افغان مہاجرین !میں باز آیا محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا

ہفتہ 19 مارچ 2016

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم


بعض اوقات ایسے ایسے معاملات درپیش آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان کی حالت بقول غالب
حیران ہوں دل کو رووٴں کہ پیٹوں جگر کو میں جیسی ہو جاتی ہے ۔سینیٹ میں کسی رکن نے سوال پوچھ لیا کہ پاکستان سے اب تک افغان مہاجرین کی مکمل واپسی کیوں نہیں ہو سکی اور اس کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟ریاستوں اور سرحدی امو ر کے وزیر ریٹائرڈ جنرل عبدالقاد ربلوچ نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولے” جناب!”باعز ت“ کا لفظ آگیا ،بس اس لفظ نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا۔

پاکستان نے عالمی برادری سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کی باعزت طریقے سے ان کے وطن واپسی ممکن بنائے گا۔اب صورت حال یہ ہے کہ افغان حکومت نے ان مہاجرین کی افغانستان میں آبادکاری کے انتظامات کے لئے جو وعدے کئے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا ۔

(جاری ہے)

جواز ان کا یہ ہے کہ افغانستان کی معیشت اس قابل نہیں اور نہ ہی عالمی برادری اس حوالے سے تعاون کر رہی ہے ۔

ایک جواز یہ بھی ہے کہ افغانستان میں ابھی تک امن قائم نہیں ہو سکا“۔
حالت یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کے مطابق پاکستا ن میں اس وقت پندرہ لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں اور وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ پارلیمنٹ کے فلور پر یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والے غیر رجسٹرڈ افغانیوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

مطلب !ریاست پاکستان یہ جانتی ہی نہیں کہ کتنے لاکھ افغانی ہیں جو پاکستانیوں کے منہ کا نوالہ چھین رہے ہیں ۔بعض حلقوں کے مطابق بلوچستان میں غیر رجسٹرڈافغان مہاجرین کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے اور اتنی ہی کراچی میں ۔صحت ،تعلیم ،مواصلات اور اس جیسی کتنی ہی سہولیات ایسی ہیں جو ان لاکھوں افغانیوں کو پاکستان کے ہر کونے میں میسر ہیں ۔

ظاہر ہے یہ اگر اپنے وطن چلے جائیں تو یہ سہولیا ت پاکستا ن کے عوام کو میسر ہوں ۔ ذرا غور کیجئے کہ کم از کم چالیس لاکھ افغانی اس وقت پاکستان میں موجود ہیں جن کی تعداد ایک بڑے شہر کی آباد ی کے برابر ہے۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ لاکھوں افغانیوں کے بارے میں ریاست پاکستان جانتی ہی کچھ نہیں کہ وہ کہاں ہیں ؟کیا کر رہے ہیں؟ان کا ذریعہ معاش کیا ہے؟پاکستانی معاشرے کو وہ کس انداز سے متاثر کر رہے ہیں اور ان سے ریاست پاکستان کو کیا خطرات لاحق ہیں ۔

یہ ایسے سلگتے ہوئے سوال ہیں جو نہ صرف حکومت بلکہ عوام کے لئے بھی تشویش کا باعث ہیں۔ اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ اجڑی مانگ لے کر امن کے سہاگ کی بھیک مانگتے عروس البلاد کراچی میں نہ صرف افغانی بلکہ بھارت اور دوسرے ملکوں کے شہری بھی بڑی تعد اد میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں ۔مزید تشویشنا ک بات یہ ہے کہ ان غیر ملکیوں خاص طورپرا فغانیوں نے پاکستان کے ایک حساس ادارے نادرا میں بھی ملازمتیں حاصل کر لی ہیں اور یہ اب اپنے ہم وطنوں کو پاکستان شناختی کارڈ جاری کرنے کے مکروہ دھندے میں بھی ملوث ہیں۔

یہ تو شکر ہے کہ موجودہ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے اس معاملے کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور اس پر قانون کے مطابق کارروائی بھی ہورہی ہے۔دوسری طرف ملک میں اٹھارہ برس کے بعد مردم شماری کی باتیں ہو رہی ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ مردم شماری سے پہلے افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجا جائے کیونکہ موجودہ حالات میں مردم شماری کے نتائج مشکوک ہو سکتے ہیں ۔

حالات کا فائدہ اٹھاکر افغان مہاجرین میں موجود شر پسند عناصر اپنی پاکستان میں موجودگی کو قانونی ثابت کرنے کے لئے اپنے سرپرستوں اور بدعنوان عناصر کی بدولت کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔
اقوام متحدہ افغان مہاجرین کے لئے جو کچھ کر رہی ہے وہ ان افغانیوں کے مفاد میں ہو تو ہو لیکن پاکستان کے قومی مفاد میں تو ہر گز نہیں ۔اس صورت حال نے پاکستانی سلامتی کے لئے شدید خدشات پید ا کردیئے ہیں جن کا اندازہ ہمیں بحیثیت قوم ضرور ہونا چاہیے ورنہ دہشتگردی کے خلاف آپ جتنی مرضی ”ضربیں “ لگا لیں کچھ نہیں ہونے والا۔

افغانستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحد پر امیگریشن کے قوانین کے سختی سے نافذ نہ ہونے سے لے کر دہشتگردی کے تمام بڑے واقعات کا ”کھرا“ افغانستان میں جانے تک ہر چیز ہمارے علم میں ہے۔جس ملک کوہم اپنا سب سے بڑا دشمن کہتے ہیں اس کے ساتھ ستر برس میں لڑی گئی جنگوں اور سرحدی جھڑپوں میں ہمار ااتنا جانی نقصان نہیں ہوا جتنے جوان ہم اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔

پاکستان میں بسنے والا ہر مسلم اورغیر مسلم اس کا بری طرح نشانہ بنا،ہمارے شیرخوار بچے،حسین و جمیل دوشیزائیں ،کڑیل جوان اور شفیق بزرگ سب لہو میں نہا گئے ۔آرمی پبلک سکول، چارسدہ یونیورسٹی،فضائی اڈوں اور جی ایچ کیو سمیت د ہشتگردی کے اکثر و بیشتر واقعات کا ”کھرا“افغانستان سے ہی نکلا۔ کسی کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی ،کسی کے مجرم وہاں سے آئے تو کسی کے سہولت کار لیکن ہم ہیں کہ ہمیں افغانستان کی ”عز ت“ کا غم کھائے جا رہا ہے۔

یاد آیا یہ اسی افغانستان کے باسی ہیں جنہوں نے تحریک ہجرت میں برصغیر کے مسلمانوں کی ایسی میزبانی کی تھی کہ جان بچا کر واپس آنے والوں کی زبان اذیت ناک کہانیاں سناتے ہوئے لڑکھڑ اجاتی تھی ۔ کوئی فرضی کہانی نہیں، یہ باتیں تاریخ کا حصہ ہیں اور تاریخ سے منہ موڑنا ممکن نہیں ۔ امور داخلہ کی پارلیمانی سیکرٹری مریم اورنگزیب نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا کہ طورخم کی سرحد پر امیگریشن کی قوانین مکمل طور پرنافذ نہیں جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں آمد و رفت کی مناسب نگرانی نہیں ہورہی ۔

کسی قدر اطمینان کی بات یہ ہے کہ مریم اورنگزیب کے بقول طورخم کی سرحد پر ایف آئی اے کے قوانین پورے طور پر جلد لاگو کردیئے جائیں گے تاکہ آمد ور فت قانونی ہو اور دہشتگردوں کی آمد ور فت بھی روکی جاسکے ۔ مقام شکر ہے ” یہاں تک تو پہنچے یہاں تک تو آئے“۔
اللہ بخشے مرحوم جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے راولپنڈی میں ان کے دفتر میں ایک نشست کے دوران خاکسار نے سوال کیا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ طویل سرحد پر بڑی تعداد میں فوجوں کی تعیناتی شائد پاکستان کے لئے فی الوقت ممکن نہیں تو کیوں نہیں پاکستان اس سرحد پرکوئی دیوارتعمیر کرے یا لوہے کی خاردار باڑ ہی لگا دے اور اس میں کرنٹ چھوڑ دیا جائے ۔

انتہائی بچگانہ جواب ” دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے “زور دے کر جنرل نے کہا ” ممکن ہی نہیں“۔ سوال یہ ہے کہ بھارت نے کشمیر کے دشوارگزار ترین پہاڑی علاقوں میں کنٹرول لائن اور ورکنگ باوٴنڈری پر کیسے خاردار تار لگا لی ہے ؟دنیا تو اب اس سے بھی آگے جا چکی ہے سرحدوں کی نگرانی لیزرشعاعوں کے ذریعے سینکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھے کنٹرول روم میں کی جاسکتی ہے اور فوری طور پر خلاف ورزی کو روکا بھی جاسکتا ہے اور ہم ہیں کہ اس کے امکان تک پر بات کرنے کو تیار نہیں۔

کس کو دھوکا دے رہے ہیں ہم؟۔
گزشتہ پینتیس برس سے افغانستان کا رستا ہوا ناسور پاکستان کے لئے مسلسل عذاب جاں بنا ہوا ہے ۔سب سے بڑی غلطی ہم نے یہ کی کہ ”برادرمسلم ملک“ کے باسیوں کو مہاجر کیمپوں میں محدود رکھنے کی بجائے کھلی چھوٹ دی اور آج ان افغانیوں میں سے ہی بعض عناصر کراچی سے کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی احسان فراموشی کی بدترین داستانیں رقم کر رہے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ اب ہم گزشتہ پینتیس برس کی غلطیوں کو سدھار لیں ۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کی اہمیت اپنی لیکن سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی ہمیں قومی مفاد کے تحفظ کے لئے ایک بھرپور اور ذمہ دارا نہ آپریشن کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کی اپنی معیشت خوشحال نہیں لیکن وہ دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کا ”پالنہار“ بنا ہوا ہے ۔افغانستان کی معیشت اچھی ہے یا نہیں یہ ان کا سردرد ہے ۔

سیکورٹی کے حالا ت اگر افغانستان میں اتنے ہی برے ہیں تو وہاں انتخابات کا انعقاد اور منتخب حکومت !چہ معنی دارد؟۔صاف بات یہ ہے کہ اب افغان مہاجرین کو ہر صورت ان کے وطن واپس بھیج دینا پاکستان کے قومی مفاد کا اولین تقاضا ہے۔یہ افغانوں کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک میں امن قائم کریں اور اس کی معیشت کو سنواریں ۔ پاکستان اگر ان کے لئے کچھ کر سکے تو ضرور تعاون کرے لیکن لاکھوں مہاجرین کے پاکستان میں قیام کا کوئی جواز نہیں ،اور وہ بھی بغیر کسی ریکارڈ کے ۔ظاہر ہے جو افغانی حکومت پاکستان کی نظروں سے چھپ کر یہاں بیٹھے ہیں وہ ریاست پاکستان کے دو ست یا ہمدرد تو ہیں نہیں ، تو پھر ہم کاہے کوان کی عزت کے لئے اپنے گھر کو آگ لگائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :