھے ........ ایکسپو سنتر حیران کن حد تک آدھے سے زیادہ لاہور کا شاہ عالمی یاشاہ عالمی کاباڑانظر آیا ....کچھ سٹالوں پر تویوں بھی لگا جیسا پھیری والے پٹھان نے جنس ،زبان اور لباس تبدیل کیا ہے باقی سب کچھ وہی ہے ........
سب کچھ ایک جیسا نہیں تھا........ جدید آلات، کمپیوٹر، مشنیری اور بہت سی نئی چیزیں بھی تھیں جہاں پڑھی لکھی اور خاص طور پر آئی ٹی سے واقف و ماہر نسل متحرک دکھائی دے رہی تھی۔

۔ ان میں سے کئی نوجوان چینی نمائش کاروں کو بھی بتار ہے تھے کہ یہاں سٹال پر پڑی چیزوں میں اگر فلاں فلاں تبدیلی کی جائے۔۔۔ ، فلاں فلاں چیز استعمال کی جائے۔۔ تو اس کی قیمت اور ااستعداد بدل سکتی ہے،، جو اب میں چینی
نمائش کار یس ۔۔یس۔۔ اور اوکے۔۔اوکے ۔۔ بولتے دکھائی دیئے۔ جس سے دل کی دھڑکن چہرے کی رنگت و ہیئت تبدیل اور سینہ پھیلتاہوا محسوس ہوا۔

۔، اور ۔۔۔ پاکستانی ہونے پر خوشی و فخر محسوس ہونے لگا ۔
ایک سٹال نے خود اپنی اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔۔وہ سگریٹ بنانے والی چینی کمپنی کا سٹال تھا ۔۔۔نمائش کار کے مطابق بیس سگریٹس والے دس پیکٹ کی کمپنی تعارفی قیمت 3.2 ڈالر( تقریباً تین سو چونتیس روپے نوے پیسے) تھی۔۔ میں نے فٹ سے جیب سے پاکستانی کمپنی کے سگریٹ کاپیکٹ نکالا تو پاکستان و چائنا یعنی دونوں بھائی اور گہرے دوست ملک کی کمپنی نام اور ٹریڈ مارک کے سوا کوئی فرق ظر نہیں آرا رہا تھا ۔

۔ جسے سٹال پر کھڑا چینی نمائش کار بھی تسلیم کررہا تھا ۔
ایسی کئی اور چیزیں بھی تھیں ۔۔ یہاں بہت سے سٹال خالی بھی تھے۔ کسی میں صرف میز ،کرسی تھی۔۔ جہاں نہ کوئی مننتظر تھا اور نہ ہی کوئی ادھر دیکھ رہا تھا ۔۔ما سوائے میرے کیمرے کے .... ان خالی سٹالوں میں پولیس، سیکورٹی آلات سے متعلق بھی ایک سٹال تھا۔ میرے پاس میرے اپنے ہی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کہ یہاں کوئی موجود کیوں نہیں اور یہاں کسی آلے کی نمائش بھی نہیں کی جارہی .... کیا چین ایسے آلات بناتا نہیں یا بنا کر دکھاتا نہیں؟ اگر بناتا نہیں تو پھر سٹال لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟جبکہ قیمت کے اعتبار سے عام طور پر چین کی اشیاءکو قوتِ خرید کے قریب قریب سمجھا جاتا ہے اور پھر یہ کہ امن و امان کی موجودہ صورتحال میںتو ان آلات کی ہر شہری کو ضرورت ہے۔

۔۔۔ تھوڑا آگے ایک سٹال ایسا بھی دیکھا جہاں خاتون خراٹے لے رہی تھی ۔ انہی خراٹوں میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور مجھے دفتر لوٹنا پڑا۔۔ راستے میں یہی سوچتا رہا کہ چین صرف مارکیٹنگ میں آگے ہے ذہنی صلاحیتوں میں پاکستانی اس سے پیچھے نہیں ....

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :